گلگت بلتستان یوتھ پالیسی2024

 وزیر اعلی گلبرخان کی زیر صدارت گلگت بلتستان کابینہ کا ساتواں اجلاس وزیر اعلی سیکرٹریٹ گلگت میں منعقد ہوا ۔ وزیر اعلی نے اسلام آباد سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کی صدارت کی۔ صوبائی کابینہ نے گلگت بلتستان یوتھ پالیسی 2024 کی منظوری دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس پالیسی کی منظوری سے گلگت بلتستان میں امور نوجوانان کے شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہشمند قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو آسانیاں پیدا ہوں گی ۔ کسی بھی قوم کی طاقت کا سرچشمہ اس قوم کے نوجوان ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم کے نوجوان بلند حوصلہ، باہمت، باصلاحیت اور امنگوں اور ولولوں سے بھر پور ہوں تو سمجھ لیجئے کے وہ قوم بساط عالم پر اپنا لوہا منواتی ہے لیکن مایوس، پژمردہ اور راہ بھٹکے ہوئے جوان جو اپنی خودی کو فراموش کرچکے ہوں، ایسے نوجوان جس قوم میں ہو وہ اپنی تنزلی کی طرف گامزن اور تباہی و بربادی کی الٹی گنتی ہے۔قوتوں، حوصلوں، امنگوں، جوش، عزائم اور ولولہ کا نام نوجوانی ہے۔ دنیا میں آج تک جتنے انقلاب آئے، چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصاد ی، معاشی ہو یا سماجی، سائنسی ہو یا اخلاقی ان سبھی کی پشت پر نوجوانوں کا رول سب سے اہم رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے کے انقلابات میں نوجونواں کا کردار جزلاینفک رہا ہے۔جس انقلاب یا تحریک کا ہر اول دستہ نوجوان ہوں، اسے تاریخ کا دھارا موڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کیوں کہ نوجوان جب کسی پیغام کو اپنا لیتے ہیں تو پھر اس کے نافذ کرنے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے ۔نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور کوئی قوم اپنے سرمائے کو ضائع نہیں کر سکتی ۔ آج ہمیں اپنے نوجوانوں کے مسائل کو جاننے اور ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔آج کے دور میں تعلیم خوشنما کیرئیر کا زینہ بن کر رہ گئی ہے ۔ تعلیم کا مقصد اچھی نوکری یا اچھے پروفیشن تک محدود ہوگیا ہے ۔ اخلاق سے عاری نصاب تعلیم، جو طالب علم کو ایک اچھامینیجر تو بنا دیتا ہے لیکن ایک اچھا انسان بنانے میں ناکام ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس فیکٹری سے نکلنے والا پروڈکٹ مادہ پرست اور ہوس کا پجاری بن کر رہ جاتا ہے ۔ ملت کا حال اس معاملہ میں اور بھی دگر گوں ہے ۔ مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کا گراف آبادی کے تناسب سے کافی نیچے ہے۔ قوموں کا عروج و زوال نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو قوم کی تقدیر بدل دیں اور چاہیں تو زوال کی داستان لکھ دیں۔قدرت نے انسان کو بے شمار خوبیوں، لیاقت، صلاحیتوں، کرشموں اور قابلیتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس کے اندر خوابیدہ صلاحیتیں قوموں کی کایا پلٹ دیتی ہیں۔ ہمت اور قوت حالات بدل دیتے ہیں۔بات صرف مصمم ارادے اور قوت ارادی کے جذبات پر مشتمل ہوتی ہے جو انسان کی روح میں تبدیلی کی روح پھونک کر سرفرازی کی طرف گامزن کر دیتے ہیں۔ لہذا ان باتوں کے پس پردہ یہ کہنا واجب ہو گا کہ تعلیم و تربیت ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ اگر آج ہم اپنی قوم کے بچوں کو حق آشنائی سے آگاہ کریں گے تو کل وہ سچائی کا دامن پکڑ کر تبدیلی کا مرکز بن جائے گا۔ ان کی زندگی دوسرے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بن جائے گی۔ ان کا کردار دوسروں کو اپنی مانند بننے پر مجبور کردے گا۔ اگر آج ہم دنیا کی تعمیر و ترقی کا جائزہ لیں تو اس حقیقت کے پیچھے تعلیم و تربیت کے عناصر کی افرادی قوت کار فرما ہے۔جیسے جیسے دنیا کے نوجوان تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوتے گئے۔ اسی قدر ترقی قوموں پر ترقی کے راز اور مکاشفے کھلتے گئے۔ عصر حاضر میں دریافتوں، ایجادوں، کرشموں نے قوموں کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے آج قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی ہیں۔ ان کے عروج کی بنیادی وجہ محنت شاقہ، احساس ذمہ داری، وقت کی قدر اور کردار کی قوت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جبکہ ہماری حالت زار ناگفتہ درجے تک جا پہنچی ہے۔ ممالک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی طرف چلے گئے۔ جب کہ ہم ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں کھڑے ہو گئے۔ اگر آج ہم مجموعی طور پر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، فرانس، سوئٹزرلینڈ، جاپان، آسٹریلیا اور کئی ایسے ممالک جنہوں نے اپنے لیے ترقی کے اہداف مقرر کیے۔وہ معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہیں۔جدید ٹیکنالوجی نے انہیں ایسا عروج بخشا ہے جہاں وہ غریب ممالک کو طبی مشینری اور تعلیم جیسی جدید مہارتوں سے روشناس کر رہے ہیں۔ انہوں نے وقت کی قدر کی ہے اور وقت نے انہیں سرخرو کیا ہے۔ آج سوچنے کا وقت ہے۔ ہمارا دنیا میں مقام اور کردار کیا ہے؟ ہم نے کن کن شعبہ جات میں ترقی کی ہے اور کن کن شعبہ جات کو نظر انداز کیا ہے۔ یقینا حقائق، نتائج اور شرح ہمارے سامنے آ جائے گی۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ہم نے ابھی تک کون کون سے اہداف حاصل کیے ہیں۔ترقی کے اہداف میں تعلیم، تہذیب اور تربیت اہم عناصر ہیں۔ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگرچہ یہ تین الفاظ معانی و مطالب میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس امر کے باوجود بھی وہ ایک مثلث بنا دیتے ہیں۔ تہذیب یافتہ لوگ ہمیشہ اپنی اقتدار و روایات، ثقافتی اقدار، بزرگوں کی قربانیاں، علم و ادب، ادب و احترام جیسی صفات اور اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اچھی تربیت ہمیشہ نیک نامی اور عزت و وقار میں اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ غیر تہذیبی عناصر ذلت و رسوائی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔اس وقت حکومت وقت، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر اداروں کو سر جوڑ کر نوجوانوں کے فکری معاش کے متعلق سوچنا چاہیے۔ان کے تاریک مستقبل کو روشن بنانا چاہیے۔ وسائل، آبادی اور مسائل پر قابو پانے کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل بنانا چاہیے تاکہ خوشحالی، روپے کی قدر میں اضافہ، قوت خرید کی سکت، بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی، بے روزگاری کی شرح میں کمی ممکن ہو سکے۔ ملک میں اس وقت نوجوان دوست پالیسیاں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار اور معیشت کو بحال کر سکیں۔ ہمیں یہ اعداد و شمار بھی اس حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں کہ موجودہ نوجوان نسل سابقہ دور کی دہائیوں سے بلحاظ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ فکری معاش نے نوجوانوں کو ایسے دل خراش واقعات نے دل برداشتہ کر رکھا ہے۔ بے روزگاری نے ہمارے نوجوانان ملت کو آج کہاں کھڑا کر دیا ہے۔ ہماری زندگی کے کیا کیا مقاصد اور کیا کیا اہداف تھے۔ سب کے سب ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں۔ مذکورہ باتوں اور واقعات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے۔ جیسے ہمارا تعلیمی، روحانی، اخلاقی تشخص مجروح ہو گیا ہے۔ان نوجوانوں کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ان کے تعلیمی، معاشی، اخلاقی اور معاشرتی حدود اربع کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بحران سے نکلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ انہیں ملازمتیں مہیا کر کے ان کا مستقبل روشن بنائیں۔ لوگوں کو قوانین پر عمل درآمد کروائیں۔ ان کی روحانی جسمانی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ محکموں کا چیک اینڈ بیلنس رکھیں۔ سگریٹ ،تمباکو ،یہاں تک کہ شراب نوشی ،یہ ایسی عادتیں اور روگ ہیں جو عین نوجوانی کی عمر میں ہی لگتے ہیں ۔ ایک بار کوئی ان کا شکار ہوجائے تو یہ امراض مرنے کے بعد ہی چھوٹتے ہیں یا اپنے شکار کو مار کر ہی دم لیتے ہیں ۔اس لیے اس دورمیں ان موذی اور جان لیوا امراض سے بچتے رہنے کی نوجوانوں کو بہت ضرورت ہے ۔ نوجوانی کے جوش میں کئی مرتبہ اچھے اور برے کی تمیز کرنا انسان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے اور اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب اور کس طرح کسی برائی میں مبتلا ہوچکا ہے ۔سوشل میڈیا کے دور میں ہر انسان سوشل میڈیا کی کھڑکیوں میں جھانک کر آتا ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال ایک حد تک اور ایک ضرورت تک تو مناسب ہے لیکن حد سے زیادہ استعمال ایک طرح سے نفسیاتی مریض بنادیتا ہے ۔اس نفسیاتی مرض میں سب سے زیادہ نوجوان ملوث ہیں ۔نیند کے علاوہ فرصت کا کوئی لمحہ شاید ہی ایسا گزرتا ہو جب فرصت ملے اور وہ سوشل میڈیا کی بھول بھلیوں میں نہ بھٹک رہے ہوں۔یہ ایک ایسا جنون ہے جس میں کھو کر ہم اپنے آپ کو فراموش کربیٹھتے ہیں ۔ہماری انگلیاں ہمیں اچھے برے ،جھوٹے سچے غرض ہر قسم کے تجربات سے چند سیکنڈوں میں سیر کروادیتی ہے اور اسی کو ہم حقیقی تصور کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش کے حالات جو بالکل فطری ہیں اور امن و سکون پر مبنی ہیں، کو بھو ل کر سوشل میڈیا کے مصنوعی حالات کو ہی حقیقی سمجھنے لگتے ہیں اس لیے کیرئیر کے انتخاب میں سب سے پہلے نوجوانوں کو جس منزل تک پہنچنا ہے اس کا انتخاب انہےں کرنا ہوگا پھر اس منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ اور طریقہ کار طے کرنا ہوگا تبھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اس کے لےے ان کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔انٹرنیٹ کے استعمال اور اباحیت زدہ مواد نے نوجوان نسل کو بری طرح سے اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ۔آسانی سے دستیاب ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون نے نوجوانوں میں بے راہ روی میں تیزی سے اضافہ کردیا ہے ۔ نوجوانوں کا ایک گروہ بے لگام جذباتیت کا بھی شکار ہے ۔ کسی کی آنکھ پر قومی عصبیت کی پٹی پڑی ہے تو کوئی مسلکی تعصب کا شکار ہے ۔ کوئی بھی چیز ایک حد تک تو ٹھیک ہوسکتی ہے لیکن اگر اس میں غلو ہوجائے تو اس قسم کی غلو پر مبنی عبادت سے بھی روک دیا گیا ہے ۔سوشل میڈیا میں مسلکی عصبیت کا یہ عالم ہے کہ بہت سے گروپ تو محض اس مقصد ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے یہ لوگ دین کے شیدائی نہیں شیطان کے پجاری ہیں ۔اس طرح کی لغو اور بے حاصل گفتگو میں ہمارے نوجوانوں کو وقت اور صلاحیت ضائع کرنے کے بجائے کچھ مثبت اور مفید کام انجام دینے چاہیں۔ اس لےے ےہ وقت ےوتھ پالےسےاں بنانے کا نہےں بلکہ عملی اقدامات کر کے نوجوانوں کےلئے کچھ کر دکھانے کا ہے۔