گلگت بلتستان کے نوجوانوں کےلئے فنی تعلیم کا کوٹہ

 وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے وزارت امورِ سمندر پار پاکستانی و ترقی افرادی قوت اور نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن میں اصلاحات کا فیصلہ کرتے ہوئے ملک گیر تکنیکی و فنی تعلیم کو یکساں کرنے اور بیرونِ ملک پاکستانی افرادی قوت کے بہتر روزگار کیلئے پاکستان اسکل کمپنی بنانے اور پاکستان اسکل ڈویلپمنٹ فنڈ کے فوری قیام کی بھی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی نوجوان افرادی قوت کو عالمی معیار کی تکنیکی و فنی تربیت کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے NAVTTC کو مزید فعال بنایا جائے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ NAVTTC رواں برس ساٹھ ہزار افراد کو تکنیکی و فنی تربیت فراہم کرے گا۔ وزیرِ اعظم کی ہدایت کے عین مطابق گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نوجوانوں کیلئے نہ صرف وفاقی سطح پر کوٹہ مختص کیا گیا ہے بلکہ انکی خصوصی تربیت کیلئے علیحدہ پروگرام کا اجرا کیا جا رہا ہے جس کا آغاز رواں برس جون میں ہو جائے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ تمام تکنیکی شعبوں میں عالمی شہرت یافتہ اور بین الاقوامی سرٹیفیکشنز یقینی بنائی جائیں اور نادرا و NAVTTC اور تمام صوبائی اداروں سے مل کر ملک میں اور بیرونِ ملک موجود افرادی قوت کا ایک مربوط اور منظم ڈیٹابیس بنایا جائے۔فنی تعلیم کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے معےشت کی ترقی کے لےے اس کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا۔ ہنرمند ایک تو کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا اوردوسرا یہ کہ ہنر مندی کی تعلیم دنیا بھر میں ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ وارانہ تعلیم ہے ۔ ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے لیکن ہمارے ہاں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے۔ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف چارسے چھے فی صد، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فی صدتک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے فروغ کے لیے قابل ذکر پیش رفت نہیں کرپائے۔ دنیا بھر میں کئی پاکستانی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، یہ اوورسیز پاکستانی مملکت کا خاص اثاثہ ہیں اور ملکی معیشت کا استحکام بھی ان پر کسی حد تک منحصر ہے۔ ان افراد میں سے بھی اکثر کم مدتی تکنیکی کورس کرنے کے بعد ہی ملازمت پاتے ہیں۔ چین، جاپان اور ان جیسے ماضی کے کئی تباہ حال ممالک نے بھی اپنے لوگوں کو ہنرمند بناکر ترقی کی منازل کو عبور کیا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت انتہائی مشکل میں ہے۔ ملک میں سیاسی عدم اعتماد اور باہمی رسی کشی کی وجہ سے استحکام کی کمی ہے۔ ایسے میں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کارخانے اور دیگر ادارے اپنے نقصان کو ختم یا کم کرنے کی خاطر ملازمین کی تعداد میں کمی کررہے ہیں۔ اس مایوس کن صورتحال میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی معاشی مشکلات اور مایوس کن صورتحال سے گزر رہے ہیں لیکن تکنیکی تعلیم رکھنے والے افراد مشکل وقت میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے معمولات زندگی بہتر انداز میں گزار رہے ہیں۔ اس دور میں یہ ثابت ہوگیا کہ واقعی ہنر دولت ہے۔دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں، جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا۔ہمارے ملک میں صرف چھے فی صد نوجوان فنی تعلیم پر دسترس رکھتے ہیں۔ہمارے ہاں فنی تعلیم کے لیے فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں نوجوان بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لے کر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے چکر کاٹنا شروع کردیتے ہیں مگر ہر طرف سے انہیں مایوس کن جواب ملتا ہے ۔اتنے بڑے انسانی وسائل کو اگر ہم مواقع فراہم کرسکیں تو یہ ہمارے پاس سونے اور تیل سے کہیں بڑا سرمایہ ہے۔پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے،ہنرمندی کا راستہ ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف حکومت کی جانب سے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور ملک میں نوجوانوں کے لیے تکنیکی تعلیم کے پروگرام شروع کیے جائیں بلکہ ملک بھر میں ایسی تشہیری مہم کا آغاز کیا جائے جس سے طلبا تکنیکی تعلیم کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ جب تک ملک بھر کے نوجوانوں میں تکنیکی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ملک سے بےروزگاری کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ کورس کرنے والے طلبا کے لیے پالیسی کو مزید سخت بنانا ہوگا ۔ حکومت اور عوام مل کر اگر سنجیدگی سے اس جانب توجہ دیں کہ ملک کے نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم دی جائے اور ہنرمند بنایا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی ترقی کی منازل طے کرجائیں گے۔نوجوانوں کی فنی تعلیم و تربیت سے نہ صرف ملک کی صنعت و حرفت اور زراعت کی ترقی میں قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ نوجوانوں کو فنی تعلیم سے ہم آہنگ ہونے پر اندرون اور بیرون ملک میں روزگار کے مواقع میں بے حد وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جو نوجوانوں روایتی تعلیم حاصل نہ کرسکیں وہ فنی تعلیم و تربیت ضرورحاصل کریں۔ ہمارے ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر کا حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ہمارے ہاں بہت کم تکنیکی تعلیم کے ادارے ہیں ۔ اداروں کی کمی اور جن جگہوں پر ادارے موجود ہیں، وہاں وسائل اور داخلے کی حد پوری ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے۔ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہر دور کے مختلف تقاضے اور مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں۔ انسان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی آنا چاہئے تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں وہ رزق کما سکے۔ جن ممالک نے عدم توجہی کے باعث اس دور کے ان تقاضوں کو فراموش کیا وہ آج بہت سے معاشی اور سماجی بحرانوں کا شکار ہیں۔ جاپان، چین اور کوریا ایسے ممالک میں سرفہرست ہیں جن کے افراد فنی اور تکنیکی صلاحیتوں میں باقی ممالک سے بہت آگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک تکنیکی میدان میں ہر شعبے میں چھائے ہوئے ہیں۔تکنیکی تعلیم کو کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے۔ جس ملک کے جتنے زیادہ افراد پیشہ وارانہ ہنر مندی کے حامل ہیں وہ ملک معاشی طور پر اتنا ہی زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوتا ہے۔ تکنیکی ہنر مندی اور وسائل میں کمی کے باعث بہت کم افراد ایسے ہیں جو اپنے تئیں کوئی کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔ان عوامل کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل جو کسی بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے، مایوسی اور کم ہمتی کا شکار ہوکر اپنی تعلیم سے ہٹ کر کسی عام کام سے روزگار کمانے لگتے ہیں جو تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے اور ملک بھی ان ثمرات سے محروم ہوجاتا ہے جو ان تعلیم یافتہ افراد سے ممکنہ طور پر مل سکتے تھے۔فنی تعلےم وقت کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم حاصل کرنے کی تحریک دی جائے۔ حکومت پاکستان اور نجی شعبے نے تکنیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کو قائم کیا ہے جہاں سے طلبا تکنیکی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کالجز یونیورسٹیاں تعداد میں بہت کم ہیں۔حکومت کو زیادہ سے زیادہ تکنیکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کو قائم کرنے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو مستقبل کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔جو لوگ خصوصی تکنیکی مہارت اور علم کے حامل ہیں وہ تکنیکی ماہرین کہلاتے ہیں۔ بڑھئی‘ڈرائیور‘میکانکس‘انجینئرز‘ڈاکٹر‘پائلٹ اور اسی طرح کے تکنیکی ماہرین ہیں۔تکنیکی تعلیم ایک ملک کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہے۔تعمیر کے ہر شعبے میں تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔فیکٹریوں، سڑکوں، پلوں، نہروں، عمارتوں، ہوائی اڈوں وغیرہ کو بنانے کے لئے تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہے۔ اگر ایک ملک کافی تکنیکی ہاتھوں کا مالک ہے تو یہ بلاشبہ ترقی کی رفتار کو دگنا کر رہا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے، کانوں میں کام کرنے کے لئے، فصلوں اور سبزیوں کو بڑھانے کے لئے اور اسی طرح ہم مختلف قسم کے تکنیکی ماہرین کی ضرورت ہے تکنیکی تعلیم ملک کی معاشی حیثیت کو فروغ دیتی ہے۔ اگر ایک ملک میں سامان کی زیادہ پیداوار ہے، تو یہ آسانی سے اپنے لوگوں کو کھانا کھلانا ہے۔غیر ملکی کرنسی دیگر ممالک کو اضافی پیداوار فروخت کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔اگر کوئی ملک کسی بھی مطلوبہ تکنیکی ماہرین کا حامل نہیں ہے تو اسے دوسرے ممالک سے ان کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان کی تنخواہ کے طور پر زیادہ پیسہ ادا کرنا ہوگا۔تکنیکی تعلیم بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بہت اہم ہے تکنیکی ہاتھ بے روزگار نہیں ہو سکتا وہ بہت شعبوں میں مدد کرتے ہیں دوسری طرف، تکنیکی ہاتھ دوسروں کو تعلیم دینے کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں کو آزاد بناتا ہے ۔وہ اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں اس طرح، تکنیکی تعلیم کی وجہ سے ہمیں بے روزگاری کے مسئلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔