ہم اور ہمارا معیار تعلیم

احسان علی دانش 

عہد حاضر کا نظام تعلیم اور معیار تعلیم، اساتذہ اور بچوں کے اخلاق بلکہ حسن اخلاق کے حوالے سے مختصر گفتگو کرنے کے لئے دلائل کے طور پر کسی سقراط ، افلاطون ،ارسطو ، رومی ، رازی ، غزالی ، شکسپیئر ، کیڈز‘ شیلے یا اقبال، فیض اور فراز کے فلسفے کا اقتباس پیش کرنے کی بجائے میری اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں معاشرے میں روز افزوں پیدا ہونے والی صورت حال کو مثالوں سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ ساتھ ہی اپنی بھی مثال پیش کروں گا کہ میں اپنی زندگی میں فقط شاعر بن سکا، ایک کامیاب، بیوروکریٹ ، سائنس دان، وکیل یا ڈاکٹر کیوں نہیں بن سکا۔ اس ضمن میں دیگر وجوہات کے علاہ ایک اہم وجہ پرائمری سے مڈل کی سطح تک سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کرنا تھا۔ یعنی ہمارے دور میں ٹیچر کی تمام کوشش رٹا لگوا کر یاد کرانا تھا۔ ہمیں 45 سال قبل آٹھویں میں یاد کردہ قائداعظم کے چودہ نکات کا لفظ لفظ آج بھی یاد ہے۔ یعنی

آئندہ آئین وفاقی طرز کا ہوگا جس میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی وغیرہ۔ 

میں سکول میں ہر صبح بچوں کی دعا لب پہ آتی پڑھنے والے ان طلبا میں شامل تھا جو سٹیج پر ہوتے تھے۔ مسلسل پانچ سال اسمبلی میں دعا پڑھنے والی پریکٹس کے باوجود 

دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہوجائے 

 ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

والے شعر کے پہلے مصرعے کا معنی یہی سمجھتا رہا کہ 

میرے دم سے دنیا میں دور تک اندھیرا ہو جائے

مگر کچھ سال قبل غور کرنے سے سمجھ آیا کہ اقبال

دنیا کے اندھیرے کو اپنے دم سے دور کرنا چاہ رہے تھے

اور جا بجا اپنے چمکنے سے پر نور کرنا چاہ رہے تھے

 چونکہ سمجھانے سے زیادہ یاد کرانے کا چلن عام تھا اس لئے ہم ماہر رٹا لگانے والوں میں شامل تھے۔ آج کہیں کبھی دماغ سے بولنے کی نوبت آئے تو ہمارے ادراک کے انجن کو بریک لگتا ےے اور ہم بری طرح پھنس جاتے تھے۔ اس ضمن میں بھی ایک دلچسپ سبق مجھے یاد ہے۔ کہ ایک مس نے اپنی کلاس میں کہا کہ پیارے بچو اردو کے پیپر میں کل بیس مضامین ہیں ۔ یعنی قائداعظم ، صبح کی سیر، علامہ اقبال، کبڈی میچ، ریل کا سفر، چھانگا مانگا کی سیر، والدین کا احترام وغیرہ۔ اب بچے کتنے مضامین زبانی یاد کریں۔ مس نے کہا: مجھے خبر ہے کہ کبڈی میچ والا مضمون ضرور آئے گا، اچھی طرح یاد کریں۔سب بچے مس پر اعتبار کر کے رٹہ لگانے لگے جیسے کبڈی کبڈی کبڈی۔ امتحاں ہال میں بیٹھ گئے تو بدبختی دیکھئے ریل کا سفر آیا تھا۔ اب یہاں کے کسی بچے نے کبھی ریل دیکھی نہیں۔ اس کی لمبائی چوڑائی کیا ہے، کتنے ڈبے ہیں، کس طرح مسافر سفر کرتے ہیں۔ پتہ نہیں۔ رٹا والے سبھی طلبا پھنس گئے مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے ایک آدھ بچے بھی تھے جو باتیں اپنے تئیں بنا کر لکھ سکتے تھے۔ انہوں نے جواب بنا کر لکھنا شروع کیا۔ باقی بچے ایک دوسرے کی طرف تکتے رہ گئے۔ جبکہ سمجھدار بچوں نے لکھنا شروع کیا کہ ہم پنڈی سے ریل میں سوار ہوگئے۔ ریل سٹیشن سے چل پڑی ابھی کچھ دیر چلی تھی ، ریل کا انجن خراب ہوگیا ریل رک گئی۔ اب ہم ڈبوں میں کیا کرتے ہم باہر نکل آئے تو باہر ایک میدان میں کبڈی میچ ہو رہا تھا۔ ہم نے ٹائم پاس کے لئے تھوڑی دیر کبڈی میچ دیکھا ۔ان نے جو کچھ رٹا لگایا تھا سب لکھ چھوڑا۔ دو صفحے کا مضمون بننے کے بعد آخر میں لکھا کہ اتنے میں ریل کا انجن ٹھیک ہو گیا ہم دوبارہ سوار ہوگئے۔ آگے رات کا اندھیرا مکمل چھا چکا تھا ہمیں کچھ نظر نہیں آیا ہم اگلے دن کراچی پہنچ گئے۔لو جی دماغ اور سوچ سمجھ استعمال کیا اور پورا نمبر آگیا ۔رٹا لگانا بھی نقل کرنے سے ہزار درجہ بہتر فعل ہے۔ شکر ہے کہ محکمہ تعلیم کے ارباب بست و کشاد کو جلد ہوش آیا اور نقل کرنے کے رجحان کو کم سے کم کردیا ورنہ ماضی قریب میں ہم تو خیر رٹا لگا کر پاس ہوگئے نقل کا حال ایسا تھا۔ 

ایگزام ہال میں یہ عجب کام کل ہوا

شیطان کے عمل سے بھی عمدہ عمل ہوا

نگران پھر رہے تھے جو اندر ہی ہال میں

پرچہ ہمارا میتھ کا باہر ہی حل ہوا

میٹرک پاس کرنے کے بعد نوکری حاصل کرنے کا حال یہ تھا

 نوکری اک چاہیے اچھی سے ڈائریکٹر جناب

مجھ کو عزت مجھ کو شہرت مجھ کو دولت چاہیے

مانگتا تھوڑی ہوں تم سے، لینا دینا ہے ہمیں

صاف بولو نوکری کی کتنی قیمت چاہیے

کہتے ہیں دنیا میں سب سے بہتر معیاری تعلیم فن لینڈ میں میسر ہے اور وہاں بارہ سال تک نصاب نامی کوئی شے ہی موجود نہیں اور پندرہ سال تک باقاعدہ کوئی امتحان نہیں لیا جاتا اور سب سے لمبا بریک بھی فن لینڈ کے سکولوں میں ہوتا ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے جب پوچھا گیا کہ آپ کیا پڑھاتے ہیں۔ جواب دیا میں بچوں کو خوش رہنا اور خوش کرنا پڑھاتا ہوں۔ اس تعلیم سے انہیں حساب کے مشکل سوالات حل کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی حال جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہے۔ سنا ہے وہاں بارہ سال تک صرف اور صرف اخلاق پڑھایا جاتا ہے۔ چونکہ تعلیم کا اصل مقصد دولت کمانا نہیں بلکہ انسانیت کو بنانا ہے۔ انسانیت خود عظیم دولت ہے اور ہمارے معاشرے میں ایسے ان گنت لوگ نظر آتے ہیں جن کے پاس تعلیمی استعداد تو بہت موجود ہے مگر انسانیت کی دولت سے خالی ہیں۔اخلاق کا سر چشمہ گفتگو ہے۔ خدا نے اپنے محبوب کو جس فضیلت سے سرفراز کیا وہ حسن خلق ہے۔ یعنی انک لعلی خلق عظیم ۔ 

اخلاق کا آغاز گفتگو سے ہوتا ہے اور عمل پر اختتام ہوتا ہے۔ گفتار و کردار دونوں انسان کی شخصیت کو برابر نکھارتے ہیں۔ گفتگو کے دوران لفظوں کا انتخاب لازم ہوتا ہے۔ میٹھی باتیں انسان کو رام کرتی ہیں۔ میں نے کبھی کہا تھا۔

رشوت سے نہ ڈالر کی چھپائی سے بنے گا

گھر میرا مشقت کی کمائی سے بنے گا

اخلاق کی نرمی تو نگل لیتی ہے انسان

سنتے ہیں کبھی زہر مٹھائی سے بنے گا

یا یہ بھی

 تم چک ژا کھورے لیگی مہ بیوس کھیانی سی بینگ بینگ 

گا زیرفی خپیرا چک پو لا لزوق نین نارے مسنینگ 

کھینگ نو ہرتانے دوکسے نا کھرا مید نارے جندینگ 

کھم چوئی کھا نہ اوت ژوخپو موتک چھونگفی خپیرونگ زیر ۔

سنا لا کوسے مک لم لا سوسے تھونگفی خپیرونگ زیر

گفتگو میں الفاظ کا انتخاب ترتیب سے ہو تو کانوں کو بھلی لگتی ہے، پھر خوشگواریت پیدا ہوتی ہے۔ خوشگواریت ایک پر لطف ماحول پیدا کرتی ہے اسی ماحول کو امن و آشتی کا ماحول کہا جاسکتا ہے اور گفتگو میں الفاظ کا انتخاب بے ترتیب ہو تو کانوں میں بری لگتی ہے۔ یہ برائی ناخوشگواریت پیدا کرتی ہے یہ ناخوشگواریت خلفشاری سے بھر پور ایک ماحول جنم دیتی ہے۔ اسی ماحول کو جنگ و جدل کا ماحول کہا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ 

ایک بادشاہ نے وزیر سے کہاکہ کسی پامسٹ یعنی دست شناس کو حاضر کیا جائے تاکہ وہ میرے ہاتھ دیکھ کر مستقبل کے حالات بیان کر سکے۔ وزیر نے کسی دست شناس کو حاضر کیا۔ بادشاہ سلامت کا ہاتھ دیکھتے ہی کہا ؛ بادشاہ سلامت آپ بڑے بد بخت ہیں۔ اس جملے کے سنتے ہی بادشاہ لال پیلا ہوگیا۔ بادشاہ سے مزید کہا گیا کہ آپ اس لئے بد بخت ہیں کہ آپ کی دونوں خوبصورت بیویاں، تینوں شہزادیاں اور چاروں شہزادے ایک ایک کر کے آپ کے سامنے مر جائیں گے اور آپ کو ان تمام کا دکھ برداشت کرنا ہوگا اس سے بڑی بد بختی اور کیا ہو سکتی ہے۔بادشاہ کے پسینے چھوٹنے لگے اور غصے کے عالم میں وزیر سے کہا: کم بخت کیسے فضول دست شناس کو لے آئے ہو۔ اسے زنداں میں ڈالا جائے اور کسی دوسرے اچھے دست شناس کو لے آﺅ۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وزیر نے دوسرے دست شناس کو ڈھونڈ نکالا۔ اس کو معلوم تھا کہ جس نے بادشاہ کا ہاتھ دیکھا ہے اسے سزا ملی ہے اور قید ہے۔ اس نے ہاتھ دیکھتے ہی کہا: واہ بادشاہ سلامت کیا قسمت ہے آپ کی۔بس یہ سنا تھا بادشاہ کی بانچھیں کھل گئیں ۔ بولا تیرے منہ میں من ڈیڑھ من شکر ۔ جلدی بولو؛ ایسی کونسی بڑی قسمت ہے؟ دست شناس نے کہا۔ آپ کی عمر بڑی لمبی ہے۔ آپ کبھی مریں گے نہیں۔ اگر کبھی مر بھی گئے تو اس وقت مر جائیں گے جب آپ کی دونوں خوبصورت بیویاں، تینوں شہزادیاں اور چاروں شہزادوں کے بعد آپ مریں گے۔بادشاہ کا چہرہ تمتمانے لگا اور وزیر سے کہا وزیر: فورا خزانے کا دروازہ کھولا جائے اور دست شناس کو انعامات و اکرامات سے نوازا جائے۔دست شناس نے کہا حضور: آپ سچ مچ مجھے انعام دینا چاہتے ہیں تو جسے آپ نے اندر کیا ہے اسے باہر کریں۔ بادشاہ نے کہا وہ تمہارا کیا لگتا ہے ؟ کہنے لگا وہ میرا استاد ہے۔ کہا استاد اور شاگرد میں اتنا فرق ۔ وہ کچھ اور کہہ رہا ہے اور تم کچھ اور کہہ رہے ہو۔ دست شناس نے کہا حضور: ہم دونوں نے ایک ہی بات کی ہے۔ فرق صرف الفاظ کی ترتیب کا ہے۔ اس نے آپ کے پیاروں کو پہلے مارا ۔ میں نے آپ کو بعد میں مارا۔

بچوں کی کردار سازی میں بڑا کردار خود بچے کا ہوتا ہے۔ اسے خود جب تک یہ شعور نہ آئے کہ مجھے نے بڑا ہو کر بڑا بننا ہے، استاد اور والدیں کی سعی پیہم بیکار جاتی ہے۔ آج معاشرے میں ایسے بہت لوگ نظر آئیں گے جن کو والدیں استاد اور سکول سب ہائی سٹینڈرڈ کے ملے مگر بڑا وہ ہرگز نہ بن سکے اور بعض بچے جو غریب گھر میں پیدا ہوئے عام سکولوں میں پڑھا اور خاص انسان بن گئے ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ لہذا استاد کو چاہیئے کہ بچوں میں آگے بڑھنے کی امنگ، لگن، شوق اور جذبہ پیدا کریں۔ جس دن بچوں کے دل میں اپنے آپ بننے کی لگن پیدا ہوگی اس دن سے والدین آزاد ہو جائیں گے۔ اور استاد شاد ۔ ایسی لگن پیدا کرنے کے لئے برننگ ایشو چاہئے۔ موت اور زندگی کا معاملہ ہو۔ یعنی کوئی آدمی غلطی سے کسی گھر میں اکیلا پھنس گیا۔ گرمی کی شدت سے پیاس لگ گئی مگر گھر کی ٹنکی، برتن اور ٹونٹیاں سب خشک ہیں۔ پانی کا نام و نشان نہیں اور صبح تک چند قطرے حلق میں نہیں پہنچے تو جان سے جانے کا قوی امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسے میں جان بچانے کے لئے اپنے جسم سے خارج ہونے والے پانی کے قطرے بھی ضائع کیے بغیر استعمال میں لائے گا۔ جان پر آئے تو انسان کا پیشاب کیا انسان کا خون بھی تو قابل استعمال ہو جاتا ہے۔ بلتی مقولہ ہے۔ 

ندی سمن لا کارفو کھی ہرکیاق:بس راہ علم و عمل کو بھی زندگی اور موت کا معاملہ سمجھیں تو کامیابی سے ہم کنار ہونے میں کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔چونکہ مخلوقات میں سے انسان طاقتور مخلوق ہے۔ اس نے فی الحال زمین سے اٹھ کر چاند تاروں میں کمندیں ڈالی ہیں، خلا کو مسخر کیا ہے، سمندروں کی موجوں کو اپنا فرمانبردار بنایا ہے ۔ نہجانے آگے مزید کیا گل کھلائے ۔ انسان کی کامیابی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی خود انسان ہے۔ ہمارے قرب و جوار میں، محلے گاﺅں میں، شہر ملک میں یہ کہنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ ارے یہ مشکل کام ہے تم کر نہیں سکتے ۔بس لفظ مشکل اور تم کر نہیں سکتے، ہماری کامیابی کی راہ کی دیواریں ہیں۔ جبکہ جن کو حوصلہ ملا وہ خدا کی اس کائنات سے باہر نکلنے کے چکر میں ہیں۔ یہ مشہور واقعہ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ دو بچے گھومتے گھامتے بستی سے باہر کہیں دور نکل گئے اور وہاں کسی کنوئیں سے پانی نکالتے ہوئے عمر میں بڑا والا بچہ کنوئیں میں گر گیا۔چھوٹا والا جو باہر تھا رونے پیٹنے لگا اور پکارا ہے کوئی میری مدد کرنے والا۔ چاروں طرف سناٹا۔ اس کو اس ویرانے میں دور دور سے حوصلے والی آواز نہیں آئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو سامنے کنویں کا ڈھول پڑا ہوا تھا۔ اس نے ڈھول کو کنویں میں پھینک دیا اور اپنے سے بڑے دوست کو مضبوطی سے پکڑنے کا مشورہ دیا۔ اور اپنی پوری طاقت لگا کر کھینچنا شروع کیا۔ بالآخر وہ دوست کو بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ دونوں بغلگیر ہوگئے، روئے دھوئے اور شام کو واپس بستی آگئے۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ اس واقعے کی خبر والدین کو ہو جائے تو ہمیں خوب ڈانٹ پلائیں گے لہذا کسی سے اس ہولناک حادثے کا تذکرہ نہیں کریں گے۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ انہوں نے خود اس راز کو فاش کیا مگر بستی والے ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ سب نے کہا کہ یہ بچہ کنوئیں سے خالی ڈھول کو کھینچ نہیں سکتا اپنے سے بڑے بچے کے ساتھ کیسے نکالا۔ یقینا کسی نے مدد کی ہوگی۔بچوں نے قسمیں کھائیں۔وہاں دور دور تک ہماری آواز سننے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ محفل میں ایک بزرگ بیٹھا تھا اس نے کہا یقینا اس چھوٹے بچے نے بڑے کو نکالا ہوگا۔ چونکہ چھوٹے نے اس ویرانے میں مدد کے لیے پکارا تو وہاں دور دور تک کوئی انسان موجود نہیں تھا۔ یعنی اس موقع پر کوئی یہ کہنے والا موجود نہیں تھا کہ بچہ یہ مشکل کام ہے اور تو یہ کام کر نہیں سکتا ہے۔ آج پر عزم لوگوں کو حوصلہ دے اور کہا جائے کہ کام بہت آسان ہے اور تم آسانی سے کر جاگے ۔ سب کام آسان لگیں گے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان عزت و احترام کا ایک زینہ ہوتا ہے جسے کبھی عبور نہیں کیا جاسکتا شاگرد چاہیے کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو۔ مولا علی علیہ السلام کا فرمان بھی ہے جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا آقا ہے۔جاپان میں تیسری جماعت تک صرف اور صرف اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں ہمارا ایک پاکستان جاپان ایر پورٹ پر اپنا تعارف بطور استاد کیا۔ اس کے بعد اسے لگا جیسے وہ پاکستانی مسافر نہیں بلکہ پاکستان کا وزیر اعظم سرکاری دورے پر ہے۔ ملک کے نامور دانشور اور قلم کار اشفاق احمد کو کسی معاملے میں اٹلی کی عدالت میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں جج صاحب کے سامنے اپنا تعارف استاد سے کیا۔ بس اتنا تعارف ہونا تھا عدالت میں موجود سبھی مرد و زن جج صاحب سمیت احتراما کھڑے ہوگئے ۔

 میں نے اپنے استاد کے بارے میں جو نظم کہی ہے اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ 

میں جو کچھ ہوں تیری قربت میں آکر بن گیا ہوں میں

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ گوہر بن گیا ہوں میں

اگر چہ میں بنا ہوں والدیں کی سعی پیہم سے

مگر استاد صاحب سے مکرر بن گیا ہوں میں

سخن المختصر ، یہ بھی کہاحسن سخن سیکھو

سخن فہموں کا کہنا ہے سخنور بن گیا ہوں میں

محبت سے کہا تھا ایک دن تم کتنے پیارے ہو

اسی دن سے زمانے بھر کا دلبر بن گیا ہو ں میں

مِیرا ظاہر میرے باطن کا پرتو ہو نہیں سکتا

میں اپنے آپ میں خود اپنے اندر بن گیا ہوں میں

مصغر کو مکبر اک نظر سے کردیا اس نے

کسی بے مایہ قطرے سے سمندر بن گیا ہوں میں

میرے استاد کی جب میں بہت تعظیم کرتا ہوں 

تو کہتے ہیں مسلماں مجھ سے کافر بن گیا ہوں میں

مِیں دانش بن گیا ہوں بس یہی پہچان کافی ہے

نہیں کہتا کہ غالب کے برابر بن گیا ہوں میں