محمد یوسف برکاتی
سب سے پہلے تو تمام عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو ربیع الاول کی آمد بہت بہت مبارک ہو قران مجید فرقان حمید میں سورہ عمران کی آیت 164 میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہوا کہ:ترجمہ کنزالایمان :بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمان پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔ربیع الاول کے معنی پہلی بہار کے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت مسلمانوں کے لئے پہلی بہار ہی کی طرح تھی۔ربیع الاول ہمارے اسلامی سال تیسرا قمری سال ہے ہجری سال کا ایک اہم سنگِ میل، اسلامی تاریخ میں نمایاں مقام اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ماہِ مبارک سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تشریف آوری کے حوالے سے ماہ و سال کی پوری تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔ پڑ ھنے والوں ماہ ربیع الاول کا مہینہ اسلامی تاریخ اور اسلامی مہینوں میں ایک منفرد مقام اور ایمیت کا حامل ہے اور اس ماہ مبارک کو جو بزرگی و برتری حاصل ہے وہ صرف اور صرف سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، صاحبِ لوح و قلم، سیدِ عرب و عجم، ساقی کوثر، شافعِ محشر، محبوبِ رب العالمین، سید المرسلین، خاتم النبیین،رحمة اللعالمین، سرورِ کونین، بشیر و نذیر، سراجِ منیر، امام الانبیا، آفتابِ دو عالم، حضرت محمد مصطفی، احمدِ مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت ہے۔ماہِ ربِیع النور شریف تو کیا آتا ہے ہر طرف موسِمِ بہار آ جاتا ہے۔ میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفے صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے دیوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، بوڑھا ہو یا جوان ہر ایک دل سے جھوم جھوم جاتا ہے جب کائنات میں کفر و شرک اور و حشت و بر برِیت کا گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بارہ ربِیع النورشریف کومکہ مکرمہ میں حضرتِ سیِدتنا آ مِنہ رضِی اللہ تعالی عنہاکے مکانِ رحمت نشان سے ایک ایسا نور چمکا جس نے سارے عالم کو جگمگ جگمگ کر دیا۔ سِسکتی ہوئی انسانیت کی آنکھ جن کی طرف لگی ہوئی تھی وہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہ نبوت سرکار مدینہ جنابِ رحمة الِلعالمین تشریف لے آئے ۔ ہمارے یہاں اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ربیع الاول میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو اس میں خوشی منانے کی کونسی بات ہے ۔لیکن روایتوں سے ثابت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشی منانے والوں پر اللہ تعالی کس طرح مہربان ہوتا ہے حضرت عروہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی جسے اس نے آزاد کر دیا تھا ۔اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مر گیا تو اس کے اہلِ خانہ میں سے کسی کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکھایا گیا۔ اس دیکھنے والے نے اس سے پوچھا: تمہارا حال کیا ہوا؟ ابو لہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں۔ اِس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ البتہ مجھے ایک عمل کی جزا کے طور پراس انگلی سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔اِسے امام بخاری، عبد الرزاق اور مروزی نے روایت کیا ہے۔ اسی حدیث کے متعلق حافظ شمس الدین محمد بن عبد اللہ الجزری اپنی تصنیف عرف التعریف بالمولد الشریف میں لکھتے ہیں: ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ہر پیر کومیری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی کا چشمہ نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیفِ عذاب میرے لیے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی گئی حالانکہ اس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی تھی، تو امتِ محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم میرے نزدیک اللہ تعالی ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت میں داخل فرمائے گا۔ آپﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے ساتھ ہی کفر و ظلمت کے بادل چھٹ گئے، کسری کے محل پر زلزلہ آیا، چودہ کنگرے گرگئے، ایران کا آتش کدہ جو ایک ہزار سال سے شعلہ زن تھا وہ بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہوگیا، کعبے کو وجد آگیا اور بت سر کے بل گر پڑے۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: بے شک سرور عالمﷺ کی شب ولادت شب قدر سے بھی افضل ہے، کیوں کہ شب ولادت سرکار مدینہ کے اس دنیا میں جلوہ گر ہونے کی رات ہے۔ جب کہ لیل القدر آپ ﷺ کو عطا کردہ شب ہے ۔ الحمداللہ 12ربیع الاول مسلمانوں کے لیے عیدوں کی بھی عید ہے، یقینا حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں میں شاہِ بحر و بر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید، عید ہوتی، نہ کوئی شب، شب برات، بل کہ کون و مکان کی تمام تر رونق شان اس جانِ جہان محبوب رحمن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی دھول کا صدقہ ہے ۔اگر ہوسکے تو 12 ربیع الاول کے دن روزہ رکھ لیجئے اور یا پھر اس کے آگے پیچھے آنے والی پیر کے دن روزہ رکھ لیجئے کہ آپ علیہ وسلم پیر کو روزہ رکھ کر اپنی ولادت کا دن مناتے تھے ۔حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی لہذا جشن عید میلاد النبی انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اور پورے جوش و خروش کے ساتھ منانا چاہیئے ۔ جشن عید میلاد النبی مناتے وقت چند احتیاط بھی بہت ضروری ہیں جیسے آپ کی وجہ سے کسی کو زحمت نہ ہو اور انسانیت کا احترام قائم و دائم رہے سڑک پر جلوس کی شکل میں گزرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ اسپیکر کی آواز آہستہ ہو کہ کوئی بوڑھا ، بیمار ، بچہ یا سویا ہوا شخص آپ کی وجہ سے پریشان نہ ہو ورنہ آپ کی ساری محنت شرعی طور پر رائیگاں چلی جائے گی اسی طرح سڑکوں کو سجانے کے لئے ایسا کوئی کام نہ کریں کہ ٹریفک متاثر ہو یا گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ۔چراغاں دیکھنے کے لئے عورتوں کا بے پردہ مردوں کے بیچ نکلنا شرعی اعتبار سے ناجائز و حرام ہے اور مردوں کے درمیاں گزرنا انتہائی شرم ناک عمل ہے بالکل اسی طرح مساجد ، گھروں اور سڑکوں کی سجاوٹ کے لئے بجلی کی چوری بھی ناجائز و حرام ہے اس کے لئے بجلی فراہم کرنے والے محکمہ سے بات کرکے جائز طریقے سے چراغاں کیجئے تاکہ آپ کی خوشی بھی جائز ہوجائے جلوس کے دوران نماز کے وقت کا خاص خیال رکھیں اور کوشش کریں کہ باوضو رہیں تاکہ بوقت نماز کہیں پر بھی نماز ادا ہوسکے ۔کوشش کریں کہ جلوس میں گھوڑا گاڑی یا اونٹ گاڑی کا استعمال نہ ہو کیوں کہ ان جانوروں کی پیشاب اور لید سے لوگوں کے کپڑے ناپاک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اسی طرح جب کوئی چیز تقسیم کرنا ہو یعنی پھل فروٹ وغیرہ تو اچھالنے اور پھینکنے سے گریز کیجئے بلکہ لوگوں کے ہاتھوں میں دیجئے تاکہ کھانے پینے کی اشیا کی بےحرمتی نہ ہو اسی طرح زور و شور سے نعرہ بازی آپ کے جلوس کو منتشر کرسکتی ہے لہذا امن و امان کے ساتھ رہنے میں ہی ہماری بقا بھی ہے اور ہم اجر و ثواب کے مستحق بھی ہوں گے ۔ نعمت خداوندی میں اپنے رب کا شکر ادا کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا خود اللہ رب العزت کا حکم ہے قران مجید فرقان حمید کی سورہ یونس کی آیت 58 میں ارشاد ربانی ہوا کہ ترجمہ: تم فرماﺅ اللہ ہی کے فضل اوراسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔مطلب یہ کہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ رب تعالی کا حکم ہے اور ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے لئے جشن عید میلاد النبی سے بڑی رحمت اور فضل کیا ہوگا کہ رب تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو اس دن دنیا میں بھیجا اور ہر عاشق رسول خوشی مناتا ہوا نظر آتا ہے ایک اور جگہ قران مجید میں ارشاد ہوا کہ سورہ الضحی :ترجمہ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ سرکار صلی اللہ تعالی علیہِ وآلِہ وسلم اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت ہیں اور نعمتِ الہی کا چرچا کرنا حکمِ خداوندی ہے۔ لہذا مسلمان حبیبِ اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ تعالی علیہِ وآ لِہ وسلم کو نعمتِ الہی سمجھتے ہوئے محفلِ میلاد کی صورت میں اسکا چرچا کرتے ہیں جگہ جگہ نعت خوانی کی محافل منعقد کی جاتی ہیں اورمختلف محافلوں میں مستند علما کرام سرکار علیہ وسلم کی شان و عظمت کا بیان کرتے ہیں اس کے علاوہ اپنے گھروں مساجد سڑکوں اور راستوں کو خوب سجاتے ہیں اور اپنے اپنے شہروں میں جلوس کی شکل میں نعتیہ کلام کی صداﺅں کے ساتھ رواں دواں ہوتے ہیں اور جگہ جگہ نذرونیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ سب کچھ صرف اور صرف سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہوتا ہے اور یہ کام صرف عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کرسکتے ہیں ۔جتنا ہوسکے 12 ربیع الاول تک درود پاک پڑھ کر جمع کیجئے قرآن مجید کے ختم کیجئے اور پھر عید میلاد النبی کے دن اپنے آقا و مولا مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیجئے اور پھر دیکھےے کہ آپ کی زندگی میں کتنی خوشیاں اور کتنی بہاریں چھما چھم برسیں گی کیوں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد عالیشان ہے کہ تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک میں تمہاری ماں باپ جان و مال اولاد یعنی ہر شے سے زیادہ محبوب نہ ہوجاﺅں ۔ تو پھر ایسی ہستی کی آمد پر خوشی مناکر ہم اپنا ایمان بھی مکمل کرلیں اور ہماری رب تعالی کی سب سے بڑی نعمت یعنی آمد سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم خوشی مناکر اپنے رب کو بھی راضی کرلیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی بلندی کی زمین والوں کو کیا خبر ان فرش والوں کو کیا خبر کہ آپ علیہ وسلم کی شان و عظمت کیا ہے اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ اے حبیب جہاں اور جب میرا ذکر ہوگا وہاں تیرا ذکر ہوگا اور اللہ تبارک و تعالی کا ذکر زمین پر بھی ہوتا ہے اور آسمانوں پر بھی یعنی عرش پر بھی تو فرش پر بھی تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی ہر جگہ موجود ہے بلکہ جنت میں بھی آپ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا ہے‘ حدیث میں ہے کہ جنت کے درختوں کے ہر پتے پر سرکار علیہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے زیادہ سربلندی کائنات کی سلطنت اور بادشاہت صرف اور صرف آپ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے آپ علیہ وسلم یقینا شہنشاہ کونین ‘ نبی آخرالزماں اور محبوب رب العالمین ہیں کتب سیر میں ہے کہ جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک بڑی جماعت کے ساتھ تین جھنڈے لیکر زمین پر اترے تھے ایک جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر نصب کیا دوسرا جھنڈا آقا علیہ وسلم کے ولادت کدے یعنی خانہ اقدس پر اور تیسرا جھنڈا بیت المعمور پر نصب کیا بیت المعمور عین خانہ کعبہ کی سیدھ پر واقع ہے جو فرشتوں کا خانہ کعبہ ہے ۔(کتب سیر۔۔۔۔وہ تمام کتابیں جو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ پر لکھی گئی ہوں) میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس صبح اولیں سے اب تک چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی جب اس عظیم ترین ہستی کے پرد عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو مسلمانانِ عالم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ماہِ ربیع الاول کا یہ مقدس دن اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نویدِ جشن لے کر طلوع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس روزِ سعید کو بڑھ چڑھ کر مناتا ہے عید میلاد النبی ایک تہوار یا خوشی کا دن ہے جو دنیا بھر میں مسلمان مناتے ہیں، یہ دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن خصوصا ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبیﷺ کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ بارہ ربیع الاول کو تمام اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگرابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے۔ تو اس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضا ہموار کرتا ہے، صلواة و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور امت نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔سیرتِ طیبہ کی اہمیت اجاگر کرنے اور جذب محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اسوہ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔ہمیں ایک اہل ایمان مسلمان اور سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے ناتے ہر سال سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت کا جشن بھرپور طریقے سے منانا چاہیے اور اپنی خوشی کا اظہار بالکل اسی طرح اور اسی انداز سے کرنا چاہیئے جیسے صحابہ کرام انبیا کرام اور خود اللہ تعالی کی ذات بابرکت نے اظہار فرمایا ہم فی زمانہ گناہوں کی بڑے گہرے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ہوسکتا ہے کہ ہمیں بھی اس خوشی منانے کے طفیل بروز محشر ان گناہوں سے نجات مل جائے ان شا اللہ