آٹھ فروری کے انتخابات اور گلگت بلتستان؟

عاشق فراز

نقارہ بج چکا ہے اور آٹھ فروری کا دن پاکستان میں الیکشن کے لئے مقرر ہوگیا ہے۔ ایک ھفتہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے مگر وہ گہما گہمی نظر نہیں آرہی ہے جو کبھی ماضی میں اس طرح کے انتخابات میں دیکھنے کو ملتی تھی۔نگران حکومت کے دنوں میں ہی شک و شبہ کے سائے رینگتے نظر آئے کہ الیکشن ہونگے کہ نہیں بلکہ یہ درفنطنی چھوڑی گئی کہ نگران حکومت کی معیاد آگے بڑھائی جارہی ہے۔ عدالت عالیہ میں رٹ ڈالی گئی اور وہاں سے بھی یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ آٹھ فروری پتھر پر لکیر ہے۔الیکشن مہم سست رفتار سے چل رہی ہے جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ گو کہ پاکستان کو بنے ہوئے پچھہتر سال گزر گئے ہیں مگر اب تک سیاسی بصیرت اور بالغ نظری مفقود ہے۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بیشتر حصہ فوجی آمریتوں کی نظر رہا اور بچے کچھے حصے میں بھی نام نہاد سیاسی لیڈرشپ کی نااہلی اور کوتاہ نگاہی نے سیاسی مزاج کو مضبوط ہونے نہیں دیا اور بقول سابق وزیراعظم خاقان عباسی کے صرف ملازمت ہی کی ہے۔ اس صورتحال کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی سیاسی لینڈ سکیپ بے رنگ اور میچور طرز حکمرانی سے خالی دکھائی دیتا ہے۔اب تو گزشتہ چار پانچ سالوں سے یہ حال ہے کہ وہ مباحث جنہیں سیاسی جماعتوں اور رہنماﺅں نے حل کرنا ہے اس کے لئے بھی سپریم کورٹ میں روز عرضیاں ڈالی جاتی ہیں۔ کس پارٹی کو کون سا انتخابی نشان ملنا چاہئے یہ بھی عدالت طے کرے گی، کون کس پارٹی کا چیئرمین یا سربراہ رہ سکتا ہے یہ بھی عدالت فیصلہ کرے گی، کب الیکشن ہوں گے اس کو بھی عدالت نے دیکھنا ہے، کون زاہد و پارسا ہے اس کا تعین بھی عدالتی مہر سے ہوگا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پلیٹ فارم ، سینٹ کا اعلی ادارہ، سیاسی جماعتوں کی رابطہ کاری کا عمل ، مفاہمت اور گفتگو کا روایتی نظام، مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کا رواج سب دم توڑ گیا ہے۔ سب نے چپ سادھ لی ہے دراصل یہ سیاسی تنزلی کی واضح علامت ہے کہ سیاسی فیصلے بھی کہیں اور ہو رہے ہیں۔ادھر ملک سخت معاشی بحران کا شکار ہے کسی بھی ایشو پر دنیا بھر میں ہماری نہیں سنی جارہی ہے اور حد تو یہ ہے کہ لوگ بحری جہازوں کی ٹینکوں اور کشتیوں میں چھپ کر یورپ فرار ہونے کی کوشش میں جان گنوا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ الیکشن نہایت اہمیت کے حامل ہیں مگر کسی بھی جماعت کا دھیان معشیت کی بہتری ، انصاف کی فراہمی اور ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام کی طرف نہیں بلکہ تحریر و تقریر میں صرف مخالفین کی کردار کشی ہی کو حرز جاں بنا رکھا ہے۔ارد گرد کے ہمسایہ ممالک کو دیکھ لیں کوئی جی ٹوئنٹی میں شامل ہوگیا ہے تو کوئی ایکسپورٹ میں بازی جیت رہا ہے۔ کوئی اقوام متحدہ کا مستقبل ممبر بنے کے قریب ہے تو کوئی گرامین بنک جیسی ہمہ گیر معاشی ترقی کے طور طریقے اپنا کر نوبل انعام پا رہا ہے مگر ہماری ترقی کی سوئی تو اٹک کر رہ گئی ہے بقول شاعر نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔یہ باتیں تو عمومی نوعیت کی ہیں مگر ایک خاص بات جس کے لئے یہ تذکرہ چھڑگیا ہے وہ یہ کہ نئی آنے والی حکومت کے پاس گلگت بلتستان کو دینے کے لےے کیا خاص ہے؟گلگت بلتستان اس وقت سخت بحران کا شکار ہے ، گندم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تمام اضلاع میں دھرنے اور ہڑتال کا ماحول ہے۔ دوسری طرف سکردو سمیت دیگر بڑے شہر اور قصبات میں شدید قسم کی لوڈ شیڈنگ سے کاروبار حیات میں سخت خلل پیدا ہوا ہے۔ بڑھتی بے روزگاری اور صحت کی سہولیات کا فقدان ایک الگ مسئلہ ہے جس کے حل لئے صوبائی حکومت بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان کوآرڈینیشن کا بڑا ایشو ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وفاق اور گلگت بلتستان میں حکومتوں کے قیام میں دو سال سے زائد عرصہ کا فرق موجود ہے۔بظاہر یہ فرق قانونی ٹائم فریم کی وجہ سے ہے مگر اس کے سیاسی اثراتِ عملی طور پر گلگت بلتستان میں کوئی اچھا اثر نہیں ڈال رہے ہیں۔اس صورت حال کو ماضی قریب کی ایک مثال سے واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ 2018 میں جب گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال ہوچکے تھے اور یہی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حد تک تو بات ٹھیک تھی مگر جونہی وفاق میں حکومت کی مدت ختم ہوکر نئی حکومت آئی اس نے گلگت بلتستان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا حالانکہ یہاں تین سال کا عرصہ باقی تھا۔ یہ کھیل ماضی بعید میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کے ساتھ ہوچکا ہے جب وفاق میں تبدیلی آگئی اور مخالف پارٹی کی حکومت بن گئی تھی۔وفاق میں آنے والی ہر حکومت گلگت بلتستان کی حکومت کے ساتھ دو طرح کا سلوک کرتی ہے جس سے سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور مسائل کے انبار میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں وفاق سے پہلا کام یہ کیا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبران میں حمیت جگا دی جاتی اور اچانک ان کا ضمیرجاگ جاتا ہے اور انہیں اپنی حکومت میں نقص نظر آتے ہیں۔ یوں وہ عوامی مفادکے نام پر اپنی حکومت کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں جس سے اکثر صوبائی حکومت گر جاتی ہیں جس کی تازہ مثال اس وقت کی صوبائی حکومت کی شکل میں موجود ہے۔اگر یہ حربہ کارگر نہ ہوں اور اگر ممبران سخت جاں نکلے تو وفاقی حکومت گلگت بلتستان کا جو قلیل سا ڈویلپمنٹ فنڈ ہے اس کو روک لیتی ہے اور جاری شدہ پراجیکٹس نہایت سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو صوبائی حکومت کو لولا لنگڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ عوام کے سامنے ذلیل و خوار ہوں اور یوں اگلے صوبائی الیکشن وہ پارٹی ہار جاتی ہے2009 سے لیکر اب تک اسی طرز کا یک رخا ڈراما چل رہا ہے ہاں ایکٹر ضرور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس مخمصے کا ایک حل یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے صوبائی انتخابات وفاق اور دوسرے صوبوں کے ساتھ کروائے جانے تاکہ جو بھی صوبائی حکومت بنے وہ سکون سے کچھ کام کر سکے۔بات چل رہی تھی کہ نئی آنے والی وفاقی حکومت کے پاس گلگت بلتستان کے لئے کیا کچھ ہوگا۔ اس کو جانچنے کے لئے پہلے مرحلے میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے الیکشن کے لئے جو منشور جاری ہوئے ہیں ان کو دیکھ لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کا حال تو فی الحال پروگرام وڑ گیا جیسا ہے۔ گو کہ ان منشورات کا تعلق حقائق سے بہت کم ہوتا ہے ان میں زیادہ تر لفاظی کی جاتی ہے اور پریکٹیکل چیزیں کم ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ اس حوالے سے اہم ہیں کہ یہ نام نہاد منشور بڑی جماعتوں کی طویل مدتی منصوبہ بندی اور ملک چلانے کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتے ہیں۔ انہی منشور سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جنہیں ہم اپنی زعم کے مطابق قومی لیڈرشپ مانتے ہیں ان کے فہم و ادراک کی سطح کس لیول کی ہے۔پیپلز پارٹی نے انتخابات کے حوالے سے دس نکاتی ایجنڈا سامنے رکھا ہے جس کی بنیاد پر الیکشن مہم کے دوران اپنا سیاسی بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ ان دس نکات میں جمہوریت ، مساوات اور سماجی ترقی کی بات کی گئی ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ نون نے قدرے تاخیر سے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق وہ پاکستان کی خوش حالی کے لئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ نون کی حکومت آئے گی تو وہ گلگت بلتستان کی موجودہ حےثیت میں کیا تبدیلی لائے گی۔ اس وقت گلگت بلتستان 2018 کے جاری کردہ صدارتی آرڈر پر چلایا جارہا ہے جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو عدالت عالیہ نے اپنی رائے سے مشروط کر دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی پچھلی حکومت میں مرحوم سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی آئینی سفارشات تیار کرے تاکہ اسے عملی جامہ پہنا کر خطے کی محرومی کا خاتمہ کیا جاسکے۔سرتاج عزیز کمیٹی نے اس پر بڑی محنت کی، تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیا اور لیگل سٹیٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین پاکستان میں کچھ جزوی ترامیم کے تحت گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے کی تجویز دی تھی لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت کو اس پر عملدرآمد کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اور یوں یہ تمام ایکسرسائز دھری کی دھری رہ گئی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی لیڈرشپ نے نواز شریف کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس بات پر یقین اس لئے بھی ہوتا ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی تجاویز کو بالائے طاق رکھ کر مسلم لیگ نون کی حکومت نے 2009کے گلگت بلتستان گڈ گورننس آرڈر پر کچھ سطحی ترامیم کرکے اسے نافذ کرنے کی کوشش کی جسے عوامی سطح پر نہیں سراہا گیا۔کیا اب کے بار مسلم لیگ نون کی اگر حکومت بنتی ہے تو وہ الماری میں پڑی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو جھاڑ پھونک کر اسے نافذ کرنے میں سنجیدہ ہوںگی یا وہی ہم کچھ کریں گے کی رٹ پنڈولم کی طرح جاری رہے گی۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے2009 میں گلگت بلتستان گڈ گورننس آرڈر جاری کیا یوں پہلی دفعہ صوبائی طرز کی حکومت کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے یہ خطہ شمالی علاقہ جات کہلاتا تھا جو ایک جغرافیائی سمت تو تھی لیکن خطے کی پہچان نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے مقامی مشاورت سے گلگت بلتستان کے نام سے تبدیل کیا اور اسے اچھا تصور کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں گلگت بلتستان سے فیوڈل سسٹم ختم کو کیا گیا تھا اور اشیائے خورو نوش پر سبسڈی دی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران بھی ناردرن ایریاز کونسل میں کچھ اہم تبدیلیاں کی گئی تھیں اور سپریم کورٹ کے 1999کے فیصلے کو مدنظر رکھ کر کچھ پولیٹیکل اور جوڈیشل اصلاحات کی گئیں۔اب اس پارٹی کی باگ ڈور بلاول بھٹو نے سنبھال لی ہے اور آنے والے الیکشن کے لئے وہ جلسہ جلوس میں مصروف ہیں۔2018کے گلگت بلتستان کے الیکشن میں وہ یہاں گاﺅں گاﺅں گئے اور الیکشن کمپین کی باگ ڈور بھی خود سنبھال رکھی تھی۔ وہ مقامی قیادت کے علاہ عام کارکنوں اور پارٹی ورکرز کے ساتھ کھلے ڈھلے ماحول میں ملے ہیں۔ ان پر یقینا یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ گلگت بلتستان کی عوام کیا چاہتی ہے اور ان سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہےں۔ کیا وہ گلگت بلتستان کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کوئی بڑا کام کر کے اپنی الگ تاریخ بنا پائیں گے یا صرف زندہ ہے بھٹوکی گردان الاپتے رہیں گے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔