سید جعفر شاہ کاظمی
پوری دنیا میں اب تک 28صدور، وزرائے اعظم سمیت اقوام متحدہ کے ایک سیکرٹری جنرل فضائی حادثات میں موت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا حادثہ سویڈن کے وزیراعظم Arvid Lindman کو 9 دسمبر 1936 میں برطانیہ میں پیش آیا۔ 7 ستمبر 1940 کو Paraguay کے صدر،4 جولائی 1943 کو Poland کے وزیراعظم، 17 مارچ 1957 کو فلپائن کے صدر Ramon Magsasay، 17جون 1958 کو برازیل کے صدر Nereu de Oliveira 13اپریل 1966 کو عراق کے صدر عبدالسلام عارف، 16 اکتوبر 1986 کو موزمبیق کے صدر 17 Samora Moisesاگست 1988 کو صدر پاکستان محمد ضیاءالحق ، 10 اپریل 2010 کو پولینڈ کے صدر Lech Aleksander یکم جون 1987 کو لبنان کے وزیراعظم راشد کرامی، 18 ستمبر 1961 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل Dag Hammarskjoldاور اب 19 مئی 2024 کو صدر اسلامی جمہوری ایران آیت اللہ ابراہیم رئیسی اپنے رفقا کے ساتھ ایک المناک فضائی حادثے میں شہید ہوگئے۔ جیساکہ ہوتا آیا ہے کہ جب بھی اس طرح کے بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں تو کئی طرح کے سازشی نظریات بھی زبان زد عام ہوجاتے ہےں۔ جیسے ہمارے صدر مملکت جنرل ضیاءالحق کے فضائی حادثے کے بعد تین طرح کے سازشی نظریات بہت مشہور ہوئے جنہیں مورخین ،خاص کر مرحوم جنرل پرویز مشرف نے اپنی خود نوشت سوانح حیات In The Line Of Fire میں تفصیل سے لکھا ہے۔بالکل اسی طرح جب سے ایرانی صدر جمہوریہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیرحسین عبدالہیان، گورنر و امام جمعہ تبریز آیت اللہ محمد علی آل ہاشم و دیگر رفقا 19 مئی کو ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے ہیں تب سے مختلف قسم کے سازشی نظریات، انقلاب اسلامی ایران کے حوالے سے مختلف اندیشے زیر بحث ہیں۔ چونکہ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں قوم، نظریہ، اقدار اور نظام ریاست و سلطنت سمیت آئین و قانون کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ۔لہذا لوگ اس طرح کے بڑے واقعات کو سہنے کی قدرت ، طاقت اورعادت نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی تو آدھا ملک تو خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے جلا دیا تھا۔ جبکہ ایران میں اس طرح کے کئی قومی سانحات رونما ہوچکے ہیں مگر مجال ہے ایک گملے کو بھی نقصان پہنچا ہو۔بلکہ بقول امام راحل خمینی بت شکن رحمتہ اللہ علیہ اس طرح کے واقعات کو انقلابی تحریک کی کامیابی کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ ایرانی صدر اور رفقا کی اس المناک حادثے میں شہادت کے بعد کئی طرح کے سوالات گردش میں ہیں جیسے تبریز کے تین سادات آئمہ جمعہ ہی کو شہید کیوں؟ قدامت پسند صدور جبکہ انہیں رہبر معظم و پاسداران انقلاب کی دلی تائید حاصل ہوتی ہے کو زیادہ سیکیورٹی خدشات کیوں؟ امریکہ یا اسرائیل کو سپریم لیڈرکے قریبی ساتھیوں کی قتل میں دلچسپی کیوں؟ لہذا اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے بلواسطہ یا بلا واسطہ ان سوالات کے جوابات تلاش کیے جائیں ۔ایک بات تو واضح ہے کہ دشمن انقلاب اسلامی کو ہر ممکن نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ایرانی تہذیب ، قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے اور یہاں کا شہنشاہی نظام بھی دنیا کے طاقتور اور پرانے نظاموں میں سے ایک تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد صفوی و قاجار دور تک شہنشاہ اور مرجعیت، قدرت و طاقت کے دو متوازی مگر متوازن محور تھے مگر پہلوی دور میں اس توازن کو خراب کرنے کی کوشش اور کش مکش شروع ہوئی۔مزید یہ کہ 11 فروری 1979 سے پہلے ایران نہ صرف مشرق وسطی میں بلکہ پوری دنیا میں امریکہ کا سب سے قریبی اور طاقتور دوست جانے جاتے تھے۔مشرق وسطی سمیت ایشیائی طاقتوں کی نگرانی بھی یہیں سے کی جاتی تھی۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کو مسند اقتدار پہ بٹھانے کے بعد امریکہ نے ایران کی مسلح افواج کو اتنا مضبوط کیا کہ دنیا کی پانچویں مضبوط فوج بن گیا۔70 کی دھائی میں ایران کی فوج سات لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی۔ دنیا کا سب سے بڑا امریکی سفارتخانہ بھی ایران میں ہی قائم تھا۔ایرانی فوج کی ترتیب و تنظیم سے لے کر انٹیلی جنس اداروں تک میں امریکی افسران تعینات تھے۔ شاہ ایران اور حکمراں طبقہ امیر تر اور عوام غریب تر ہوتے جارہے تھے۔ ایران میں امریکی اثر نفوذ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا کہ جس کی رو سے اگر کوئی ایرانی کسی امریکی کتے کو بھی مارے گا تو اسے امریکی قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی جبکہ یہ حق ایرانی شہری کو حاصل نہ ہوگا۔تب امریکہ کو ایران سے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ایران کی خود مختاری،معیشت،سیاست، ثقافت،فوجی طاقت،غیرت ،حمیت، معدنیات ، قدرتی وسائل غرض ہر شے پر امریکہ قابض تھے۔شاہ ایران تو صرف مہرہ تھا۔ ایسے میں امام خمینی نے شاہ ایران کے خلاف قیام کیا۔جو کہ دراصل امریکہ کے خلاف اعلان جنگ تھا مگر آپ کو جلا وطن کردیا گیا۔امام خمینی کے جلا وطنی کے دور میں شاہ ایران سکون سے حکمرانی و من مانی کرتے رہے اگرچہ امام خمینی کے فکر انگیز پیغامات انہیں فکرمند و پریشان ضرور کرتا۔ دوسری طرف امریکہ و برطانیہ بہادر ایرانی تیل کی دولت اور قدرتی وسائل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔جبکہ عام ایرانیوں کی نہ صرف غربت میں اضافہ ہورہا تھا بلکہ وہ دین سے بھی دور ہورہے تھے۔ امام خمینی کا نظریہ کوئی زیادہ فلسفیانہ یا زیادہ پیچیدہ یا زیادہ علمی نہ تھا کہ جسے عام لوگ نہ سمجھ سکتے۔ آپ کا بنیادی نظریہ انتہائی سادہ تھا کہ یہ زمین اللہ کی ہے۔انسان بھی اللہ کی مخلوق ہے تو اللہ کی زمین پہ اللہ کا نظام ہونا چاہیے نہ کہ بندوں کابنایا ہوا۔ امام خمینی کی انقلابی تحریک کسی بھی قسم کی فوجی بالادستی، معاشی اجارہ داری یا کسی بھی نسلی و علاقائی تسلط کے لئے بھی نہیں تھی۔ بلکہ یہ ایک جنگ تھی بے دینوں اور دینداروں کے درمیان کہ جس کی قیادت و رہبریت مرجع عالی قدر امام خمینی کی ہاتھ میں تھی اور قم کا تاریخی مدرسہ فیضیہ ہی وہ اولین جگہ تھی جہاں سے یہ چشمہ پھوٹا۔ اور ملت اسلامیہ کو سیراب کرگیا۔یہ تحریک مستضعفین جہاں کی تحریک تھی اور امام کے بیانات اور پیغامات سے ایران میں یہ تحریک زندہ تھی ۔نجف اشرف میں جلاوطنی کے ایام میں امام خمینی کے بڑے صاحبزادے مصطفی خمینی کو شاہ ایران کی انٹیلی جنس ایجنسی ساواک اور بعثی حکومت نے 23اکتوبر 1977 کو زہر دے کر شہید کردیا۔اس مظلومانہ شہادت نے انقلابی تحریک میں نئی جان ڈال دی ۔مصطفی خمینی کے چہلم کے دن تبریز میں مجلس عزا منعقد کی گئی اور 13 سال بعد ایک دفعہ پھر بھرپور طاقت کے ساتھ شاہ مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔شاہ نے فوج کو کریک ڈاﺅن کا حکم دے دیا۔ فوج اور عوام مد مقابل آگئے۔ اس کے بعد شاہ کے لئے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔۔شاہ مخالف مظاہروں کا یہ سلسلہ جاری رہا گویا تبریز کے شہریوں نے انقلاب کے اس تحریک میں نئی جان ڈال دی تھی۔اب یہ مظاہرے پورے ایران میں پھیل چکے تھے۔1978 میں عید الفطر کے موقع پر امام خمینی کے شاگرد ڈاکٹر مفتح نے عید کی نماز کے بعد مظاہرے کئے جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ بہت سے لوگ کفن پہن کر مظاہروں میں شرکت کرنے لگے تھے۔ 2 ستمبر 1978 کو میدان ژالہ میں موجود شاہ مخالف مظاہرین پر فوج نے گولیاں چلائیں اور ایک ہی دن میں 4000 لوگوں کو شہید کیا۔ ایران میں آخری امریکی سفیر William H Sullivan کے بقول 1978 میں شاہ نے یہ طے کرلیا تھا کہ عصر عاشور میدان آزادی تہران میں جمع مظاہرین اور ایران کے بڑے مذہبی و سیاسی شخصیات کو ایک ساتھ فضائی حملے میں مار دیا جائے گا اور یوں انقلاب کا راستہ روکا جائے گا مگر عاشور کے ہی دن ظہر کے وقت ایک ملٹری جوان نے حملہ کر کے ان تمام فوجی افسران کو قتل کردیا جو عصر کے وقت میدان آزادی پہ فیصلہ کن حملہ کرنے والا تھا۔شاہ اس حملے کے بعد سمجھ گیا کہ اب ایران کی حکومت ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے مگر مکاری سے کام لیتے ہوئے قومی حکومت بنانے اور انتخابات کا اعلان کردیا۔ امریکہ کے صدر جمی کارٹر پوری کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح اپنے مضبوط مگر حالات کے ستائے اپنے حلیف و طاقتور مگر غلام اتحادی حکومت کو دوام بخشا جائے تاکہ مشرق وسطی سمیت ایشیائی ملکوں پہ اپنی چودہراہٹ قائم رہے۔جمی کارٹر انتظامیہ مکمل طور پر بوکھلا گئے تھے کیونکہ تین ماہ پہلے تک کی انٹیلی جنس رپورٹ میں کہیں بھی انقلابی تحریک کے کامیاب ہونے کا کوئی اشارہ تک موجود نہ تھا۔ جمی کارٹر کی ہی کوششوں سے شاہ پور بختیار کو قومی حکومت سونپ دی گئی جسکی پارٹی کو امریکہ بہادر نے 50 کی دہائی میں حکومت سے بے دخل کرکے پہلوی کو تخت پہ بٹھایا تھا۔دو پارٹیوں کو بوقت ضرورت لانے اور گرانے کا یہ امریکی کھیل ہمارے ملک میں بھی تو جاری ہے؟ خیر شاہ پور بختیار کی حکومت آتے ہی شاہ ایران نے 18 جنوری 1978 کو بہ غرض استراحت(ہمارے حکمراں بہ غرض علاج ملک چھوڑتے ہیں) ایران چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔یوں ایران میں 2500 سالہ شہنشایت کا خاتمہ ہوا۔ یکم فروری کو امام خمینی جلاوطنی ختم کرکے پیرس سے ایران تشریف لائے۔ جہاں سات ملین لوگوں نے آپ کا شانداراستقبال کیا۔ امام خمینی نے بہشت زہرا میں اپنے پہلے خطاب میں ہی اسلامی حکومت کے خدو خال ظاہر کیے کہ یہاں حکومت فقیہ جامع الشرائط کی ہوگی۔یاد رہے ایران کی فضائیہ نے سب سے پہلے امام اور انقلاب کے سامنے سرنڈر کیا۔ شاہ ایران نے ایرانی عوام سے نمٹنے کے لئے جس امریکی جنرل ہائزر کو فوج کی کمانڈ سونپی تھی اس نے نہ صرف ایرانی فضائیہ کو بلکہ امام خمینی کی رہائش گاہ جماران کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی۔ اطلاع تھی کہ 50 جنگی جہاز جماران پہ حملہ آور ہوں گے مگر اس کے باوجود امام خمینی نے جماران چھوڑنے سے انکار کیا اور نہ ہی وہ حملہ ممکن ہوسکا۔شاہ ایران کے بھاگ جانے کے بعد ایران میں حکومتی نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ امام خمینی نے ایک انقلابی کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی آیت اللہ طالقانی کے ہاتھ میں دی۔اس کمیٹی میں شیخ آیت اللہ مرتضی مطہری، سید محمد حسین بہشتی، آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی، مہدی اراکی، ڈاکٹر محمد مفتح، ابوالحسن بنی صدر، صادق قطب زادہ اور دیگر معمم و غیر معمم شخصیات شامل تھیں۔یاد رہے اسی انقلابی کمیٹی کے کچھ ارکان کو خریدا گیا اور بہت سوں پہ مسلح حملوں کا آغاز ہوا۔ 15 فروری 1979 کو عبوری کمیٹی بنائی گئی جس کی سربراہی مہدی بازرگان کو دی اور بنیادی قوانین بنانے کی ذمہ داری سونپ دی اگرچہ ان کا کام انقلابی کمیٹی کے فیصلوں اور سفارشات پہ عمل کرنا اور نافذ کرنا تھا۔شہید مطہری اور شہید بہشتی ٹیلی وژن پر اسلامی حکومت کے بنیادی خدوخال کو عوام کے سامنے پیش کرنے لگے۔ ایران میں سرکاری عہدہ داروں، امام خمینی کے ساتھیوں اور انقلابی فکر رکھنے والوں پر حملوں کا آغاز 23 اپریل 1979 میں شروع ہوا تب انقلابی حکومت ٹھیک سے قدم بھی نہیں جما پائی تھی۔ فرقان نامی تنظیم نے کردستان میں فوج کے کمانڈر سردار قرنی پہ حملہ کرکے شہید کردیا۔ دوسرا حملہ شہید مرتضی مطہری پہ ہوا جو انقلابی فکر اور امام خمینی کے لئے ایک بڑا نقصان تھا۔ تیسرا حملہ ہاشمی رفسنجانی پہ ہوا مگر ان کی زوجہ نے نہایت بہادری کے ساتھ حملہ آور پہ وار کیا جس کی وجہ سے نشانہ چوک گیا اور ہاشمی رفسنجانی زخمی ہوکر گرپڑے۔ شہید قرنی اور شہید مطہری کی شہادت پہ امام خمینی کا پیغام سننے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں ہماری بڑی شخصیتوں کی شہادت سے ہمارے اسلام کو تقویت ملتی ہے۔ ہماری تحریک کو دوبارہ جلا ملی ہے۔ ایران کے کونے کونے میں پھر سے زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر اس تحریک میں سستی یا مرجھاہٹ آگئی تھی تو پھر سے تازگی آگئی ہے۔دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری رہا جس میں امام خمینی کے داماد آقائے اشراقی، آیت اللہ قاضی طباطبائی، ڈاکٹر محمد مفتح، حاج مہدی اراکی، اور ان کے فرزند حسام بھی شہید کردئیے گئے۔ کہا جاتا ہے ان دہشتگردانہ حملوں میں امام خمینی کے خاص اور قریبی و انقلابی رہنماﺅں میں سے 75 فیصد کو شہید کردیا گیا۔ ان حملوں میں زخمی ہونے والوں میں ہاشمی رفسنجانی، موسوی اردبیلی، سید علی اکبر محتشمی اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای سر فہرست ہیں۔انقلاب اسلامی کے ابتدائی ایام یعنی 1979 میں ہی ایک طرف فرقان نامی تنظیم کے حملے جاری تھے تو دوسری طرف کردستان ڈیموکریٹک پارٹی، عربستان لیبریشن آرگنائزیشن، آذربائےجان سے حزب اسلامی بالترتیب کردستان، خوزستان اور آذربائجان کو الگ کرنے کی مانگ کرنے لگا جبکہ ایران کی آرمی میں ابھی تک شاہ کے وفادار موجود تھے اور فوج مکمل طور پہ انقلاب سے ہم آہنگ نہیں تھی ایسے میں امام خمینی نے حکم دیا کہ عوام میں سے نیک اور صالح جوانوں پر مشتمل فوج بنائی جائے جسے آج دنیا سپاہ پاسداران کے نام سے جانتی ہے اور جس کی ہیبت سے طاغوتی لشکروں میں سنسنی دوڑتی ہے۔جس کا پہلا آپریشن کردستان کے فتنے کو ختم کرنا تھا۔امریکی صدر جمی کارٹر انتظامیہ اپنی حلیف طاقت کے ختم ہونے کا سوگ بھی پوری طرح منا نہ پایا تھا کہ 4 نومبر 1979کو تہران یونیورسٹی کے طلبا نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرلیا اور اس میں موجود سفارت کاروں اور عملہ کو جاسوس قرار دے کر یرغمال بنا لیا۔ یہ جمی کارٹر انتظامیہ یعنی دنیا کی سپر پاور کو دوسرا بڑا جھٹکا تھا۔ جمی کارٹر نے ان یرغمالیوں کو چھڑانے کے لئے عالمی سطح پہ کوششیں شروع کیں۔ بہت سے ممالک کے وفود نے تہران کا دورہ کیا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے وفود آئے مگر امام خمینی نے ان وفود سے ملنے سے ہی انکار کیا۔ سوائے پوپ کیتھولک کے نمائندے سے وہ بھی ملت مسیح کے پوپ اعظم کے احترام میں۔مگر یرغمالی پھر بھی رہا نہ ہو سکے۔اس موقع پر امام خمینی نے بیان جاری کیا کہ ہمارے اس انقلابی عمل کی سب سے بڑی تاثیر یہ ہے کہ ساری دنیا کے مظلوموں کو یہ ڈھارس ملے گی کہ اگر ہم ضعیف ہیں تو کیا کچھ جیالے ایسے ہیں جو سینہ تان کے امریکہ کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان امریکہ، اقوام متحدہ سمیت عالمی دباﺅ برداشت نہ کرسکے لہذا انہوں نے امام خمینی سے درخواست کی کہ یاتو یرغمالیوں کو آزاد کردیا جائے یا میرا استعفی قبول کیا جائے، امام خمینی نے استعفی قبول کرلیا۔ عالمی میڈیا پہ جاری ہونے والے یرغمالیوں کے بیانات امریکہ میں ہیجانی کیفیت پیدا کررہے تھے۔ جمی کارٹر انتظامیہ پر عوامی دباوو بڑھ رہا تھا دوسری طرف امریکہ میں صدارتی الیکشن قریب تھے اور حزب مخالف اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پہ استعمال کررہا تھا۔ جمی کارٹر نے بوکھلاہٹ میں امریکہ میں ایرانی سفارت خانہ بند کرنے، ایرانی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے اور ایران پر پابندیوں کا اعلان کیا۔ امام خمینی نے صرف سیاہ فام یرغمالیوں اور ایسے خواتین جن پہ جاسوسی کا الزام نہ ہو کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ امام کے حکم سے ہی فرزند امام احمد خمینی نے ان افراد کو ائیرپورٹ تک چھوڑا۔ امریکی سیاہ فام میں امام خمینی کی مقبولیت بڑھ رہی تھی تو دوسری طرف جمی کارٹر نے ایک فوجی ایکشن کا خفیہ پلان بنایا جو آج بھی گوگل پر Operation eagle claw کے نام سے موجودہے۔(قارئین اسے ضرور گوگل کریں) 25 اپریل 1980 کو چھ امریکی جدید C31 جہازوں پر مشتمل کمانڈوز نے ایرانی سرحد میں دراندازی کی مگر خلاف توقع اچانک ریت کے طوفان کی وجہ سے جہاز آپس میں ٹکرا گئے۔۔ دو جہازوں اور کئی کمانڈوز کی بھنی لاشیں صحرائے طبس میں چھوڑ کر امریکی کمانڈوز نے راہ فرار اختیار کی یوں اپنے یرغمالیوں کو چھڑا کر لے جانے کی تمنا دل میں دبائے دنیا کی سب سے طاقتور فوج کو ناکام و نامراد ہوکر واپس لوٹنا پڑا۔بالآخر سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایرانی پارلیمنٹ نے باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی کے لئے چار شرطیں رکھیں۔