منیر جوہر
جنت نظیر کشمیر پر ہندوستان کا غاصبانہ قبضہ جبر و استحصال اور ریاستی بربریت کی سب سے بڑی مثال ہے ، لاکھوں ہندوستانی فوجی اور پیرا ملٹری فورسز کشمیر میں نہتی عوام کی آواز اور آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کو لگاتار کوشش میں مصروف ہیں مگر کشمیری عوام کا ولولہ ہرگز کم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مسئلے کا حل غیر جانبدارانہ استصواب رائے ہے ،مگر بھارت سلامتی کونسل کی قرارداد کو نہ ماننے اور انسانیت کے اصولوں کو پامال کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پانچ اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا اور مودی سرکار نے انصاف کے اصولوں اور کشمیر کی عوام کے امنگوں کا خون کرتے ہوئے وادی میں اپنے خونی پنجے گاڑ دیئے۔ اس دن کی یاد مناتے ہوئے پاکستانی قوم ہر سال اگست میں یوم استحصال کشمیر مناتی ہے ۔ یہ دن پانچ اگست 2019 کے ہندوستان کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام کی مذمت کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ عالمی برادری کو باور کرایا جاسکے کہ بھارت طاقت کے نشے میں انسانیت کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے اور ہٹ دھرمی کے ذریعے مظلوم کشمیر یوں کو پابند سلاسل رکھنا چاہتا ہے۔ 1948کی جنگ ِ آزادی میں مجاہدین کی یلغار سے گھبرا کر اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوامِ متحدہ کی طرف رجوع کیا۔ 1948اور پھر 1949کی قراردادوں میں سلامتی کونسل نے واضح طور پر اعلا ن کیا کہ کشمیر کے عوام سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے پوچھی جائے گی کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں ۔ بھارت جتنے بھی بہانے بنائے لیکن وہ اس حقیقت سے فرار حاصل نہیں کر سکتا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں آزادانہ رائے شماری کرانا اور اس کا فیصلہ تسلیم کرنا ہندوستان کے لئے لازم و ملزو م ہے۔ مگر ان تاریخی حقائق کے باوجود ہندوستان ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان دونوں کو یہ یقینی بنانا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کے ذریعے یہ حق دیا جائے کہ وہ ہندوستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔ ہندوستان، پاکستان، اور کشمیری عوام تینوں اس مسئلے کے فریق ہیں۔ ہندوستان نے اس قرارداد کو تسلیم کیا مگر آج 75 سال گزرنے کے بعد بھی اس پر عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں۔پانچ اگست 2019 کو نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرکے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے اصولوں کو جوتی کی نوک پر رکھ دیا۔ مودی کے مذموم فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری بھی زمین خرید سکتے ہیں، اور ہزاروں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دیے جا چکے ہیں۔ یہ سارا عمل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا یہ عمل جنیوا کنونشن کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ ہندوستان کے اس یکطرفہ اور غیر منصفانہ اقدام پر بین الاقوامی برادری خاموش ہے ، بحیثیت پاکستانی ہم سب کا فرض ہے کہ دنیا بھر میں اس عمل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ ہم سب کشمیریوں کی آواز بن کر ان پر ہونے والے مظالم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر سکیں ورنہ ہندوستان کی حکومت اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے جس کا سدباب انتہائی لازمی ہوچکا ہے۔اسی حوالے سے صوبائی حکومت کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان بھر میں پانچ اگست یوم استحصال کشمیر بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔خطے کے طول وعرض میں ریلیاں اور سیمینارز کا بھرپور انعقاد ہوتا ہے،اور شرکا دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروانے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ہر سال کی طرح ضلعی انتظامیہ گلگت کی جانب سے یوم استحصال کشمیر کی مرکزی تقریب آج گلگت شہر کے مرکز واقع گھڑی باغ میں منعقد ہورہی ہے،اور اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ایک ریلی بینظیر چوک گلگت سے گھڑی باغ تک نکالی جائے گی،جس میں سول سوسائٹی طلبہ تنظےمیںاور سکاﺅٹس شرکت کریں گے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق کشمیریوں کو ان کا حق استصواب رائے دینے کا بھرپور مطالبہ کیا جائے گا۔