چھ ستمبر یوم دفاع

اسلم ناز شگری

چھ ستمبر وطن عزیز کی تاریخ کا وہ سنہرا دن ہے جو ہمیں ہمارے قومی اتحاد، یکجہتی اور قربانیوں کی ایک لازوال داستان یاد دلاتا ہے۔ یہ وہ عظیم دن ہے جس دن افواجِ  پاکستان اور پاکستان کی بہادر قوم نے بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کی ایک یادگار تاریخ رقم کردی تھی۔ جارحیت پسند بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر  یہ سوچ کر حملہ کیا تھا کہ بآسانی ہمیں شکست دے کر چلے جائیں گے لیکن ہماری بہادر فوج نے دشمن کی اس جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ثابت کردیا کہ پاکستانی قوم اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ چھ ستمبر کا دن محض ایک جنگ کی یاد نہیں بلکہ یہ ہمارے اس عزم  کو تازہ کرنے کا دن ہے کہ ہم اپنے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے لئے ہمیشہ تیار ہیں۔ اس دن ہماری افواج نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔ 1947 میں تقسیم کے وقت ہی بھارت اورانگریز وں کی ملی بھگت سے پاکستان کو دفاعی طور پر کمزور کرنے کی بہت گہری سازش ہوئی تھی۔ دفاعی سازوسامان میں سے پاکستان کا جوجائز  حصہ بنتا تھا اس سے بھی پاکستان کو محروم کیا گیا۔ بھارت ہمہ وقت پاکستان کے وجود سے ہی نالاں تھا۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اس مملکت کو ٹھیس پہنچانا بھارت کے بہترین مشاغل میں شامل تھا۔ آزادی کے وقت ہزاروں لاکھوں مسائل کے انبار کے باوجود وطن عزیز نے کامیابی کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ جیتی اور ان مسائل کے ساتھ کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہوئے۔ بھارت اپنی طاقت کے غرور میں بار بار باہمی سرحدوں پر جارحیت کی کاروائیاں کرتا رہتا تھا لیکن بے سروسامانی کے باوجود پاک فوج ان کو منہ توڑ جواب دیتے اور خاموش کراتے رہے۔ 1965 میں بھارت کا جنگی جنون  مزید بڑھ گیا۔ اب کی بار انہوں نے بھرپور تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان پر حملہ کرنے کی ٹھان لی۔  چھے ستمبر 1965 کو بھارت نے اپنی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مختلف محاذوں پر بیک وقت حملہ کردیا۔ سیالکوٹ کے قریب چونڈہ کے محاذ پر بھارتی فوج کا منصوبہ تھا کہ وہ ایک طاقتور ٹینک  بریگیڈ کے ذریعے پاکستانی دفاعی نظام کو توڑ دے اور پھر ملک کے دیگر اہم محازوں کی جانب پیش قدمی کرے اس حملے میں بھارتی فوج کے  پاس  اس وقت کے جدید ترین تقریبا چھے سو ٹینک موجود تھے۔ پاکستانی فوج بھی بھارتی عزائم کو بھانپتے ہوئے اس محاذ پر پوری طرح چوکس تھی۔ پاک فوج کے جوانوں نے تقریبا سو ٹینکوں کے ساتھ اس بڑ ے حملے کا سامنا کیا۔ چونڈہ کے محاذ پر موجود جوانوں نے اپنے عزم، حوصلے اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی کہ رہتی دنیا تک اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ یہ مقابلہ طاقت کے مقابلے میں جذبے کا مقابلہ تھا۔ پاکستان کے شاہین صفت جوانوں نے چونڈہ محاز کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا کے رکھ دیا۔ پاکستانی فوج کے شیر دل پائلٹ محمد محمود عالم جو کہ اس وقت ایف چھیاسی صابری جیٹ اڑا رہے تھے ، انہوں نے 59 سیکنڈز میں انڈیا کے پانچ طیاروں کو گرا کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کرلیا۔ اس بہادر ہیرو نے انڈیا کے کل نو طیاروں کو زمین بوس کردیا اور دشمن پر  دھاک بٹھا دی۔ ان کا یہ کارنامہ ملک کے دیگر فائٹر پائلٹس کے لئے بھی حوصلے کا سبب بنا۔ ان کی بے مثال بہادری ،شجاعت  اور جنگی مہارتوں کے اعتراف میں انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ لاہور شہر میں ایک اہم شاہراہ کو ایم ایم عالم کے نام کے ساتھ منسوب کرکے ایم ایم عالم روڈ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے ایک اور نامور جوان جسے دنیا میجر عزیز بھٹی کے نام سے جانتی ہے، ان کی بے مثال جنگی خدمات بھی رہتی دنیا تک پاکستانیوں کے لئے باعثِ فخر بنی رہے گی۔ عزیز بھٹی نے 1950 میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ 1965 میں وہ میجر کے عہدے تک ترقی پاچکے تھے۔ جنگ کے دوران وہ لاہور کے قریب برکی نامی جگہ پر تعینات تھے۔ جہاں سے انڈین آرمی لاہور میں داخلے کی کوشش میں تھے۔ بحیثیت کمپنی کمانڈر پنجاب رجمنٹ عزیز بھٹی شہید کی ذمہ داری بی آر بی کینال یعنی بمبہ والی راوی بیدیاں کینال کا دفاع کرنا  تھی۔ مسلسل پانچ دنوں اور راتوں تک شہید عزیز بھٹی اپنے رجمنٹ کے جوانوں کی قیادت کرتے رہے اور جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ اور انڈین آرمی کو لاہور میں داخلے سے روکے رکھا بلکہ دشمن کو پسپائی پر مجبور کردیا۔ 10 ستمبر 1965 کو جب عزیز بھٹی مسلسل اگلی صفوں میں مورچہ زن ہوکر وطن کی مقدس مٹی کی حفاظت کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے تو اس دوران انڈین ٹینکوں کے شیل لگنے سے جامِ شہادت نوش  کرگئے۔ انہوں نے شہادت قبول کرلی لیکن دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی۔ ان کو بہادری کی لازوال داستان رقم کرنے پر اعلی ترین فوجی ایوارڈ نشانِ حیدر سے نوازا گیا اور یوں قیامت تک کے لئے قومی ہیرو کے طور پر امر ہوگئے۔ میجر محمد اکرم شہید ، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید ،  میجر شبیر شریف شہید ، لانس نائیک محمد محفوظ شہید اور کیپٹین محمد سرور شہید جیسے نڈر اور شاہین صفت افراد کو بھی ان کے جرات، بہادی اور استقلال کے اعتراف میں نشانِ حیدر سے نوازا گیا جبکہ میجر طفیل محمد اور  لیفٹیننٹ کرنل محمد عبدالعزیز  کو ستارہ جرات عطا ہوئے۔ نیز بریگیڈ عبد الباقی اور میجر جنرل ناصر احمد خان دونوں کو ہلالِ جرات سے نوازا گیا۔ 1965 کی پاک بھارت جن میں جہاں پاک فوج کے جوانوں اور آفیسران کے کارنامے سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل تھے وہاں پاکستان کے عوام کے جذبات بھی تو کسی سے کم نہ تھے۔ ملک کی دفاع کے لئے عوام نے بھی ہرممکن کردار ادا کیا۔ ملک کا بچہ بچہ وطن کی حفاظت پر مر مٹنے کو تیار تھا۔  عوام میں سے ہزاروں کی تعداد میں جوانوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات سرانجام دیں۔ عوام نے خندق کھودنے، بنکرز بنانے اور خوراک وغیرہ کی فراہمی میں پاک فوج کی مدد کی۔ فراخ دلی سے امداد اور چندے اکٹھے کئے۔ پاک فوج کے سپاہیوں کے لئے اور ان کے خاندان والوں کو کپڑے ، خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے میں عوام کا کردار لائقِ رشک رہا۔ عوام نے رضاکارانہ طور پر جنگی مشقیں اور دفاعی حکمت عملیاں مرتب کرنا شروع کردیں۔پاک فوج کے حق میں نعروں سے ملک کا چپہ چپہ گونجتا رہا۔ حکومت اور فوج کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ سکولوں اور کالجوں کے طلبا بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور  اپنی بساط کے مطابق ملکی دفاع میں پیش پیش رہے۔ طلبا مختلف پروگرامز منعقد کراتے رہے۔ یہاں تک کہ فنڈز اکٹھا کرنے  کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے۔ ساتھ ہی  زخمیوں کے لئے خون کے عطیات فراہم کرنے میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کا کردار شاندار رہا۔  گویا ہر قدم پر افواجِ پاکستان کا حوصلہ بڑھانے میں عوام اہم کردار ادا کرتی رہی۔خواتین کا کردار بھی اس جنگ میں نہایت اہم رہا۔ خواتین نے نرسنگ اور میڈیکل کیئر کے شعبے سے لیکر رضاکارانہ فنڈ ریزنگ اور امداد کی فراہمی تک ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس جنگ کے دوران ایک اہم کردار میڈم نورجہاں کے نام سے بھی تاریخ میں امر ہوگیا۔ میلوڈی کوئین کے نام سے معروف اس گلوکارہ نے اپنی سریلی آواز کے ذریعے نغمے گا کر افواجِ پاکستان اور عوام کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔جہاں تک نقصانات کی بات ہے تو جنگیں ہمیشہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی چھوڑ جاتی ہیں۔ 65 کی جنگ میں بھی دونوں ملکوں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے تقریبا 3800  سپاہیوں اور جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ دس سے بارہ ہزار افراد زخمی ہوگئے۔ دو  سو کے قریب ٹینک تباہ ہوئے اور بیس کے قریب ائرکرافٹ  کو نقصان پہنچا۔ جبکہ بھارت کے بھی تقریبا 4000  افراد ہلاک ہوئے۔ دس ہزار زخمی تھے۔ تین سو لگ بھگ ٹینک اڑا دیے گئے۔ اور 35  سے 60  تک ائیرکرافٹ گرائے گئے۔ اس کے علاوہ سرحد کے دونوں جانب سول افراد کو بھی جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑا۔ دونوں جانب تقریبا 5000  اموات  پیش آئیں۔ ڈیڑھ دو ملین افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یوں بڑی تباہ کاریوں کے بعد  سترہ روز جاری رہنے کے بعد یہ جنگ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی مداخلت سے بند ہوگئی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 20  ستمبر کو ایک قرارداد پاس کی جس میں دونوں ملکوں کو فوری طور پر جنگ بندی کی کال دی گئی تھی۔ 22 ستمبر کو انڈیا اور پاکستان نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کردیے۔  اس جنگ میں پاکستانی عوام اور فوج نے کم وسائل اور کم افرادی قوت کے باوجود اپنے سے طاقتور دشمن کو سرنگوں کرکے ایمان کی طاقت کی برتری کو ثابت  کردیا۔ اس شعر کے مصداق

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اس ولولہ انگیز ملکی دفاع کی یاد میں آج ہم چھے ستمبر کا دن یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن ہماری قوم کے لئے تجدید عہدکا دن ہے۔ یہ دن ملک کی حفاظت کے لئے ایک ہوجانے کی دعوت دیتا ہے۔ فروعی اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجانے کا درس دیتا ہے۔ علمی  میدان میں معرکے سر کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، تحقیقی میدان میں اقوامِ عالم پر  سبقت لے جانے کی تاکید کرتا   ہے۔ 2024 کا یومِ دفاع ہمیں سائنس،  ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور انڈسٹریلائزیشن میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ حقیقی معنوں میں یہ ملک اپنی بقا کی جنگ لڑسکے  اور جیت بھی سکے۔