رانا فیضان علی
پاکستان و افغانستان کی سرحد سے ملحقہ واخان کوریڈور آجکل عالمی خبروں کی زد میں ہے۔اس کوریڈور کے بارے میں زبان زد عام ہے کہ پاکستان نے اس کوریڈور پر قبضہ جما لیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے البتہ افغانستان میں موجود فتنہ الخوارج کے تربیتی کیمپوں پر پاکستان نے گزشتہ دنوں حملے کیے جہاں پاکستان پر حملوں کیلئے خود کش دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ایک افغان رہنما تو یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم' غوری و غزنوی میزائل ہیں تو ہمارے پاس بھی یہ ایٹم بم اور میزائل خود کش حملہ آوروں کی صورت میں موجود ہیں۔پاکستان کو باامر مجبوری یہ حملے اس لیے کرنا پڑے کہ پاکستان کی جانب سے بارہا افغان حکومت کو یہ کہا گیا کہ وہ ان دہشت گردوں کو لگام ڈالے جو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور عام عوام پر حملوں میں ملوث ہیں لیکن افغان حکومت الٹا اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہتی رہی یہ پاکستان سے آئے ہوئے لوگ ہیں حالانکہ یہ دہشت گرد افغانستان میں نہ صرف کھلے بندوں گھومتے ہیں بلکہ ان کے وہاں تربیتی کیمپ بھی ہیں۔پاکستان نے آج تک کسی آزاد و خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی نہ ہی افواج پاکستان نے کسی ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ۔ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان واخان کوریڈور پر قبضہ جما لے پاکستان عالمی سرحدوں کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ ان سرحدوں کا احترام بھی کرتا ہے لیکن اپنی آزادی و خود مختاری کے خلاف کسی سازش و اقدام کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ۔پاکستان نے تو ایرانی سرحدوں کی بھی خلاف ورزی نہیں کی تھی بلکہ اپنی ہی زمین سے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا' افغانستان میں بھی دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے نشانہ بنایا گیا۔یہ درست ہے کہ واخان کوریڈور جغرافیائی طور انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہ افغانستان کے انتہائی شمال مشرق میں صوبہ بدخشان کے اشکاشم علاقے سے شروع ہوتا ہے۔برطانیہ اور روس نے 1895 میں ایک مشترکہ کمیشن بنا کر واخان افغانستان کے حوالے کیا تھا۔واخان راہداری 350 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی چوڑائی سولہ سے چونسٹھ کلو میٹر تک ہے۔پاکستان میں چترال سے واخان کے ذریعے وسطی ایشیا تک رسائی کے منصوبے زیرِ غور رہے ہیں۔بھارت، کشمیر تنازع میں شامل تمام علاقوں پر اپنے دعوے کی وجہ سے واخان ہی کے پڑوس کی وجہ سے افغانستان کا ہمسایہ ہونے کا دعوی کرتا ہے ۔واخان راہداری افغانستان میں شامل ایسی زمینی پٹی ہے جو افغانستان کو چین کا پڑوس دیتی ہے اور یہی پٹی تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتی ہے۔یہ پٹی دراصل برصغیر پاک و ہند کو وسطی ایشیا سے کاٹنے کے لیے بنائی گئی تھی جس کے اپنے تاریخی اسباب تھے۔ واخان کوریڈور پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باعث توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔چین کا صوبہ سنکیانگ واخان کوریڈور سے ملتا ہے جب کہ شمال میں تاجکستان اور جنوب میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحدیں اس راہداری سے ملتی ہیں۔واخان پامیر، ہندو کش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے بھی ملتا ہے اور یہ چین سے وسطی ایشیا، ہندوستان اور یورپ کی جانب جانے والے تاریخی تجارتی راستے شاہراہِ ریشم پر بھی واقع ہے۔یہ علاقہ کوشانی سلطنت میں بھی شامل رہا۔ تاہم اس نے انیسویں صدی میں سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلیوں کا سامنا کیا۔ واخان کی آبادی سترہ ہزار سے زائد ہے۔ اس علاقے میں وخی باشندوں کی اکثریت ہے اور اس علاقے کا نام بھی اسی کمیونٹی کی وجہ سے پڑا ہے۔یہ لوگ مقامی وخی زبان اور فارسی بھی بولتے ہیں۔انیسویں صدی میں خطے میں دو بڑی نو آبادیاتی قوتیں روس اور برطانیہ وسطی ایشیا، افغانستان اور تبت کے علاقوں میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے متحرک تھیں۔ خطے میں جاری طاقت کے اس کھیل کو گریٹ گیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔روس 1865 تک ترکستان کا علاقہ فتح کر چکا تھا جس میں وسیع وسطی ایشیائی خطہ شامل تھا جس میں آج کے ممالک تاجکستان، کرغزستان، قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل تھے۔ امیر عبدالرحمان 1880 میں افغانستان کے حکمران بنے تو انہیں اپنے پڑوس میں اپنے دور کی بڑی سلطنت روس کی جانب سے خطرات لاحق تھے۔ایران اور افغانستان نے 1973 میں دریائے ہلمند کے پانی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت افغانستان کو ایک عام سال میں ایران کو 850 ملین کیوبک پانی فراہم کرنا تھا۔ امیر عبدالرحمان کی مجبوریوں اور افغانستان کے خارجہ امور پر بالادستی قائم ہونے کے بعد برطانیہ نے اس خطے میں اپنے دو بڑے مقاصد حاصل کیے۔مورخین کے مطابق برطانیہ افغانستان کی صورت میں خطے میں اپنے حریف روس کے خلاف ایک مضبوط بفرزون قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس بفرزون کو بنانے کا مقصد ایک ایسے علاقے کا تعین کرنا تھا جو دو حریف قوتوں کے درمیان ایک فاصلہ برقرار رکھے لیکن اس سے قبل برطانیہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں کا تعین بھی کرنا چاہتا تھا۔برطانیہ نے سرحدوں کے تعین کے بدلے امیر عبدالرحمان کو سالانہ امدادی رقم میں اضافے کی پیش کش کی۔ عبدالرحمان کے لیے اس وقت کے حالات میں یہ پیش کش ٹھکرانا ممکن نہیں تھا۔ ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ ڈیورنڈ مورٹیمر اور امیر عبدالرحمان کے درمیان بارہ نومبر 1893 کو کابل میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جسے ڈیورنڈ لائن ایگریمنٹ کہا جاتا ہے ۔اس معاہدے کے بعد برطانیہ اور روس کے مشترکہ سرحدی کمیشن نے شمالی افغانستان کی سرحدوں کا تعین کیا اور یہاں بھی برِصغیر کو وسطی ایشیا میں روسی کنٹرول کے علاقوں سے دور رکھنے کے لیے بفرزون بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بفر زون بنانے کے لیے شمالی افغانستان کی سرحد پر 1895 میں واخان کی پٹی امیر عبدالرحمان کے حوالے کر دی گئی۔اس سے قبل واخان کے علاقے میں پہلے کبھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی تھی جو بدخشان اور چین کے چن خاندان کے ماتحت تھی۔طالبان کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد واخان کو افغانستان کا سر قرار دے چکے ہیں۔ افغانستان نے چین سے رابطے کیلئے واخان کے راستے پر سڑک کی تعمیر شروع کی ہے۔ افغانستان ایشیا کے قلب میں واقع ہے جو عالمی سطح پر اپنے مخصوص جغرافیائی اور تزویراتی محل وقوع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس طرح افغانستان اپنی مصنوعات اور پیداوار براہ راست اور آسان طریقے سے چین تک پہنچا سکے گا اور اس کے بدلے میں چین سے اقتصادی اور تجارتی فوائد حاصل کرسکے گا۔ واخان روٹ کی مدد سے افغانستان علاقائی اور بین الاقوامی منڈیوں سے منسلک ہو جائے گا جس کے نتیجے میں معیشت کی ترقی اور لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی۔ لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے اور بے روزگاری کی شرح میں مزید کمی آئے گی۔ نیز نقل و حمل اور مواصلات کی ترقی سے زندگی کی سہولیات میں اضافہ ہوگا اور لوگ اپنی ضروریات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکیں گے۔ جس سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ واخان روڈ کی تعمیر نو سے ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس سڑک کی تعمیر سے افغانستان سڑکوں، پلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں پیش رفت کر سکے گا۔ اس سے نہ صرف لوگوں کی نقل و حرکت میں آسانی ہوگی بلکہ تجارت اور ٹرانزٹ کے لیے بھی کافی سارے فوائد حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ واخان کا راستہ ثقافتی اور سیاحتی اہمیت کے لحاظ سے بھی اہم ہے جو ملک کے قدرتی حسن اور تاریخی مقامات کو فروغ دینے میں معاون ہے۔ اس سے افغانستان کو بین الاقوامی تزویراتی تعلقات میں ایک اہم مقام حاصل ہوگا اور علاقائی سطح پر فیصلوں اور معاملات میں افغانستان کی شرکت میں اضافہ ہوگا۔ اس روٹ کی مدد سے افغانستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ بن جائے گا جس سے علاقائی سطح پر سیاسی اور اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔تاہم افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان اور تاجکستان کے درمیان واخان کے ذریعے کسی براہِ راست راستے یا کوریڈور کی تعمیر کی حامی نہیں رہی اور ایسے کسی منصوبے کو خطے میں اپنی اسٹرٹیجک اہمیت کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔اس کے علاوہ بھارت بھی افغانستان کا پڑوسی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور واخان میں پاکستان کے کسی ممکنہ منصوبے کی مخالفت کرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ چترال واخان گرڈ بنانے کے پاکستان کے منصوبے پر عمل درآمد کی صورت میں تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ تین اہم معاملات ہوں گے۔ پاکستان کا وسطی ایشیا تک کا راستہ کھل جائے گا۔تاجکستان کو پاکستان کے کھلے پانیوں تک رسائی حاصل ہو گی اور افغانستان وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان رابطے کے مقام کے طور پر اپنی اہم جغرافیائی حیثیت کھو دے گا۔سوشل میڈیا نیٹ ورک پر متعدد افغان صارفین کا کہنا ہے کہ طالبان نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں جس کے نتیجے میں یہ راہداری طویل مدت کے لیے پاکستان کے حوالے ہونے جا رہی ہے۔اگرچہ چینی حکومت نے واخان کوریڈور کو پاکستان کے حوالے کرنے کے معاملے پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تاہم چینی فوج نے حالیہ سالوں میں واخان سے متصل پہاڑوں پر افغانستان اور چین کے درمیان سرحد کی حفاظت کے لیے چوکیاں قائم کی ہیں۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ چھے سال قبل رپورٹ کر چکا ہے کہ واخان کوریڈور کے قریب چینی فوجیوں کی رہائش کیلئے کم از کم بیس عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ چینی فوج ان فوجی مراکز کے ذریعے سرحدی علاقوں کی نگرانی کرتی ہے۔افغانستان برسوں سے ایک جنگ زدہ علاقہ ہے 'دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے بھی یہ خاصا بدنام ہے۔انہیں سوچنا چاہیے کب تک ان کا ملک بیرونی طاقتوں کے مفادات کی آماجگاہ بننے کے ساتھ ان کے آلہ کار کا فریضہ انجام دیتا رہے گا اور ان کے عوام لذت کام و دہن کیلئے ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے کی کوششوں کے علاوہ منشیات و اسلحے کی سمگلنگ میں مصروف رہیں گے۔ اس لیے افغان حکام کو چاہیے کہ وہ اپنے عوام کے وسیع تر مفاد میں امن کے قیام پر توجہ دیں اور ان راستوں کو کھولنے کا اہتمام کریں جن کے ذریعے ہمسایہ ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک میں تجارت کو فروغ حاصل ہو یہ فروغ تباہ حال افغان معیشت کو استحکام دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔