سیلاب زدگان: تھرڈ پارٹی آڈٹ کی یقین دہانی

وزیراعظم شہباز شریف نے عطیہ دہندگان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کے پاس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے موثراور شفاف طریقہ کار موجود ہے کہ ملک کو فراہم کی جانے والی تمام امداد ضرورت مندوں تک پہنچائی جا رہی ہے جب کہ وہ ملنے والی امدادی رقم کی تقسیم میں شفافیت کے لیے معروف عالمی کمپنیوں کے ذریعے تھرڈ پارٹی آڈٹ یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک کے اعلی حکام سے ملاقات کرکے قرضوں کی ادائیگی عارضی طور پر معطل کرنے اور اور سیلاب کی صورتحال بہتر ہونے تک دیگر شرائط کو موخر کرنے کی اپیل کی۔ملاقات کے دوران عالمی قرض دہندگان کے حکام بہت سپورٹو دیکھائی دیے، انہوں نے کہا کہ ادائیگیاں اور شرائط پر عمل درآمد میں تاخیر سے معیشت اور پاکستانی عوام دونوں کے لیے بڑے نتائج ہو سکتے ہیں۔ سیلاب سے تباہ شدہ فصلوں اور بند فیکٹریوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے پاکستان کو تقریبا 10 لاکھ ٹن گندم اور بڑی مقدار میں کھاد درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔ان قیاس آرائیوں کے باعث اقوام متحدہ میں پاکستانی ٹیم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اس کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو دنیا کو یقین دلانا پڑا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔وزیر اعظم کے خطاب کے فورا بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان معاوضہ نہیں مانگ رہا ہے جب کہ کوئی ملک بھی معاوضہ لینے میں کامیاب نہیں ہوا۔ تاہم پاکستان کے لیے موسمیاتی انصاف کا مطلب یہ ہوگا کہ امیر ممالک جن کی صنعت کاری نے پاکستان کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلیوں میں بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے، انہیں پاکستان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کا اظہار کرنا چاہیے۔ اس طرح کی وضاحتوں نے ان تقریبا 300 پاکستانی امریکیوں کو برہم کیا جو وزیراعظم کے خطاب کے دوران اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر موجود تھے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان معاوضہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ماحولیاتی انصاف کا خواہاں ہے۔وزیر خارجہ نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حالیہ تجویز کا بھی حوالہ دیا جنہوں نے ماحولیاتی تباہ کاریوں کے شکار ممالک کے قرض دہندگان کو یہ قرض امداد میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔وزیر خارجہ کا یہ بیان یو این ڈی پی کی اس حالیہ رپورٹ کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں دعوی کیا گیا کہ مالی مشکلات کے شکار پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت درکار ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے وضاحت کی کہ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت کا خواہاں نہیں ہے، یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، میں یہ واضح کردوں کہ ہم ہرگز دیوالیہ پن کے نزدیک نہیں ہیں۔معاوضے اور ماحولیاتی انصاف کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب قوم کے دکھوں کو اجاگر کرنے پر مرکوز رہا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا دائرہ وسیع اور شدت بہت زیادہ ہے، بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں کے لیے عالمی برادری کی مدد ناگزیر ہے۔ مالی امداد سے زیادہ پاکستان کو اپنے بنیادی انفرااسٹرکچر اور معیشت کی تعمیر نو کے لیے ماحولیاتی انصاف اور گرین پلان کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو پھانسی یا جلاوطنی کے ذریعے نہیں بلکہ تحریک عدم اعتماد جیسے آئینی اور جمہوری اقدام کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔پی ڈی ایم حکومت نے ایک توازن پیدا کیا ہے اور ملک میں جمہوری اور پرامن نظام قائم کیا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ طاقتیں جو پاکستان میں کبھی جمہوریت نہیں چاہتیں، وہ مسلسل اس پیش رفت کو کمزور کرنے اور اسے الٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عمران خان فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور عدلیہ کو اپنے ذاتی کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں۔پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے، سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کے سبب ابتدائی تخمینے میں 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے۔سیلاب زدگان کے لیے امریکا کی جانب سے تعاون کو سراہتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور اس دوطرفہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔افغانستان میں امن، ترقی اور استحکام کے حصول کے لیے پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔امن کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہندوتوا کے متشدد انتہا پسند نظریے کے زیراثر بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظلم و ستم انتہائی تشویشناک ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت آبادیاتی تبدیلیاں کر رہا ہے اور انتخابی حلقوں کی ازسرنو تشکیل کر کے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کی امداد میں اضافہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بحالی کی عالمی کوششیں انسانی حقوق کے قوانین اور معیار کے مطابق ہوں۔ماہرین نے کہا کہ ہم پاکستان میں سیلاب متاثرین کے ساتھ عالمی یکجہتی کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ ہیں، عالمی موسمیاتی بحران پاکستان میں اس خوفناک سیلاب اور بدترین انسانی مصائب کا باعث بنا۔ وہ تمام ممالک جنہوں نے عالمی موسمیاتی بحران میں کردار ادا کیا ہے ان کی عالمی ذمہ داری ہے کہ وہ بحالی کے اقدامات میں پاکستان کی مدد کریں۔ان ماہرین کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں شدید موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں لیکن بہت سے صنعتی ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور اس کے عوام نے گلوبل وارمنگ میں معمولی حصہ ڈالا ہے۔ان ماہرین کے یہ ریمارکس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے پاکستان کے لیے عالمی حمایت کے مطالبے اور ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی بحالی میں مدد کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ کے قیام کی اپیل کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ امداد کی عالمی کوششیں انسانی حقوق سے مطابقت رکھتی ہوں، انسانی امداد کو ترجیح دی جائے اور سب سے زیادہ متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کیا جائے۔غریب اور کمزور لوگ اکثر قدرتی آفات کے دوران سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں واقع عارضی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر حکومت کی جانب سے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح رواں مالی سال کے دوران 5 فیصد رہنے کے ہدف کے بجائے 2 فیصد رہ جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کا یہ سرکاری تخمینہ ایک روز قبل ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے 3.5 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کے بالکل برعکس ہے۔اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2.4 فیصد شرح نمو کا تخمینہ لگایا تھا جبکہ حکومت رواں سال کے لیے 2.2 سے 2.3 فیصد شرح نمو کا تخمینہ لگا رہی تھی۔ تازہ صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو بحالی اور تعمیر نو کے لیے مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی شراکت داروں، قرض دہندگان اور عطیہ دہندگان کے مسلسل اور مستقل تعاون کی ضرورت ہوگی۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے کاونٹر سائکلیکل پروگرام کے تحت پاکستان کے لیے تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد طے کی تھی جو کورونا کے بعد بحالی کے اقدامات کے لیے تھا، حکومت کی خواہش تھی کہ تقریبا 3.15 فیصد سود پر عام سرمائے کے وسائل کے بجائے تقریبا دوفیصد سود پر اس کی سافٹ فنانسنگ ہو۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور تعمیر نو کی تخمینہ لاگت ابتدائی طور پر تقریبا 30 ارب ڈالر تک سامنے آئی ہے جو کہ جائزے کے بعد تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔113 سے زیادہ آفت زدہ اضلاع سمیت صوبوں کے نقصانات اور تعمیر نو کا تخمینہ لگانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقرر کی گئی ہے، کور گروپ 15 اکتوبر تک اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔وسائل کو ملکی اور بیرونی ذرائع کی مدد سے ترتیب دینا ہوگا، 2.2 کھرب روپے مالیت کے وفاقی اور صوبائی ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ ردوبدل کی ضرورت ہوگی، فنڈز کا اجرا نقصانات کی تشخیص کی رپورٹ پر مبنی ہوگی۔حکومت پہلے ہی 30 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ڈونر فنڈز کو سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کے لیے وقف کر چکی ہے، اس میں عالمی بینک کے جاری پروگرام سے 30 کروڑ ڈالر کے فنڈز اور ایشایئی ترقیاتی بینک کے 30 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔ عالمی برادری نے 16 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن تعمیر نو اور بحالی کی کوششوں کے لیے اس سے کہیں زیادہ فنڈز درکار ہوں گے۔ پلاننگ کمیشن کے میکرو اکنامک ماہرین نے سیلاب کے پہلے 15 روز کی بنیاد پر جی ڈی پی کے 5 فیصد ہدف کے بجائے تقریبا 2.3 فیصد نقصان کا تخمینہ لگایا تھا، ان کے اور صوبائی رپورٹوں کی بنیاد پر ورلڈ بینک کے کور گروپ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے تقریبا 17 شعبوں کے 100 ماہرین کو سیلاب سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا تاکہ عالمی معیار کے بہترین طریقوں کے ساتھ نقصانات کی تشخیص کی جاسکے، اس کی قیادت حکومت پاکستان کرے گی لیکن اس میں عالمی تنظیموں کے ماہرین کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔