حکومت نے 15آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ذرائع کے مطابق حکومت نے مہنگی بجلی سے ستائے عوام کو ریلیف کے لیے اقدامات شروع کر دیئے، 90 کی دہائی میں لگنے والی آئی پی پیز کے ساتھ معاہے آئندہ تین سے پانچ سال میں مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیے جائیں گے، 201سے زائد یونٹ صارفین کو 6ماہ تک اسی سلیب میں رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ،201سے اوپر یونٹ کے صارفین کے لیے خصوصی سلیب رکھے جائیں گے، 201سے زیادہ یونٹ والے بجلی صارفین کے لیے 26روپے فی یونٹ سلیب مقرر کرنے پرغور شروع کر دیا گیا،وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی،ذرائع کے مطابق حکومت نے 15آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 90 کی دہائی میں قائم 6آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدے فوری ختم کیے جائیں گے اور 9آئی پی پیز سے معاہدہ مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیا جائے گا،ذرائع کے مطابق گل احمد انرجی لمیٹڈ، کوہ نور انرجی، لبرٹی پاور پروجیکٹ، ٹپال انرجی لمیٹڈ، اٹک جنریشن اور کیپ کو کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مذکورہ آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں میں توسیع نہیں ہوگی،حکومتی ذرائع کے مطابق لال پیر، پاک جین، فوجی کبیر والا پاور، حبیب اللہ کوسٹل، جاپان پاور جنریشن، صبا پاور، حب کو، سدرن الیکٹریک پاور، روش پاور کے ساتھ بھی معاہدے مرحلہ وار ختم ہوں گے۔ذرائع کے مطابق 90 کی دہائی میں لگنے والی آئی پی پیز کے ساتھ معاہے آئندہ تین سے پانچ سال میں مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیے جائیں گے،دریں اثنا 201سے زائد یونٹ کے صارفین کے لیے بھی فریم ورک تیار کیا گیا ہے، جس کے مطابق 201سے زائد یونٹ صارفین کو 6ماہ تک اسی سلیب میں رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے،201سے اوپر یونٹ کے صارفین کے لیے خصوصی سلیب رکھے جائیں گے، 201سے زیادہ یونٹ والے بجلی صارفین کے لیے 26روپے فی یونٹ سلیب مقرر کرنے پرغور کیا جا رہا ہے،وفاقی وزیر اویس لغاری نے کہا ہے کہ شعبہ توانائی معیشت کےلیے اہم ہے، اس میں اصلاحات کررہے ہیں اور ان اصلاحات پر عمل بھی یقینی بنائیں گے،انہوں نے کہا کہ اصلاحات پرعمل درآمد کےلیے کوآرڈی نیشن ضروری ہے۔ قومی ٹاسک فورس شعبہ توانائی میں اصلاحات پر کام کرے گی، 20نکاتی اصلاحات کاآغاز ہوچکاہے۔ جتنا جلد معاملات کو ٹھیک کریں گے اتنی ہی جلد معیشت پٹڑی پرچڑھے گی