گندم بحران تمام بحرانوں کی جڑ


کائنات میں ایسی مخلوقات کی تعداد بے شمار ہے جن کی زندگی کا انحصار غذا پر ہے جن میں بیشتر مخلوقات کی غذا کی فراہمی کا دارومدار انسان پر ہے اس لحاظ سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ کائنات کے خالق کی جانب سے ایسی حکیمانہ منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ اپنی مخلوقات تک خوراک کی رسائی یقینی بن سکے ۔دینی دانشمندوں کی آراء کی روشنی میں تخلیق انسان سے قبل پروردگار عالم کی جانب سے روئے زمین پر خلیفہ (نمائندہ ) کا اعلان محض تخلیق انسان کی غرض سے نہیں تھا بلکہ کائنات کی نظام زندگی کو الہی منصوبوں سے ہم آہنگ کرنا بھی پیش نظر تھا جس میں بشریت کو نمایاں کردار دیتے ہوئے تب کی موجود مخلوق فرشتوں (ملائک ) کو رب کائنات کی حکمت و صناعیت کے سامنے سربسجود ہونے کا حکم بھی اسی اعلیٰ مقصد کے تحت تھا اور خالق عظیم الشان نے کائنات کی تخلیق کے سربستہ راز کو دھیرے دھیرے ، مرحلہ بہ مرحلہ عیاں کرنا تھا کیونکہ جن مخلوقات (حیوانات ، نباتات ، جمادات ) کی تخلیق از روئے علم و حکمت فرمائی تھی انسان سے قبل کی مخلوقات سے اتنا زیادہ سر وکار نہیں تھا جتنا انسان سے ان مخلوقات کا ربط اور تعلق بن سکتا ہے اسی لئے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں ان تمام مخلوقات کو سوار کیا گیا جن کا تعلق انسانی و کائنات کے نظام و زندگی سے تھا اور یہی سبب ہے کہ انبیاء و مرسلین عظام و پروردگار کے منظور نظر بندوں جیسے اصحاب کہف کی زندگی میں دوسری مخلوقات کا گہرا ربط بھی نا قابل تردید حقیقت ہے ، نظم و نظام کائنات کی منصوبہ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے خالق کائنات نے اپنی تمام مخلوقات کے رزق کو خالقیت سے جوڑا ہے جیسے ہدایت کو خالقیت کا سلسلہ قرار دیا ہے اس لحاظ سے قرآن مجید کی متعدد آیات متعدد انداز اور پیرائے میں رزق کو موضوع سخن قرار دیتی نظر آتی ہیں جس سے یہ حقیقت مسلم و عیاں ہوتی ہے کہ جس ذات نے تخلیق کی حیثیت کو برملا کیا ہے اسی نے رزق کی فراہمی کا یقین بھی دلایا ہے اور ساتھ میں مقدار اور اندازہ کا تصور بھی دیا ہے اور ساتھ ساتھ رزق کے حصول اور فطری اسباب کا تذکرہ بھی فرمایا ہے تا کہ اس کی وہ مخلوق جسے انسان نام دیا گیا ان مذکورہ اسباب پر غور کرتے ہوئے اسباب کو اپنانے میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے ۔انسان کی اپنی اور اس سے جڑی مخلوقات زندگی کا دارومدار غذا پر ہے گویا انسان کو اپنی غذا بھی فراہم کرنی ہے اس سے جڑی مخلوقات کی غذا کا بھی انتظام کرنا ہے اسی انتظام کے سبب ایک پہلو سے وہ روئے زمین پر خلیفہ الہی کا حقدار ٹھہرتا ہے یعنی خالق کائنات کی بہت سی مخلوقات کی غذا ئی انتظام انسان کے کندھوں پر ہے اسی انتظام کو منظم انداز میں انجام دینے کیلئے حاکمیت کا تصور بھی دیا گیا ہے جیسے کہ مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعہ طویل قحط سالی کا انتظام فرمایا اور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ملتا ہے کہ آپ کی پسندیدہ صاحبزادی خاتون جنت حضرت فاطمہ علیہا السلام جب گھر داری کی مشقتوں سے عاجزی محسوس فرمانے لگیں اور کائنات کے مقدس ترین باپ کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں غنیمت میں ملنی والی کنیزوں سے ایک کنیز کی خواہش فرمائی تو آنحضرتۖ نے فرمایا میری نور چشم فاطمہ مدینہ میں چار سو ایسے نادار اور مستحق مسلمان ہیں جن کی کفالت میرے ذمہ ہے ۔میں چاہتا ہوں ان غلاموں اور کنیزوں کو فروخت کر کے ان مستحقین کی ضروریات کو پورا کرسکوں جواب سن کر خاتون جنت نے اپنے سراپا رحمت باپ کی دست بوسی فرمائی اور واپس تشریف لے آئیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ دین اسلام نے انسانی ضرورتوں کے انتظام کو منظم انداز میں چلانے کیلئے حاکمیت کا تصور بھی دیا اور بہترین حاکم بھی اپنے نبیوں ، رسولوں اور برگزیدہ بندوں کو قرار دیا وہ اوصاف بھی بیان فرمائے جو کسی بھی انسانی معاشروں پر حکمرانی کی اہلیت رکھنے والوں میں ہونی چاہئے۔ آج کی دنیا میں قوت و قدرت کے حصول کے لامتناہی جنگوں میں انسانی معاشرہ کی بری طرح تباہی کا مشاہدہ ہر صاحب عقل و شعور کر رہا ہے لیکن عقل و شعور کے تقاضے کہیں بھی پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور ہر قدرت کے حصول کا خواہشمند اپنی تباہ کن ارادوں اور اقدامات پر عاقلانہ و شعورانہ حمایت کا متمنی بھی ہے جب کہ ایسے تباہ کن منصوبوں اور عزائم کی حمایت عقل و شعو ر سے متصادم ہے ، ان غیر عاقلانہ و بے شعورانہ رویوں نے انسانی زندگی کو شدید خطروں کی سرحد تک پہنچا دیا ہے جو عالمی سطح پر ایک المیہ ہے لیکن عالمی امن کے دعویدار جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جنایتکاروں اور خونخواروں کے گیت گاتے اور ظالموں کو تحفظ دینے میں اپنی عافیت سمجھ بیٹھے ہیں اور اقوام عالم ایسے بہروپیوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں جو قدرت کے حصول کے تباہ کن طاقتوں کی کھلی بدمعاشی سے بھی سنگین المیہ ہے ۔گلگت  بلتستان ان دنوں گندم بحران سے دو چار ہے مختلف علاقوں میں مختلف مقدار میں آٹا دیا جا رہا ہے جس کا معیار بھی وزن کے مانند مختلف ہے محکمہ خوراک اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی کوتاہیوںمیںگندم کے معیار سے بھی آگے نکل چکا ہے ۔سول سپلائی کا محکمہ اپنی شناخت و فرائض کھو چکا ہے اب صرف سپلائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے سوائے گندم کے ، صوبائی کابینہ کوٹہ بحال کروانے اور قیمت کی ادائیگی کا فارمولہ طے کرنے میں پسپائی کا شکار نظر آتی ہے۔ صوبائی مشیر خوراک اپنا طمطراق لہجہ بھول چکے ہیں جن کی پراسرار گمشدگی بھی گندم بحران سے زیادہ سنگین نوعیت کا عندیہ دیتی ہے شمس انہیں دیکھنے سے قاصر ہے تو قمر کی تلاش بھی جاری ہے جب کہ گلگت  بلتستان کے شہری ڈپو ، فلور ملز ، ڈیلر اور اب سیل پوائنٹ کے گرد بلا ناغہ طواف کاٹ رہے ہیں مگر ان تمام مقامات سے آٹابرآمد کرنے میں ناکام ہو جانے کے بعد چوک ، چوراہوں ، سڑکوں اور دفتروں کے باہر تلاش کر تے نظر آ رہے ہیں مگر ابوالبشر سے خاص ربط و تعلق کی حیثیت پانے والے گندم نے بنی آدم کا امتحان مزید لینا ہے اب گندم کو بھی سمجھ لگ گئی ہے کہ مجھ سے جسمانی قوت حاصل کرنے کے باوجود اجتماعی سوچ نہ رکھنے والے میرے گہرے دوست ابوالبشر کی اولاد کو مزید ستایا جائے شاید میری تلاش میں بھٹکنے والوں کی دانست میں یہ حقیقت سما جائے کہ مجھے صرف پیٹ پوجا کیلئے استعمال نہیں کیا جائے بلکہ مجھ سے انرجی لے کر ماضی کے حقائق سامنے رکھے جنہوں نے مجھے پیٹ کے جہنم بھرنے کیلئے استعمال کیا وہ دوسروں کیلئے استعمال ہوتے رہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے باوجود دوسروں کی صلاحیتوں کے فریفتہ بنے رہے اور محکوم رہتے ہوئے معدوم ہو گئے لیکن جنہوں نے مجھے بطور غذا استعمال کیا تکوینی و تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا سبب قرار دیا اپنے وجود کی ، وجود دینے والے کی معرفت پائی آگاہانہ زندگی گزاری کوئی نبی بنا ، کوئی مصلح بنا ، کوئی نجات دہندہ بنا تو کوئی بانی انقلاب بنا کچھ ایسے حالات سے میرا دیس گلگت  بلتستان بھی گزر رہا ہے گندم کی قیمت میں روپے دو روپے کیلئے تحریکیں اٹھتی ہیں ، ناپ تول میں تبدیلی کے سرکاری اعلان پر کمیٹیاں بنتی ہیں چوکوں پر ڈیرے پڑتے ہیں چوراہوں پر آوازیں گرجنے لگتی ہیں اجلاسوں اور ہنگامی دوروں کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت نے ایک روپے قیمت بڑھانے کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا خوشیاں منائی جاتی ہیں مبارک بادیاں دی جاتی ہیں ریلیاں نکلتی ہیں اور لیڈروں کی ایک نئی فہرست ترتیب پاتی ہے پھر نمبر ون کیلئے رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے ایسے میں نہ کوئی مصلح پیدا ہو سکتا ہے نہ کوئی قوم کو بیدار کرنے والا ہیرا نکل سکتا ہے نہ ہی قوم کو منزل دکھانے ، قوم کو ان کی قدر و قیمت کی طرف متوجہ کرنے والا پارسا ، قوم کو بھنور سے نکالنے والا ناخدا ان ہجوموں اور بھیڑ سے نمودار ہو سکتا ہے البتہ قومیتوں کو پروان چڑھانے ، لسانی تعصبات کو فروغ دینے ، غیر پارلیمانی لب و لہجہ اور افراتفری کا  ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے حالانکہ زمینی حقائق کے مطابق موجودہ گندم بحران کی بنیادی وجہ گلگت  بلتستان کی موجودہ حیثیت کا ابہام ، وفاق کے سرکاری دفاتروں میں موجود غیر سنجیدہ اذہان ، خطہ میں نیچا دکھانے کی سیاسی قوتوں کا بحران ، مقامی سیاسی قیادتوں کی جانب سے وفاقی قیادت کو مراسلوں کے بیان کو قرار دیا جاسکتا ہے حالات کو قریب سے دیکھنے والے اہل نظرکے مطابق جب سے خطہ کو صوبائی حیثیت کے لحاف میں پوشش کرنے کی کوشش کی گئی تب سے گندم سبسڈی کا مسئلہ ابہام کا شکار رہا ہے۔ برسراقتدار آنے والی ہر سیاسی جماعت نے اس مسئلہ کو تیسرے یا چوتھے درجہ کا قرار دیا جس کے نتیجہ میں مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے وفاق اور گلگت  بلتستان میں گندم سبسڈی کا معاملہ ناقابل حل نہیں ہے اس کا منطقی حل نکالا جاسکتا ہے مگر اسلام آباد سے گلگت  بلتستان کیلئے روانہ ہونے والے گندم کی ترسیل اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتی ۔ اس کے تدارک کیلئے منصوبہ بندی اور اقدامات بھی بے سود نظر آتے ہیں جبکہ گذشتہ سالوں میں گندم کی فراہمی میں پائے جانے والے نقائص کا بنیادی سبب ترسیل کے ذرائع کا محفوظ نہیں ہونا ہے جو موجودہ گندم بحران کا بنیادی اور اساسی سبب بھی ہے جس کا سد باب کر کے حالیہ بحران کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے ۔