قانون کی حکمرانی اور امن کی ضرورت

وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے قراقرم یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہتر مستقبل کیلئے منزل کا تعین اور ہدف کے حصول کیلئے طریقہ کار کا تعین کرنا لازمی ہے۔ ویلفیئر معاشرے کیلئے قانون کی حکمرانی اور امن کا ہونا ضروری ہے۔ قانون کی حکمرانی سے ہی مستقل امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ےہ درست ہے کہ قانون کی عملداری سے ہی معاشرے میں انصاف کے قیام کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور سماجی عدل قائم ہوتا ہے۔ جس سے قوم کے اندر سیاسی استحکام سے اور یکجہتی جنم لیتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی ترقی اور ارتقا کی راہوں پر گامزن ہوتی ہے۔ دنیا میں انسانی گروہوں معاشرہ اور ریاست اجتماعیت قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی ضابطہ کار کتاب قانون یا دستور حیات بناتی ہے اور اس کی روشنی میں کاروان حیات کو چلایا جاتا ہے۔ اگر معاشرے قانون کی حکمرانی اور اصولوں کی پاسداری کی طرف تھوڑی سی بھی توجہ دیں تو وہ اقوام عالم میں منفرد باوقار تہذیبی مقام اور پہچان دوبارہ قائم کر سکتے ہیں۔بدقسمتی سے قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی دو ہزار اکیس کی انڈیکس کے مطابق پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی نچلی رینکنگ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔پاکستان کی یہ رینکنگ نہ صرف دنیا میں بہت نیچے ہے بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اس کی رینکنگ حوصلہ افزا نہیں ہے اور اس حوالے سے نیپال، سری لنکا، انڈیا اور بنگلہ دیش کی کارکردگی پاکستان سے نسبتا بہتر ہے۔ صرف افغانستان کی کارکردگی پاکستان سے بدتر ہے۔ بدعنوانی کو قابو کرنے، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور ریگولیشنز کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔ اس کے علاوہ کرمنل جسٹس، سول جسٹس، اہل اقتدار یا اہل اختیار کے طرز عمل میں قانون کی حکمرانی کا اصول اور شفاف حکومت کے حوالے سے بھی پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ سول جسٹس کے حوالے سے پاکستان کا نمبر ایک سو چوبیسواں اور ریگولیشن کے حوالے سے ایک سو تیسواں ہے۔ سرکار کی طرف سے تعلیم، روزگار، صحت اور جان و مال سمیت کسی بھی بنیادی حق کی آزادی نہیں ہے۔پاکستان میں بنیادی حقوق کی ضمانت آئین نے دی ہے۔ قانون اور ضوابط تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ روایات ہیں مگر ان کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ قانون شکنی اور طے شد ضوابط سے بے اعتنائی کی روش روز بروز پختہ ہوتی جا رہی ہے جس سے معاشرے میں اعتدال توازن اور سماجی انصاف ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے اسباب محرکات کیا ہیں اور اس کا تدارک اور تلافی کیسے کی جا سکتی ہے ۔ آج بھی اگر طے شدہ اصولوں و ضابطوں کی پاسداری اور قانون کی عملداری کے ذریعے کار حکومت کو چلایا جائے تو معاشرے میں انصاف اور میرٹ کا قیام ممکن ہو سکتا ہے جس سے عوام میں یکجہتی اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا فروغ پا سکتی ہے اور بھائی چارے اخوت اور رواداری کے جذبات ابھر سکتے ہیں اگرچہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ بالخصوص ایک ایسے معاشرے میں جہاں قانون شکنی اور بے اعتدالی ایک قومی مزاج بن چکا ہو۔ سیاسی برداری اور سرمایہ کی قوت اور ذاتی اثر و رسوخ کو ہی طاقت کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہو۔ قانون کی پاسداری کے ذریعے کار حکومت معاشرت اور معیشت چلانا دشوار ترین کام ہے۔اسی طرح امن سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند ، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں ۔ بین الاقوامی تعلقات میں امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورتحال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ ، بہتری، آزادی، دفاع ، قسمت اور فلاح و بہبود کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب ، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔امن زندگی کے اہم ترین مطالبات میں سے ہے جس کی بدولت خوشحال زندگی میسر آتی ہے اس کی بدولت اطمینان و استحکام نصیب ہوتا ہے امن ہی کی وجہ سے فتنوں اور فسادات سے تحفظ فراہم ہوتا ہے لہذا امن ایک نعمت غیر مترقبہ اور بہت بڑا احسان ہے جس کی حقیقی قدر وقیمت سے وہی شخص آشنا ہو سکتا ہے جو امن کے فقدان کا شکار ہو۔ موجودہ دور میں دنیا امن وسکون کی تلاش میں سرگرداں و پریشان ہے ہر با شعور قلب و ذہن امن ہی کا متلاشی ہے جیسے یہ کوئی ایسا کھویا ہوا خزانہ ہو جو ڈھونڈنے سے مل جائیگا اس کھوئے ہوئے امن کی تلاش میں اب تک دنیا بھر میں بڑی سے بڑی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں اور امن کے بین الاقوامی ایوارڈز تک متعارف کروائے جا چکے ہیں اتنی تلاش کے باوجود بھی حالات ہیں کہ دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں اور بدامنی و بے اطمینانی ایک وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے انسانی جان تباہی و بربادی سے دو چار ہے ظلم و عدوان شباب پر ہے فرد فرد اور جماعت جماعت میں آویزش و تصادم کا سلسلہ جاری ہے ظلم و بربریت ، قتل و غارت گری اور خوں ریزی کا دور دورہ ہے پوری انسانیت سسکتی اور بلکتی نظر آرہی ہے۔ دنیا میں بد امنی ، فساد اور خوں ریزی کی اصل بنیاد عدل اجتماعی کا فقدان ہے اسلام نے ملک و ریاست اور معاشرہ و خاندان کے لئے عدل و انصاف کو اہمیت دی ہے ارشاد باری ہے یقینا اللہ عدل ، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بری بات اور بے حیائی سے منع کرتا ہے اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سبق لو۔ اس کے علاوہ ہر وہ افعال جو بد امنی کے اسباب بنتے ہیں جیسے زنا ، شراب نوشی ، چوری اور جھوٹ اسلام ان سب سے بچنے کی تاکید کرتا ہے اور ان کے کرنے والوں پر سزا کا حکم دیتا ہے کیوں کہ یہ ایسے افعال ہیں جو عقلوں کو خراب کرتے ہیں اور دلوں میں کدورت پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے امن و امان کا قیام مشکل ہوجاتا ہے ۔ دنیا کے بڑے مذاہب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مذہب میں امن و سلامتی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے باعقل و شعور اس بات کو باور نہیں کرا سکتا کہ کوئی بھی ملک، قوم یا کوئی بھی زمانہ امن و سلامتی کے بغیر کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرے اسی لئے سب لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ان کی یہ خواہش رہتی ہے کہ امن و سلامتی ، پیار و محبت ، بھائی چارے اور رحمدلی کا چلن ہو تا کہ معاشرہ میں پر امن فضا قائم رہے اور پوری انسانیت سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر سکے ۔امن کون نہیں چاہتا ، ہر زندہ انسان بلکہ ہر ذی روح امن کا خواہاں ہے گویا کہ قیام امن معاشرہ کی اہم ترین ضرورت ہے۔ امن و امان انسانی اور بشری ضرورت ہے، ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا۔ امن و امان کا زوال بہت بڑی سزا ہے، امن ہی ہے جسکی وجہ سے لوگ اپنی جان، مال، عزت اور اہل خانہ کے بارے میں پر اطمینان رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔قیام امن انتہائی اہم اور ان بنیادی امور میں سے ہے جن سے کوئی بھی معاشرہ کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ اسی کی بدولت انسانی زندگی خوشحال اور پرسکون بن سکتی ہے۔امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔پر امن معاشرے کے لئے آج ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر عدم برداشت کے خاتمے سے ہی ہم معاشرہ میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلاف کے باوجود تشدد کو ختم کر سکتے ہیں۔