سوشل میڈیا پر عوامی دل آزاری سے گریز کی ضرورت

آئی جی گلگت بلتستان افضل محمود بٹ نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان پولیس کے جوان سوشل میڈیا پر دوسروں کی دل آزاری والی پوسٹ اور کمنٹس شیئر کرنے سے گریز کریں ورنہ سخت قانونی کارروائی کے لئے تیار رہیں سب سے پہلے پولیس کو قانون پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ قانون پر عمل کرنے کے لئے پولیس عام عوام کے لئے رول ماڈل ہیں۔ گلگت بلتستان پولیس پیشہ وارانہ فورس ہے مجھے کامل یقین ہے پولیس نوجوان قانون پر عمل یقینی بنا کر ملک کے دوسرے صوبوں کی فورس کے لئے رول ماڈل بنیں گے۔ ڈسٹرکٹ پولیس لیزان کمیٹی امن کے لئے بھرپور کردار ادا کرے کیونکہ عوام کے تعاون سے ہی امن و امان قائم رہے گا پولیس قانون کی بالادستی اور عوام کی جان و مال کی تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے اس کے لئے عوام کو بھی پولیس کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا تاکہ پورے معاشرہ ملکر قانون پر عمل کرے تو معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا پولیس جوان اخلاق و کردار کے ذریعے معاشرے میں قانون کی بالادستی کے لئے کردار ادا کریں کوئی بھی پولیس جوان سوشل میڈیا پر کسی دوسرے کی دل آزاری والی پوسٹ اور کمنٹس کرنے سے گریز کریں ورنہ قانونی کارروائی کرکے سخت سزا دینگے سوشل میڈیا پر کسی بھی اشتعال انگیزی پھیلانے والے پیغامات شئیر کرنا پولیس کی شان نہیں کیونکہ پولیس نے ہی عام معاشرے میں قانون کی بالادستی کے لئے کام کرنا ہے اس لئے پولیس جوان سوشل میڈیا پر غلط پوسٹ شیئر کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ ہم خود صاف ہوں تو دوسروں کو قانون بہتر انداز میں سمجھا سکتے ہیں۔انٹرنیٹ سروس ایک ایسا جدید اور موثر ذریعہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے بلکہ سائنسی ترقی نے زمینی دریافتیں عبور کرتے ہوئے خدا اور چاند سے دریافتیں شروع کررکھی ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز مختلف تحقیقی و جدیدی پلیٹ فارمز پر مشتمل ہے جن میں عموما زیادہ تر استعمال گوگل، یوٹیوب، جی میل، سکائپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز وغیرہ شامل ہیں۔سوشل میڈیا ایک جدید ترین اور تیز ترین ذریعہ تبلیغ ہے جس کے ذریعے بآسانی چند سیکنڈز کی رفتار میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پیغام پہنچایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا مختلف پلیٹ فارمز پر مشتمل ایک میڈیا پلیٹ فارم ہے جن میں فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر، واٹس ایپ، یوٹیوب، ٹک ٹاک جیسے دیگر پلیٹ فارمز شامل ہیں۔ یہ اچھی معیشت کا ذریعہ بھی رہا لیکن فی زمانہ رفتار اس کے مزید پلیٹ فارمز کے تعارف نے بے شمار مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ انٹرنیٹ ہماری زندگیوں کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے کیونکہ اس کے بغیر تعلیم ناممکن بن چکی ہے۔ لہذا سوشل میڈیا بھی ہماری زندگی میں برق رفتاری کے ساتھ گھر کے ایک فرد کی طرح جگہ بنا چکا ہے جہاں اس نے تعلیم، سائنس کو عام کیا وہاں اس کے ذریعے اسلام سے دوری، معاشرتی بے راہ روی اور زندگیوں کی تباہی ایک معمول بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے دریغ اور بلا ضرورت استعمال نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ادھیڑ عمر افراد میں بھی پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے جو انسانی دماغ میں موجود ڈوپامِن کو تسکین پہنچاتا ہے اور اس خلیے کی تسکین کا عمل انسانی زندگی کی تباہی کی بنیاد ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا ہی بھیانک نشہ ہے جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ فرد اپنے اہداف کے حصول کے بجائے اپنی ہی تخلیقی صلاحیتوں کا ضیاع کرتے ہوئے خود کو تباہ کردیتا ہے۔بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا۔ ہر گھر کے سربراہ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسلِ نو بگڑنے نہ پائے۔ اس حوالے سے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کس عمر میں، کس حد تک اور کون سے پلیٹ فارمز پر بچوں کی رسائی ممکن ہونی چاہیے اور اس رسائی کے عمل کے دوران بچوں کی مناسب نگرانی اور تربیت بھی ایک لازمی امر ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ تعلیمی امور میں ایک بڑا دخل والدین کا ہوتا ہے جہاں صرف اساتذہ نہیں بلکہ والدین بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انٹرنیٹ وسوشل میڈیا کے ضروری اور موثر طریقہ استعمال سے اپنی اولاد کو نہ صرف تعلیم مہیا کرتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ایج ریٹنگ کے مطابق دکھایا جاتاہے۔ ےہ ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت ملکی تعلیمی انتظامیہ نے یہ طے کیا ہوتا ہے کہ کس اےج گروپ کے لیے کون سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کتنے وقت کے استعمال کے لیے بہتر ہیں اور کس ایج گروپ کے بعد کن پلیٹ فارمز کا انتخاب کرنا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان نہ صرف اخلاقی گراوٹ بلکہ جرائم کا ایک گڑھ بن چکا ہے۔ والدین اوائل عمری میں اولاد کی تربیت کا فریضہ ادا کرنے کے بجائے ان کے ہاتھ میں موبائل دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی تباہی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو بعد ازاں معاشرتی برائیوں کا سبب بھی بنتی ہے۔سوشل میڈیا کے جدید سے جدید پلیٹ فارمز کے متعارف ہونے سے نوجوان نسل تعلیم و تربیت اور تعمیری و تخلیقی کاموں کے بجائے اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ موبائل پر صرف کرتے نظر آتے ہیں جو ان کے رجحانات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں کچھ پلیٹ فارمز ایسے بھی ہیں جو آمدنی کا ایک معقول ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر کچھ افراد بہترین اور موثر معلومات فراہم کرتے ہیں جو نہ صرف معاشرہ کے لیے مفید ہے بلکہ بہترین آمدنی کا ذریعہ بھی بھی ہے وہیں دوسری طرف پیسہ اور شہرت کو دیکھتے ہوئے گزشتہ پانچ چھے سالوں کے درمیان نہ صرف نوجوان نسل بلکہ درمیانی عمر کے افراد بھی سوشل میڈیا کو نہ صرف غلط استعمال کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ اس بے جا، غیر ضروری اور غلط طریقہ استعمال کو مسلسل وجہ شہرت اور پیسے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں جو کہ مسلسل پاکستانی معاشرہ کی تخریب کاری اور تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے۔آج کل سوشل میڈیا پر عملی ٹولز، جھوٹ اور سچ کی آمیزش، مبالغہ آرائی، بے جا نمود و نمائش، دین سے دوری اور والدین کی اس سب سے لاپرواہی ایک معمول بن چکا ہے۔ ان اثرات نے بزرگوں سے مہذب رویے اور شفقت جیسی خوبصورت صفات چھین لی ہیں اور نوجوانوں سے جذبہ تعمیر و عمل اور برداشت کے رویوں کو ختم کردیا ہے۔ اس سے نہ صرف والدین اور بچوں میں ذہنی ہم آہنگی کم ہورہی ہے بلکہ آئے روز نت نئے واقعات بھی رونما ہوتے نظر آرہے ہیں۔ بعض واقعات ایسے ہیں جن سے نہ صرف ریاست کو نقصان ہوا بلکہ اسلامی تشخص پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو معاشرتی و سماجی بہتری اور ترقی کا یہی ذریعہ تمام ذرائع ابلاغ سے بہتر ہے ۔ بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا۔ ہر گھر کے سربراہ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسلِ نو بگڑنے نہ پائے۔ اس حوالے سے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کس عمر میں، کس حد تک اور کون سے پلیٹ فارمز پر بچوں کی رسائی ممکن ہونی چاہیے اور اس رسائی کے عمل کے دوران بچوں کی مناسب نگرانی اور تربیت بھی ایک لازمی امر ہے۔عمومی طور پر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرانفرادی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے اور مختلف لوگوں سے تبادلہ خیال کر کے حالاتِ حاضرہ پر رائے قائم کی جاتی ہے، جب کہ کچھ صارفین ،گروپ کی شکل میں کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ انفلیوئنسرزکی صورت اپناکردار ادا کرتے ہیں اور یہ دونوں بعض اوقات کسی مخصوص ایجنڈے پرغیر محسوس انداز میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ اپنا ذاتی بیانیہ بھی پیش کرتے ہیں۔چوں کہ ان کی فین فالوِنگ اور زیادہ لوگوں تک رسائی ہو تی ہے، اسی لیے ان کا بیانیہ دور تک پھیلتا چلا جاتاہے، پھر فالورز بھی ایجنڈا پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح جب دیگر گروپس کی جانب سے اختلافی بیانیہ سامنے آتا ہے ،تو مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں،پھر ایک دوسرے پر کیچڑبھی اچھالا جاتا ہے، حتی کہ دونوں گروپس اپنے اپنے حق میں دلائل دیتے ہوئے ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور بات لڑائی جھگڑے،طعن و تشنیع اور بعض اوقات گالم گلوچ تک جاپہنچتی ہے۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سہولت کو ملک میں اتحاد و اتفاق اور بہتری کےلئے استعمال کےا جائے نہ کہ فتنہ فساد کی راہ ہموار کرنے کے لےے اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے قانونی ذرائع اختےار کر کے اس کے درست استعمال کو ےقےنی بناےا جائے۔