ماحولےات کا عالمی دن اور پلاسٹک بیگز پر پابندی

اےک خبر کے مطابق پنجاب بھر میں پلاسٹک بیگ پر پابندی لگا دی گئی ہے، صوبے میں کوئی انڈسٹری پلاسٹک بیگ نہیں بنائے گی۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر صوبے بھرمیں ”نو ٹو پلاسٹک“ مہم کا آغاز ہوگیا ہے۔مریم اورنگزیب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیراعلی نے پالیسیز،کیسز،ریسرچ اسٹڈیزپرایکشن پلان بنایا،پورے پنجاب میں پلاسٹک بیگ پرپابندی لگادی گئی ہے ، اب آپ نے پلاسٹک کواستعمال نہیں کرنا‘عادت کوتبدیل کرنا ہے، پلاسٹک جلتا ہے تواس سے پیدا ہونےوالی گیس کینسرکاسبب بنتی ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پاکستان سمیت دنیا بھر کے لئے چیلنج ہے۔ اقوام عالم کو مل کر قدرتی ماحول پر اثرانداز ہونے والے عوامل پر قابو پانا ہوگا۔ عوام کرہ ارض کی حفاظت کے مشن میں ہمارا ساتھ دیں۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے پلاسٹک بیگز کے استعمال، پروڈکشن، فروخت اور تجارت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پلاسٹک کے استعمال سے ماحول اور انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ نو ٹو پلاسٹک مہم کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا اور ماحول دوست اقدامات کا فروغ ہے۔ پلاسٹک بیگز پر پابندی کی پالیسی کو سختی سے نافذ کیا جائے گا۔ ہوٹلوں، ریستورانوں اور کھانے پینے کی جگہوں پر پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی ہوگی۔ پلاسٹک بیگ کی جگہ ماحول دوست متبادل کاٹن بیگ کو استعمال میں لایا جائے۔ صوبہ پنجاب میں پابندی لگنے کے بعد پلاسٹک بیگز اورسنگل یوزپلاسٹک کے خلاف حکام نے کریک ڈاﺅن کا آغاز کردیا ہے۔ محکمہ تحفظ ماحول کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگز بنانے والی فیکٹری سیل کی جائے گی، پلاسٹک بیگ بیچنے پر دکاندار پر جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ پلاسٹک بیگز ضبط ہوں گے۔خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں اور جرمانے کیے جارہے ہیں، حکومت پنجاب کی جانب سے ماحول دوست بیگز تقسیم کیے جا رہے ہیں۔سینئر صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ عوام خود کو کینسر سے بچانے کیلئے پلاسٹک بیگ استعمال نہ کریں، عوام سے اپیل ہے کہ پلاسٹک بیگز کی جگہ کپڑے اور کاغذ کے تھیلے استعمال کریں، دکاندار سمیت تمام لوگ پلاسٹک بیگز استعمال نہ کرنے کی مہم میں حکومت کا ساتھ دیں۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا گھروں میں پلاسٹک اشیا اور برتن بھی استعمال نہ کریں،متعلقہ حکام پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی یقینی بنائیں گے، طالب علموں اور تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز اور تربیتی ورکشاپس ہوں گی جس میں انسانی صحت کو پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا جائے گا۔ماحول کو بہتر بنانا ہم سب کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔اس حقےقت سے انکار نہےں کےا جا سکتا کہ ماضی میں متعدد بار پلاسٹک بےگز پر پابندی عائد کی گئی لےکن اس پر عملدرآمد ممکن نہےں بناےا جا سکا۔اگست 2019 میں بھی حکومت کی جانب سے ایک نئے قانون کا اطلاق کیا گیا جس کے تحت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیتھین سے بنے پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور ساتھ ہی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانوں کا بھی عندیہ دیا گیا۔ےہ کہا گےا کہ وفاق میں اس قانون کے اطلاق کے بعد مختصر عرصے میں تمام صوبوں میں بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گیا جس کے بعد پاکستان دنیا کے ان 128 ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا جہاں پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔پاکستان میں شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی تو عائد کر دی گئی لیکن یہ پابندی صرف ان شاپنگ بیگز پر لگائی گئی جن کو خریداری کے بعد خریدی ہوئی چیز ڈال کر لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جبکہ پیکنگ کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک شاپرز اور اشیائے ضروریہ ڈال کر گرہ لگا کر بند یا پھر سیل کر دیے جانے والے شاپرز پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی۔ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے پابندی کے اطلاق کے بعد کوئی متبادل پالیسی یا سدباب فراہم نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں سالانہ 55 ارب شاپنگ بیگز کا استعمال ہوتا ہے جبکہ ملک بھر میں شاپنگ بیگز بنانے کے آٹھ ہزار سے زائد رجسٹرڈ کارخانے موجود تھے جن کی یومیہ پیداوار قریب 500 کلوگرام تھی۔پلاسٹک شاپنگ بیگ پر پابندی کے بعد بائیو ڈیگریبڈل پلاسٹک بیگز متعارف ہوئے۔ اسلام آباد میں ضلعی انتظامیہ نے مختلف دکانوں پر چھاپے مارے اور جرمانے بھی کیے مگر دکانوں پرپلاسٹک شاپنگ بیگز کا استعمال دوبارہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ نہ صرف شاپنگ بیگ بلکہ کورونا وبا کے بعد استعمال ہونے والے ماسک، پلاسٹک کے گلوز بھی ایک بڑا چیلنج ہیں، جس پر تاحال حکومت کی پالیسی نہیں اور نہ حکمت عملی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے لوگوں کو بتایا جائے کہ روز مرہ کے استعمال کے یہ پلاسٹک بیگز پانچ سو سال تک ختم نہیں ہوتے۔ اگر اس شہر یا ملک کو پلاسٹک سے پاک کرنا ہے تو یہ سب اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب لوگ ساتھ دیں، حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسی ترتیب دے جو آنے والی حکومتیں بھی جاری رکھ سکیں۔ پاکستان میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی لگنے کے باوجود یہ بیگز باآسانی دستیاب ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غربت کی وجہ سے ہر کوئی کپڑے کے بیگز نہیں خرید سکتا جس کی قیمت عمومی طور پر پچاس یا سو روپے مقرر ہے۔پھر وہ لوگ جو سینکڑوں پلاسٹک بیگز بنانے والے کارخانوں میں کام کرتے ہیں جب یہ بند ہوجائیں گے تو وہ لوگ کہاں جائیں گے، حکومت ان بیگز پر پابندی لگائے مگر ان پہلوﺅں پر غور کرکے پابندی کا اطلاق کرے تو زیادہ کار آمد ہوگا۔ پولیتھین تھیلیوں پر مکمل پابندی میں سب سے بڑی رکاوٹ پولیتھین کی صنعت ہے۔ لوگوں نے اربوں روپے لگا رکھے ہیں، ایسی ایسی مشینیں لگا رکھی ہیں جن کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔پابندی سے یہ مشینیں ناکارہ ہو جائیں گی اور وہ تمام کاریگر مزدور جنہوں نے کئی دہائیوں سے صرف یہی کام سیکھا ہے وہ کہاں جائیں گے؟ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا پلاسٹک بیگ ہی ماحول کا سب سے بڑا دشمن ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ایسا حل تلاش کرنا چاہیے کہ لوگوں کا روز گار بھی نہ چھےنا جائے اور ماحول پر پلاسٹک کے اثرات بھی کم سے ۔ لوگ اپنے طرز زندگی میں بہتری لائیں جبکہ حکومت لوگوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تعاون بھی کرے پوری دنیا میں ےہ ہوتا ہے اور یہ سب آہستہ سے ایک میکنزم کے تحت ہوتا ہے ایسے ہی ایک دم پابندی کہیں نہیں لگائی جاتی۔ دس لاکھ خاندان اس صنعت سے وابستہ ہیں جبکہ یہ صنعت سالانہ ایک ارب ڈالرز کا کاروبار دیتی ہے۔پلاسٹک بےگز کی فےکٹرےوں کے مطابق ایک شاپنگ بیگ کے اندر پلاسٹک کی مقدار چالیس مائیکرون کر دی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں پلاسٹک کی مقدار میں اضافہ کر دیا ہے، پہلے یہ مقدار پندرہ مائیکرون تھی۔ مائیکرون شاپنگ بیگ کی پرت کی موٹائی ماپنے کی اکائی ہے جو یہ چیز بتاتی ہے کہ اس شاپنگ بیگ کے اندر پلاسٹک کتنا استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ جن شاپنگ بیگز کے اندر پلاسٹک زیادہ استعمال ہوتا ہے اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو شاپنگ بیگ بار بار استعمال کے قابل ہوتا ہے دوسرا ری سائیکلنگ کے عمل میں سود مند ہوتا ہے، چونکہ یہ شاپنگ بیگ مہنگا بھی ہوتا ہے اس لئے اس کا اندھا دھند استعمال نہیں ہوتا۔ آلودگی کا سب سے بڑا سبب چھوٹے اور کم پلاسٹک والے بیگز ہیں کیوں کہ ایک تو یہ انتہائی سستا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، دوسرا اس کی ری سائیکل ویلیو نہیں ہوتی لیکن آلودگی میں بے بہا اضافہ ہوتا ہے۔ شاپنگ بیگز میں پلاسٹک کی مقدار کا زیادہ رکھنا اس کے استعمال کو کم کرتا ہے اور دنیا بھر میں یہ ہی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔سندھ میں ےہ کہا گےا تھا کہ شاپنگ بیگز کی تیاری میں آکسو بائیوگریڈایبل میٹیریل بھی لازمی قرار دیا ہے یعنی جو بھی شاپنگ بیگز بنیں گے ایک تو ان کی موٹائی زیادہ ہو گی دوسرا وہ زمین میں جذب ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں گے تو ایسے شاپنگ بیگز استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ عام طور پر لاتعداد اجسام مٹی میں تحلیل ہونے کے عمل سے گزرتے ہیں لیکن پلاسٹک ان اشیا میں سے ہے جسے مٹی صدیوں تک تحلیل نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ایسے مصنوعی طریقے دریافت کیے گئے ہیں جو پلاسٹک کو بھی حیاتیاتی تحلیل کے عمل سے گزار دیتے ہیں۔یورپ میں کئی ایسی تحریکیں چل رہی ہیں جو اس آکسوبائیگریڈایبل میٹیریل پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ تاہم خلیجی ممالک میں اس میٹیریل سے بنائے جانے والے شاپنگ بیگز کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ پلاسٹک بنیادی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی بائی پراڈکٹ ہے۔جن ممالک کے ہاں تیل کی پیداوار ہے وہی ملک خام پلاسٹک برآمد کرتے ہیں، پاکستان میں سارا پلاسٹک سعودی عرب اور قطر سے آتا ہے۔بہرحال صورتحال خواہ کچھ بھی ہو حکام کو پلاسٹک انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کے علاوہ پلاسٹک کے سنگےن اثرات پر کسی طور سمجھوتہ نہےں کرنا چاہےے۔پنجاب کی تقلےد کرتے ہوئے وفاق‘چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان و آزاد کشمےر میں بھی پلاسٹک بےگز پر مکمل پابندی عائد کر دی جانی چاہےے۔