ہتک عزت قانون‘عدلیہ اور صحافتی تنظیمیں

صحافتی تنظیموں کی عدالتی کارروائی کی الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹنگ پر پابندی کے پیمرا نوٹی فکیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا سپریم کورٹ فیصلے میں دی گئی گائیڈ لائنز کے مطابق رپورٹنگ کر سکتا ہے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ہائی کورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد اور عادل عزیز قاضی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ الیکٹرانک میڈیا سپریم کورٹ فیصلے میں دی گئی گائیڈ لائنز کے مطابق رپورٹنگ کر سکتا ہے۔ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ اب بے شک جتنی مرضی لمبی تاریخ دے دیں۔پیمرا کی جانب سے التوا کی درخواست منظور کر لی گئی اور عدالت نے سماعت جولائی تک کے لیے ملتوی کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ نے پیمرا نوٹی فکیشن کو چیلنج کیا تھا۔پیمرا نوٹیفکیشن کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی درخواست کو بھی یکجا کر کے سماعت کی گئی۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے زیر سماعت عدالتی مقدمات سے متعلق خبر یا ٹکرز چلانے پر پابندی عائد کردی تھی۔پیمرا کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ خبروں، حالات حاضرہ اور علاقائی زبانوں کے تمام ٹی وی چینلز زیر سماعت عدالتی مقدمات کے حوالے سے ٹکرز اور خبریں چلانے سے گریز کریں اور عدالتی تحریری حکمناموں کی خبریں بھی رپورٹ نہ کریں۔اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ عدالت، ٹریبونل میں زیر سماعت مقدمات کے ممکنہ نتیجے کے حوالے سے کسی بھی قسم کے تبصرے، رائے یا تجاویز و سفارشات پر مببنی کوئی بھی مواد نشر نہ کیا جائے۔بعد ازاں، عدالتی رپورٹنگ کے حوالے سے صحافتی تنظیموں نے پیمرا کی جانب سے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کے نوٹیفکیشن کو مسترد کردیا تھا۔صحافتی تنظیموں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی جانب سے عائد پابندی کا جائزہ لیا گیا۔صحافتی تنظیموں نے پیمرا کی جانب سے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیمرا نوٹیفکیشن کو آزادی صحافت اور آزاد عدلیہ کے خلاف قرار دیتے ہیں۔درےں اثناءلاہور ہائی کورٹ نے پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024 کے تےن سیکشنز پر عمل درآمد عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیا۔عدالت نے پنجاب ہتک عزت قانون کی بغیر ثبوت کے ہتک عزت کا دعوی دائر کرنے، ٹربیونل کی تشکیل میں حکومت کے کردار اور اسمبلی کی کارروائی سے ہتک عزت کے استثنی کی شقوں پر عمل درآمد کو درخواست کے حتمی فیصلے تک روک دیا۔لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب ہتک عزت ایکٹ 2024 کے خلاف ندیم سرور ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر درخواست پر جسٹس امجد رفیق نے سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل نے عدالت بتایا کہ یہ ایکٹ، عدلیہ کی آزادی، آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے، ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس تےن ججز کے نام بطور ٹریبیونل تجویز کرسکتے ہیں، اگر حکومت چاہے تو ان ناموں کو رد کرکے نئے نام منگوا سکتی ہے۔ندیم سرور ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کی تجویز کو رد نہیں کیا جا سکتا، اس پر عمل لازمی ہے، ایکٹ کے مطابق حکومت پنجاب ججز کے نام بطور ٹریبیونل تجویز کرسکتی ہے، ان تین ناموں سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ایک نام منتخب کرسکتے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہو سکتا، عدلیہ کے معاملات میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ ٹریبیونل حکومت کے حکم پر چلتے ہیں، عدلیہ کے حکم پر نہیں، جیسے سروس ٹریبونل ہیں، بینکنگ ٹریبونل ہیں۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس ایکٹ کے مطابق ججز کی تنخواہ وغیرہ کا تعین حکومت کرے گی، یہ بھی عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔جسٹس امجد رفیق نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ قانون کیسے آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، یہ بتائیں کہ کیسے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ندیم سرور ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس ایکٹ کے مطابق بغیر کسی ثبوت آپ کیسز کی کارروائی شروع کر سکتے ہیں۔جسٹس امجد رفیق نے کہا اگر آپ چیف منسٹر کو کسی بیان دینے پر عدالت میں لے آئیں تو یہ غلط بات ہے، جس پر ایڈوکیٹ ندیم سرور نے کہا تو چیف منسٹر جھوٹ نہ بولیں، وزیر اطلاعات پنجاب صبح سے شام تک جھوٹ بولتی ہیں۔درخواست کے وکیل نے کہا کہ اس ایکٹ کے مطابق کیس کے فیصلے سے پہلے ہی ملزم 30 لاکھ جرمانہ ادا کرے گا، جس پر جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق ایسا ہو سکتا ہے، تیز ترین انصاف کے لیے یہ ضروری ہے۔سرکاری وکیل نے ہتک عزت ایکٹ کے خلاف دائر درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں خصوصی عدالتوں میں ججز کی تعینات پر حکومت اور لاہور ہائیکورٹ کی مشاورت ہوئی۔جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے اگر چیف جسٹس کچھ ناموں کی تجویز بھیجتے ہیں تو حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہمارے فلاں وزیر کو یہ نام پسند نہیں آیا، یہ کوئی دکانداری یا سودے بازی ہے، وکیل درخواست گزار کا سوال ہے یہ ٹریبیونل کیسے بن سکتا ہے، یہ بھی سوال ہے کہ حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان مشاورت سے کیا مراد ہے۔عدالت نے ہتک عزت کے قانون کے سیکشن تےن سیکشن پانچ اور سیکشن آٹھ پر عملدرآمد عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا، اور کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کیا ہے، عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کرلیا ہے۔اس سے قبل بےس مئی کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اور صحافتی تنظیموں کے تحفظات اور احتجاج کے باوجود صوبائی حکومت کا پیش کردہ ہتک عزت بل 2024 منظور کرلیا گیا تھا۔جس کے بعد صحافیوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا تھا۔قائم مقام گورنر پنجاب ملک احمد خان نے ہتک عزت بل 2024 منظور کرلیا، جس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔بل کے اہم نکات کے مطابق صوبائی اسمبلی میں منظور ہونے والے ہتک عزت بل 2024 کے تحت ٹی وی چینل اور اخبارات کے علاوہ فیس بک، ٹک ٹاک، ایکس، یوٹیوب، انسٹاگرام پر بھی غلط خبر یا کردار کشی پر تےس لاکھ روپے ہرجانہ ہوگا۔کیس سننے کے لیے ٹربیونلز قائم کیے جائیں گے جو 180 دنوں میں فیصلے کے پابند ہوں گے۔آئینی عہدوں پر تعینات شخصیات کے کیسز ہائی کورٹ کے بینچ سنیں گے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی حکومت پنجاب کا رات کی تاریکی میں منظور کردہ ہتک عزت کالا قانون مسترد کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اس سیاہ قانون کی تیاری، منظوری اور عملداری میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کالے قانون کے خلاف پر امن سیاسی و جمہوری مزاحمت کریں گے۔متنازعہ ہتک عزت بل کے خلاف صحافی تنظیموں نے حکومتی تقریبات، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں، وفاقی و صوبائی بجٹ کی کوریج کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔متنازع ہتک عزت بل کی گورنر پنجاب کی طرف سے منظوری کے خلاف صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا۔اجلاس میں سی پی این ای، اے پی این ایس، ایمنڈ، پی بی اے، پی ایف یو جے اور پریس کلب کے اراکین نے شرکت کی۔اجلاس میں مختلف احتجاجی اقدامات پر مرحلہ وار عملدر آمدکا فیصلہ ہوا۔ شرکا نے متنازع کالے قانون کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا اور متنازع بل کے خلاف موثر قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ےہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومتی تقریبات، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں، وفاقی و صوبائی بجٹ کی کوریج کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔اتفاق رائے سے طے پایا کہ متنازع قانون کے خلاف حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بار کونسلز کے ساتھ مشاورت سے مرحلہ وار آگے بڑھا جائے گا۔انسانی حقوق کے منافی متنازع ہتک عزت قانون کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کیا جائے گا جبکہ قانون پر متعلقہ سرکاری دفاتر کے سامنے احتجاج کیا جائے گا۔تمام صحافی تنظیموں نے اسے انسان دشمن قانون قرار دےا ہے ۔