رانا فیضان علی
تےن سو سے زائد معصوم افراد کا خون پےنے کے بعد 76 سالہ قاتل و خونی ڈائن حسےنہ واجد کے اقتدار کی بےساکھےاں لڑکھڑا گئےں اور وہ وزےراعظم ہاﺅس کے بِل سے خوفزدہ ناگن کی طرح دم دبا کر فرار ہو گئےں۔عوام کی خدمت کے بجائے ان کے خون پسےنے پر عےاشی کرنے والے حکمرانوں کا ےہ انجام تارےخ کے صفحات پر جا بجا بکھرا پڑا ہے مگر مجال ہے جو حکمران طبقہ عبرت کے ان اسباق سے کچھ سےکھنے کی سعی کرے ۔”پہنچی وہےں پہ خاک جہاں کا خمےر تھا“ کے مصداق ان کا خمےر مکتی باہنی سے اٹھا تھا جسے ہندو بنےے نے ”علےحدگی“ کے خوشنما پردوں میں لپےٹ کر نظرےہ پاکستان کی نفی کرتے ہوئے شےخ مجےب الرحمن کو پےش کےا اور اسے انہوں نے اےک تحفہ سمجھ کر قبول کرلےا مگر اسی خمےر کی سڑاند اور تعفن جب ان کے نتھنوں سے ٹکرایا تو اسے برداشت نہ کرتے ہوئے انہوں نے راہ فرار ہی میں عافےت جانی۔ بدقسمتی دےکھےے جن سے آزادی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لاکھوں جانوں کی قربانےاں دے گئےںحسےنہ واجد اسی بھارت ہی کوکھ میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔
حکمران طبقے کےلئے اس سے بڑا المےہ اور کےا ہوگا کہ انہےں اپنی سرزمےن پر بہادر شاہ ظفر کے بقول دو گز زمےن بھی مےسر نہےں آتی اور وہ ذلت وگمنامی کے اندھےروں میں ےوں ڈوب جاتے ہےں کہ ان کا نام لےوا تک نہےں رہتا۔1971میں پاکستانی حکمرانوں کی نااہلےوں کے باعث ڈھاکہ اب اےک بار پھر سقوط سے دوچار ہوا ہے لےکن ےہ سقوط بنگلہ عوام کےلئے کسی نعمت سے کم نہےں‘ انہےں اےک اےسی حکمران سے نجات ملی جو اپنی ہی فوج کو اپنے اقتدار کےلئے عوام کو دہشت گرد و تخرےب کار گردانتے ہوئے ان پر سےدھا فائر کھول دےنے کا حکم صادر کرتی رہی‘ تےن سو سے زائد افراد کے بہےمانہ قتل کے باوجود اس کی پےشانی ندامت سے عرق آلود نہےں ہوتی بلکہ وہ کسی بھی قےمت پر اپنے اقتدار کے تحفظ کو ےقےنی بنانے کی خواہاں ہوتی ہے۔وہ شاےد نہےں جانتی تھی کہ اقتدار کی ناپائےداری اےک مسلمہ حقےقت ہے‘اس کی کرسی کے پائے تمام تر اختےارات اپنی ذات میں سمو لےنے کے باوجود اتنے کمزور ہوتے ہےں کہ اک چنگاری چند لمحوں میں بھڑکتی آگ کے شعلوں میں تبدےل ہو کر طاقت کے اےوانوں کو جلا کر خاکستر کر دےتی ہے۔ اس نے ےہ خواب میں بھی نہےں سوچا ہو گا کہ طلباء کی جانب سے اپنے حقوق کےلئے نکالے جانے والے جلوس اس کے اقتدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جا سکتے ہےں‘ وہ جس آرمی چےف پر تکےہ کےے بےٹھی تھی اسی نے اسے مستعفی ہونے کےلئے محض پنتالےس منٹ کی مہلت دی اور قوم سے اس کے آخری خطاب کی خواہش کو اس کے گلے کی ہڈی بنا دےا کےونکہ عوامی غےظ و غضب کی تاب لانا اس کے بس میں نہ تھا۔ےہ ازلی و ابدی حقےقت ہے کہ اقتدار کی راہدارےوں میں جن پتوں پر تکےہ کےا جاتا ہے وقت پڑنے پر وہ صرف ہوا ہی نہےں دےتے آندھی و طوفان کے جھکڑوں میں بدل جاتے ہےں‘اسی پر بس نہےں وہ مسند اقتدار کے نئے راہی کو اپنی چاپلوسی و تملق شعاری سے لبھانے کےلئے اےڑی چوٹی کا زور لگاتے ہےں‘کسی نے سچ ہی کہا ہے۔
حاکم وقت بدلنے کی ہے بس دےر ےہاں
شہر کا شہر بدلتا ہی چلا جاتا ہے
اقتدار رےشم و کمخواب کا بستر نہےں ہے‘حکمرانی کے تاج میں جڑے کانٹے اےک لمحے کا سکون نہےں لےنے دےتے ۔اٹھتے‘ بےٹھے‘ سوتے ‘جاگتے انجانے خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہےں۔ انسان اپنے ہی سائے سے ڈرتا اور اپنے قرےبی و مخلص ساتھےوں کو بھی اپنے اقتدار پر نظرےں گاڑے دےکھتا ہے‘ مخالفےن کو مرواتا ہے‘ بھائےوں کی آنکھوں میں سلائےاں پھرواتا ہے‘ دنےا میں لانے کا موجب بننے والے باپ کو جےل کی کال کوٹھڑی میں پھےنک کر بھول جاتا ہے۔فرعون کی طرح ڈےڑھ لاکھ معصوم بچے مار دےتا ہے لےکن لےلی اقتدار کو رجھانے میں کامےاب نہےں ہوتا۔نہ ہی اس حقےقت کی تہہ میں چھپی حقےقت کو جان پاتا ہے کہ اقتدار نے آخر کار جانا ہے ‘وہ جس تخت پر براجمان ہے اس پر پہلے بہت سے تخت نشےں رہ چکے ہےں جو ہرگز نہےں جانا چاہتے تھے لےکن گئے۔دراصل اقتدار رعونت و تکبر کے ہمالہ پر بٹھا کر سوچنے سمجھنے کی صلاحےتےں سلب کر لےتا ہے‘ پروٹوکول کی گاڑےوں کے دھول اڑاتے تےز رفتار قافلے میں باہر کی دنےا دکھائی نہےں دےتی‘اگر کبھی اس پر نظر پڑ بھی جائے تو اسے کےڑے مکوڑوں سے زےادہ اہمےت دےنا گوارا نہےں کےا جاتا‘عوام کے خون پسےنے سے کمائے گئے مال پر اپنی عےاشےوں کے تاج محل تعمےر کےے جاتے ہےں‘ اقتدار کے نشے میں انٹا غفےل ہو کر فےل بدمست کی طرح سب کچھ روند ڈالنے کی خواہش دل میں مچلتی ہے۔ لےکن وہ نہےں جان سکتا کہ جس محل کےلئے وہ سب کچھ غتربود کرنے سے بھی نہےں چوک رہا اسی محل کی غلام گردشوں میں اس کی ناک کے نےچے سلےمانی ٹوپی اوڑھے سازشےں پنپ رہی ہےں ۔
ستم ظرےفی دےکھےے حسےنہ واجد اپنی قوم کو ےہ باور کراتی رہی کہ اس کے والد شےخ مجےب الرحمن بنگلہ دےش کے بانی ہےں لےکن عوام نے نہ صرف حسےنہ واجد کےلئے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کےا بلکہ ان کے والد شےخ مجےب الرحمن کے مجسموں کے سر بھی تن سے جدا کر کے ان کے نظرےے ہی کو زمےن بوس کر دےا۔ےہ خونی ڈائن اپنے عرصہ اقتدار مےں بھارت کی خوشنودی اور اپنی انا کی تسکےن کےلئے ان ستر‘ اسّی‘نوے سالہ بزرگوں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھاتی رہی جنہوں نے پاک سرزمےن کی حفاظت کےلئے آواز بلند کی اور اپنے تئےںملک کو ٹوٹنے سے بچانے کےلئے کردار ادا کےا‘حب الوطنی کے شاہکار ان افراد کو اس نے تقسےم کے وقت طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تختہ دار پر لٹکا دےا۔ ان کی آہےں‘ سسکےاں‘ان کے اہل خانہ کی نوحہ خوانی اور نالہ بے باک علامہ اقبال کے شکوہ کی طرح آسمان چےر گےا۔آفرےن ہے پاکستان کی محبت سے چور ان بزرگوں کی عزےمت واستقامت پر کہ پھندوں پر جھولنا گوارا کرلےا لےکن اپنے موقف سے سرمو انحراف نہ کےا۔
ےہ بات حکمرانوں کو اپنی لغت میں شامل کر کے نوشتہ دےوار بنا لےنی چاہےے کہ لوحِ دنےا سے ان حکمرانوں کے نام مٹائے نہےں جا سکتے جو عوام کی فکر میں جےتے‘عوام کی طرح رہتے اور عوام کی خاطر زندگی گزارتے ہےں۔جو بھی عوام کا خادم بن کر رہنے کے برعکس بادشاہ بننے اور کرسی کے پاےوں سے لپٹنے کو مطمح نظر بنا لےتا ہے اسے بلا آخر بنگلہ دےش کی طرح عوام کے بپھرے ہوئے سمندر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو جانی و مالی نقصان سے ماوراءہو کر اےسے حکمرانوں کو رخصت کےے بنا چےن سے نہےں بےٹھتا ۔اگر حسےنہ واجد‘ شاہ اےران کی جلاوطنی‘افغانستان کے صدر اشرف غنی کے فرار ‘سری لنکا کے صدر راجا پکشے کے محل پر عوام کے دھاوے‘پاکستانی ڈکٹےٹر جنرل مشرف کی خود ساختہ ملک بدری ‘مصر پر برسوں سے حکمران حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے‘ تےونس پر تئےس سال حکمرانی کرنے والے زےن العابدےن بن علی کے فرار کے پس پردہ محرکات اور مابعد اثرات پر غور کرتےں تو انہےں ےوں اپنے اقتدار کو بادل نخواستہ خدا حافظ کہہ کر ہےلی کاپٹر میں بھارت کی طرف اڑان نہ بھرنا پڑتی۔