گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے مالی حکمت عملی پر تین روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔ ورکشاپ کا مقصد گلگت بلتستان میں مقامی کمیونٹیز اور مالی اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھانا تھا تاکہ وہ گلیشیئر جھیلوں کے سیلاب اور دیگر موسمیاتی چیلنجز کے بڑھتے ہوئے خطرات کو موثر طریقے سے ڈھال سکیں۔شرکاء کا کہنا تھا گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب قدرتی آفات کے خطرات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن سے نمٹنے کے لئے تمام اداروں اور عوام الناس کو اجتماعی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان حکومت یو این ڈی پی کے تعاون سے قدرتی آفات کے خطرات سے دوچار علاقوں میں متعدد منصوبوں پر کام کررہی ہے جس کے انتہائی دیرپا اور دورس نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔گلاف پراجیکٹ کے تحت قدرتی آفات کے خطرے سے دوچار علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو خصوصی تربیت فراہم کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ پراجیکٹ کے تحت مختلف وادیوں میں جدید ارلی وارننگ سسٹم نصب کئے جارہے ہیں جس سے لوگوں کو ممکنہ آفات سے متعلق پیشگی اطلاع ملنے میں مددملے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں'ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے ان پاکستانیوں کی تعداد جنہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں کسی موسمیاتی آفت کا سامنا کیا ہے، 2021 میں گیارہ فیصد تھی جو اب بڑھ کر ستائیس فیصد ہوچکی ہے۔ یہ اضافہ ملک میں 2022 میں آنے والے سیلابوں کے بعد ہوا ہے۔ اس سیلاب میں ملک کی پندرہ فیصد آبادی متاثر ہوئی تھی۔ ملک بھر میں اور خصوصا جنوبی سندھ میں مقامی کمیونٹیز میں آفات سے لڑنے کی سماجی صلاحیت ان سیلابوں کے بعد کمزور پڑی ہے۔ انفرادی طور پر گھروں کی بھی ان آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور ہوئی ہے۔ پاکستان ان آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں عالمی طور پر نچلے دس ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔2022 میں پاکستان کے جنوبی اور جنوب مشرقی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید سیلاب آئے تھے جس سے سترہ سو افراد ہلاک اور تین کروڑ تیس لاکھ کے قریب افراد متاثر ہوئے تھے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا نو فیصد کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بن موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ انٹرگورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی، جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہو گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراوٹ کی پیشنگوئی کر چکا ہے۔پاکستان تین سال قبل بھوک کے عالمی انڈیکس پر موجود ممالک میں سے بانویں نمبر پر تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین پر روسی حملے کے سبب سپلائی چین کے متاثر ہونے سے آنے والے برسوں میں صورتحال مزید ابتر ہونے کا امکان ہے۔ اگر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں غذائی پیداوار کیلئے براہ راست خطرہ ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ملک میں پانی کے بنیادی ذریعے سندھ طاس کو پانی سے بھرتے ہیں، پوری بیسیویں صدی کے دوران ان گلیشیئرز نے اپنے وجود کا اتنا حصہ نہیں کھویا تھا جتنا کہ وہ اب کھو چکے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک، جس کے جی ڈی پی کا تئیس فیصد حصہ زرعی شعبے اور سندھ طاس پر انحصار کرتا ہے، اس کے لیے یہ تشویش کی ایک سنگین وجہ ہے۔شدید موسمیاتی کیفیات پانی کی کمی کے لیے خطرہ ہونے کے علاوہ، ذرائع آمدن اور زراعت کے لیے بھی تیزی سے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ ہر موسم گرما میں، مون سون کی شدید بارشیں پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں اچانک سیلاب، جائیداد کو نقصان اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ نتائج ہر سال کے ساتھ ابتر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف یوکرین میں جنگ کی بدولت یورپ کی روٹی کی ٹوکری سے گندم کی برآمد رک چکی ہے، تو ادھر بھارت میں کسانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے سے ان کی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ چونکہ اس قسم کے موسمیاتی جھٹکوں کی تعداد آنے والے برسوں میں بڑھنے کا خدشہ ہے، ایسے میں پاکستان کی غذائی پیداوار کی صلاحیت میں بھی انتہائی نوعیت کے موسمیاتی واقعات کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔گندم جو کہ پاکستان کی قومی غذا میں فائبر کا بنیادی ذریعہ اور مجموعی طور پر غذائی تحفظ کا ایک اہم تعین کنندہ ہے، گرمی کی لہروں اور کھاد کی بڑھتی قیمتوں کے سبب تقریبا کئی ملین ٹن کی کمی کا سامنا ہے۔ طلب اور رسد کے اس فرق کو ایک غیر مستحکم عالمی منڈی سے گندم کی درآمد کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے کہ جس کی آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کے لیے تشویش کی ایک سنگین وجہ ہے۔روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ نے بھی غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔پاکستان میں درآمدی گندم کا فیصد یوکرین سے حاصل کیا جاتا ہے، جو دنیا میں گندم کا پانچواں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے زراعت، جنگلات اور ماہی گیری سمیت قدرتی وسائل کے شعبے میں بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایشیا پیسفک کلائمیٹ رپورٹ 2024 کے مطابق پاکستان میں ان شعبوں سے مجموعی نقصانات جی ڈی پی کا بارہ فیصد تک ہونے کا امکان ہے جو ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں سب سے زیادہ ہے۔2070 تک موسمیاتی تبدیلی ایشیا اور بحر الکاہل میں مجموعی طور پر جی ڈی پی کے 16.9 فیصد نقصان کا سبب بن سکتی ہے، زیادہ تر خطے کوبیس فیصد سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔گرمی کی لہروں سے مزدوروں کی پیداواری صلاحیت پر شدید اثرات پڑتے ہیں اور یہاں تک اس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی شامل ہیں، 2030 میں ، زیادہ تر معاشی نقصانات مزدوروں کی پیداواری صلاحیت اور توانائی کی طلب پر اثرات کی وجہ سے ہوں گے۔سمندر کی سطح میں اضافے اور طوفانی لہروں سے متعلق نقصانات میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوگا کیونکہ سمندر کی سطح میں اضافے سے ہونے والے اثرات میں بھی تیزی آرہی ہے جب کہ تباہ شدہ سرمائے کی تعمیر نو کے اخراجات وجہ سے معاشی ترقی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے سب سے بڑے معاشی اثرات کم آمدنی والے ممالک جیسے بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، جنوب مشرقی ایشیا، ویتنام اور بحرالکاہل میں ہوں گے جس کی بنیادی وجہ ان ممالک میں ساحلی طغیانی میں اضافہ، مزدوروں کی پیداواری صلاحیت میں کمی اور قدرتی وسائل میں کمی ہوگی۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی خبردار کیا ہے کہ ان آفات سے غریب طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی ترقی پذیر ایشیا میں لوگوں کے معیار زندگی کو یکسر تبدیل کر دے گی۔خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ واضح اثرات گرمی کی لہروں کی مدت اور شدت سے محسوس کیے جائیں گے جس کے بعد بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی سے سیلاب کے خطرات بڑھ جائیں گے اور خشک سالی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔شدید طوفانوں اور سمندر کی سطح میں اضافے سے نشیبی ساحلی علاقوں بشمول بڑے شہروں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اگر موسمیاتی بحران میں تیزی آتی رہی تو خطے کے تیس کروڑ افراد ساحلی سیلاب سے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور 2070 تک سالانہ کھربوں ڈالر کے ساحلی اثاثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔مستقبل میں ایشیا اور بحرالکاہل کے زیادہ تر خطے کے گیلے ہونے کی توقع ہے کیونکہ گرم ہوا زیادہ نمی برقرار رکھ سکتی ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ سمندری بخارات میں اضافہ کرتا ہے۔جنوبی ایشیا میں سال 2100 تک بارشوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوگا جب کہ مشرقی ایشیا میں اس میں پچیس فیصد اضافہ ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت محض ورکشاپس کے انعقاد اور کاغذی کارروائیوں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے جس پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
۔