حاکم شہر بدلنے کی ہے بس دیر یہاں

 ملک کی سیاسی صورتحال میں یک لخت جو تبدیلی رونما ہوئی ہے اس نے ایک بار پھر 2018کے انتخابات سے قبل کے منظرنامے کا اعادہ کیا ہے جب نون لیگ و پیپلز پارٹی کے اراکین پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے۔اب یہی صورتحال تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔پی ٹی آئی کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے نو مئی کے واقعات کے مذمت کرتے ہوئے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔شیریں مزاری نے کہا ہے کہ میں نومئی کے واقعات کے مذمت کرتی ہوں، ریاستی علامات جیسے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ کی بہت زیادہ مذمت کرنی چاہیے اور میں 9، 10 مئی کے واقعات کی مذمت کرتی ہوں۔بارہ روز تک میری گرفتاری، اغوا اور رہائی کے دوران میری صحت کے حوالے سے اور میری بیٹی ایمان مزاری کو جس صورتحال اور آزمائش سے گزرنا پڑا، میں نے جیل جاتے ہوئے اس کی وڈیو بھی دیکھی جب میں تیسری مرتبہ جیل جارہی تھی تو وہ اتنا رو رہی تھی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں متحرک سیاست چھوڑ رہی ہوں، میں آج سے پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہوں گی۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ اعلان کر رہا ہوں کہ پی ٹی آئی سے میرا کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست نہیں چھوڑ رہا ہوں۔ میں نے جیل خانہ جات، محکمہ ثقافت اور اطلاعات ڈی جی پی آر میں جو اصلاحات کی ہیں وہ کسی اور وزیر نے نہیں کیں۔فیاض الحسن چوہان نے عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اپریل کے شروع میں چوہدری سرور آیا تو عمران خان نے مجھے فون کیا کہ اس کا جواب دینا ہے۔ چوہدری سرور کے ساتھ میرا بزرگی والا رشتہ تھا لیکن میں نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور مال روڈ پر گورنر ہائوس کے گیٹ پر پریس کانفرنس کرکے ایسی کی تیسی کردی۔ اس کے بعد عون چوہدری آیا تو پھر عمران خان کو براہ راست فون آیا کہ اس کا کوئی اور جواب دو حالانکہ عون چوہدری میرا رشتہ دار تھا لیکن میں نے اس کی ایسی تیسی پھیر دی۔فیاض الحسن نے کہا کہ بیس یا پچیس دن گزرے تو علیم خان آیا جو میرا بڑا اچھا دوست تھا، پھر عمران خان کا فون آیا کہ نعیم الحق کو بھیج رہا ہوں، اس کے پاس دستاویزات ہیں اس کا جواب تم نے دینا ہے۔پی ٹی آئی رہنما فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہمارے پاس بظاہر عہدہ تھا لیکن پارٹی کے اندر شہباز گل، فواد چوہدری، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، عالیہ حمزہ، شیریں مزاری مقبول، مطلوب اور مقصود تھے کیونکہ وہ خان صاحب کو خوش کرنے کے لیے فوج کے حوالے سے ہر الٹی سیدھی، ترجمانوں کی زوم میٹنگ ہر دوسرے دن ہوتی تھی، جس میں بیٹھتا تھا لیکن ملنے اور اندر جانے کی کوئی اجازت نہیں تھی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد مئی میں کسی کی بڑی سفارش کے ساتھ بڑی مشکل کے ساتھ میڈیا ایڈوائزر کا عہدہ لیا لیکن اس کے پانچ دن بعد زمان پارک اور بنی گالہ میں میرا داخلہ ممنوع کردیا۔ زمان پارک اور بنی گالہ میں داخلے پر پابندی اس لیے لگی کیونکہ پچھلے مئی کے آخر میں عمران خان کو میں نے تقریبا سات منٹ کا پیغام بھیجا تھا۔ ایک مہینے بعد ایک اور پیغام دیا کیونکہ پہلے پیغام کے بعد وہ ملاقات کا موقع نہیں دیتے تھے۔میں نے عمران خان کو بڑے درد دل سے ایک بات سمجھائی کہ ہم قائد اعظم کے پیروکار ہیں، تشدد کی پالیسی چھوڑ دیں، ریاست اور اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی چھوڑ دیں اور اپنی جدوجہد سیاسی رکھیں اور پی ڈی ایم اور موجودہ حکومت کے خلاف جدوجہد کریں، ان کو بے نقاب کریں اور ہدف تنقید بنائیں۔ پی ٹی آئی رہنما میاں جلیل شرقپوری نے بھی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کو نومئی کو ہونے والے تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔اپنے ویڈیو پیغام میں میاں جلیل شرقپوری نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ بالکل بھی کام نہیں کر سکتا۔ جلیل شرقپوری نے اپنے دوستوں کو عمران خان ، ان کے نظریے اور ان کے بیانیے کی حمایت نہ کرنے بھی کا مشورہ بھی دیا۔ خانیوال سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی عبدالرزاق خان نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے عبدالرزاق خان نے کہا کہ میں پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی اور عمران خان کو واپس کرتا ہوں، میں پارٹی سے استعفی دیتا ہوں اور میں فوج کے ساتھ کھڑا ہوں۔دو روز قبل پی ٹی آئی کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا تھا جب اس کے رکن قومی اسمبلی اور کراچی چیپٹر کے صدر آفتاب صدیقی نے پارٹی سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پھوٹنے والے فسادات کی مذمت کرتے ہوئے اختلاف رائے پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔آفتاب صدیقی کے اعلان کے ساتھ استعفے دینے کے حالیہ سلسلے میں پی ٹی آئی ایک ہفتے کے اندر اندر کراچی سے اپنے چار اراکین اسمبلی سے محروم ہوگئی تھی، اس سے قبل ایم این اے محمود بی مولوی اور ایم پی اے ڈاکٹر سنجے گنگوانی اور ڈاکٹر عمران علی شاہ نے بھی اسی بنیاد پر ایسے ہی اعلانات کیے تھے۔ان کے علاوہ خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے دو رہنمائوں ، اجمل وزیر اور سید ذوالفقار علی شاہ ، نے بھی یہی دعوی کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی کہ نومئی کے واقعات کے بعد ان کے لیے پارٹی میں رہنا ممکن نہیں رہا۔ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والے کے پی کے سابق وزیر ہشام انعام اللہ خان اور ضلع صوابی سے سابق ایم این اے انجینئر عثمان خان تراکئی نے بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ تحریک انصاف ویسٹ پنجاب صدر کے رہنما فیض اللہ کموکا نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا، ان سے قبل سابق وفاقی وزیر عامر کیانی بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے پارٹی رہنمائوں کی جانب سے علیحدگی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ لوگ پارٹی چھوڑ نہیں رہے، چھڑوائی جارہی ہے، کن پٹی پر بندوق رکھ کر پارٹی چھڑوا رہے ہیں۔ اس طرح کبھی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں، پارٹی اس طرح ختم ہوتی ہے جیسے پی ڈی ایم ختم ہورہی ہے، جس طرح پی ڈی ایم کا ووٹ بینک ختم ہو رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں صرف کارکنان اور خواتین کے لیے پریشان ہوں، جس طرح کارکنان اور خواتین کے ساتھ سلوک کیا جارہا ہے۔ادھر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کے جتھوں نے وطن پر لشکر کشی کی اور کروائی، وہ ہم سے اپنا موازنہ نہ کریں۔ انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ تم اور تمہاری کابینہ گرفتاری پر روتی، بھاگتی، گیدڑوں کی طرح چھپتی پھرتی ہے، تمہیں چھوڑتی جا رہی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تم توشہ خانہ کے چور، جھوٹے ،فارن ایجنٹ، القادر ٹرسٹ کے ساٹھ ارب کے ڈاکو ہو اور تم اور تمہارے جتھوں نے وطن پر لشکر کشی کی اور کروائی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سابق ادوار میں ہمارے خلاف ہر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا لیکن قائد نواز شریف سمیت ہم ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ناحق سزا پانے والوں اور چوروں میں موازنے کا آئینہ پیش ہے، تم نے ہمارے خلاف ہرجھوٹا مقدمہ بنایا لیکن قائد نواز شریف سمیت ہم ڈٹ کر کھڑے رہے، سرخرو ہوئے کیونکہ عوام اور قیادت کو پتہ تھا کہ ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی اور امانت سمجھ کر عوامی خدمت کی، اسی لئے بہادری سے ڈٹ کر کھڑے رہے۔ تمہاری فسطائیت، بدترین سیاسی انتقام اور ظلم و جبر کے منہ بولتے حقائق ہیں، چار نسلوں کا حساب دیا اور سرخرو ہوئے۔دریں اثناء ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، قانونی حراستوں اور انسداد دہشت گردی کے مبہم قوانین کے تحت لوگوں کو چارج کرنے کے ذریعے کریک ڈائون کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ایک بیان میں انسانی حقوق کے نگراں ادارے نے ان تمام افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں صرف پرامن مظاہرے کی آزادی کے حق کا استعمال کرنے پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ جن لوگوں پر شبہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے دوران کسی جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے، صرف ان پر پاکستان کے عام فوجداری قوانین کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔یہ وہ صورتحال ہے جسے مکافات عمل کہا جا سکتا ہے ‘یہ درست ہے کہ پارٹیاں اس طرح ختم نہیں ہوتیں ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کا ہر حربہ آزمایا لیکن کامیاب نہ ہو سکے ‘ڈکٹیٹر مشرف نے پیپلز پارٹی و نون لیگ کے خاتمے کے لیے تمام اقدامات کیے لیکن منہ کی کھانا پڑی ۔ تحریک انصاف کو اگرچہ پیراشوٹ کی طرح لا کر متعارف کرایا گیا لیکن اس جماعت نے جو حربے اختیار کیے ان سے خود پارٹی کے اندر سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں جن کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اور مفاد پرست سیاستدان خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر کر منزل کی تلاش میں ہیں ۔