سید مجاہد علی
نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے خود اور وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے اپنے اپنے طور پر وضاحت کی ہے کہ بجلی کے بھاری بھر کم بل لوگوں کے لئے بڑا مسئلہ ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ان دونوں کا کہنا ہے کہ صحافیوں سے ہونے والی گفتگو میں وزیر اعظم کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا جس سے غلط تاثر پیدا ہوا۔ وزیر اعظم سے منسوب یہ بیان سامنے آیا تھا کہ لوگوں کو بجلی کے بل تو ادا کرنا پڑیں گے۔ یہ بل کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے جس سے انارکی کی صورت حال پیدا ہو جائے۔ اب اس بیان کی تردید کی جا رہی ہے۔وزیر اعظم یا کوئی بھی شخص کسی انٹرویو یا گفتگو میں کوئی بیان دیتا ہے تو اس پر منفی رد عمل کی صورت میں ساری ذمہ داری صحافی یا انٹرویو لینے والے پر عائد کی جاتی ہے۔ اب انوار الحق کاکڑ اور مرتضی سولنگی بجلی کے بلوں کے حوالے سے وہی ہتھکنڈا اختیار کر رہے ہیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ البتہ اس بیان کی وضاحت اور یہ یقین دہانی کہ اس بیان کو پس منظر سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیا تھا یا یہ کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے، بجائے خود یہ اعتراف ہے کہ عوام میں بجلی کے نرخوں کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کو نان ایشو قرار دینے کے ایک روز بعد ہی اس کی وضاحت کا مقصد بھی یہی ہے کہ حکومت عوام کی ناراضی سے آگاہ ہے لیکن لاچار ہے۔ نگران حکومت نے بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کے بارے میں شروع سے ہی مبہم، غیر واضح اور ناقص حکمت عملی اختیار کی تھی۔پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے حکومت میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور وزیر اعظم ذاتی دلچسپی لے کر فوری طور سے اس مسئلہ میں کوئی ریلیف دینے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ اشارے بھی دیے گئے کہ وزیر اعظم نے اڑتالیس گھنٹے کے اندر تجاویز سامنے لانے اور عوام کے لئے کسی سہولت کا اعلان کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ ایک ہی روز بعد یہ خبر سنی گئی کہ حکومت شاید کوئی ریلیف تو نہ دے سکے لیکن گرمیوں کے مہینوں کے بل چونکہ بہت زیادہ ہیں، اس لئے حکومت انہیں اقساط میں ادا کرنے یا موسم سرما میں بلوں کے ساتھ ان کی ادائیگی ممکن بنائے گی۔ البتہ اس وعدے کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ وزیر خزانہ شمشاد اختر نے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت کے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوئے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں بجلی کے بلوں میں کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا جو سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا، اس کے مطابق انرجی سیکٹر میں لاگت صارف سے وصول کرنا ضروری ہے۔ حکومت اس میں سبسڈی نہیں دے سکتی۔وزیر خزانہ کا بیان ہی دراصل حقیقت حال کی درست تصویر پیش کرتا ہے لیکن عوام کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے پر پہلے وزیر اعظم نے اس مسئلہ کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس سے کوئی بڑا طوفان نہیں آ سکتا لیکن اس پر سامنے آنے والے منفی رد عمل کے بعد ایک بار پھر عوام کو یہ امید دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت کچھ رعایت دینے کے لئے مسلسل بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ حالانکہ حکومت جتنی بھی بھاگ دوڑ کر لے، وہ اس سچ سے کیسے فرار حاصل کرے گی کہ مارکیٹ میں تیل کی مصنوعات اور انرجی کی قیمتوں کو بہر صورت عوام یا صارفین تک منتقل کرنا ضروری ہے۔ اس کی دو واضح اور قابل فہم وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کے پاس مہنگا تیل خرید کر یا مہنگی بجلی پیدا کر کے اسے سستے داموں بیچنے کے لئے وسائل ہی نہیں ہیں۔ قومی خزانے میں جو چند ارب ڈالر دکھائی دیتے ہیں وہ مہربان دوست ممالک کی فراخدلی کا نتیجہ ہے۔ یہ زر مبادلہ پاکستان نے خود اپنی محنت سے نہیں کمایا۔ دوسری وجہ کی تفصیل وزیر خزانہ شمشاد اختر بتا چکی ہیں۔ملک میں اس وقت نگران حکومت موجود ہے جس کا واحد کام انتخابات کی نگرانی کرنا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے مسلسل بے یقینی کی صورت حال ہے۔ ایسے میں نگران وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اگر انتخابات کے علاوہ غیر ضروری موضوعات پر بات کریں گے یا بے بنیاد وعدے کیے جائیں گے تو اس سے صورت حال مزید خراب ہوگی۔ سب سے بہتر حکمت عملی یہی ہوگی کہ حکومت عوام کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرے اور تسلیم کر لے کہ بجلی کے بلوں میں کسی قسم کے ریلیف کا کوئی بند و بست نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کو بیان دینے اور پھر اس کی تردید کرنے کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ ان کی حکومت کا اختیار محدود ہے اور وہ اپنی صلاحیت ان شعبوں پر صرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں جو ان کے براہ راست دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتے۔ اس کے لئے عوام ملک میں منتخب حکومت آنے کا انتظار کر لیں۔نگران حکومت کو یہ اندازہ بھی کرنا چاہیے کہ حال ہی میں اقتدار چھوڑنے والی سیاسی پارٹیاں کسی بھی طرح مشکل مالی فیصلوں کا بوجھ نگران حکومت کی طرف منتقل کر کے خود کو ایک بار پھر عوام کے سامنے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت کو ان سابق وزرا کے بیانات ہی فراہم کرتے ہیں جو چند ہفتے پہلے تک حکومت میں عہدوں پر فائز تھے اور فیصلہ سازی میں شریک تھے۔ اب وہی سابق وزیر حکومت کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں انتخابی مہم جوئی کی وجہ سے بجلی کے نرخوں کو مسئلہ بنا کر پیش کر رہی ہیں اور اس کی سند یہ کہہ کر پیش کردی کہ اگر میں بھی انتخاب میں حصہ لے رہا ہوتا تو یہی رویہ اختیار کرتا۔ یعنی جھوٹے بیانات کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا۔اس کے علاوہ انوار الحق کاکڑ فوج، عدلیہ اور ملکی بیورو کریسی کے متفقہ نمائندہ بن کر یہ دعوی بھی کرچکے ہیں کہ کسی فوجی افسر کو مفت بجلی فراہم نہیں ہوتی بلکہ یہ بل دفاعی بجٹ میں سے ادا ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ واپڈا کے ملازمین کے علاوہ کسی بھی دوسرے شعبہ کے لوگوں کو مفت بجلی کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہ بیان جاری کر کے درحقیقت نگران وزیر اعظم نے ان لوگوں کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی ہے جو اپنے بھاری بھر کم بل ہاتھ میں لئے سخت گرمی میں احتجاج کے لئے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔
ملک میں ایک ایسا نظام نافذ ہے جس میں حکمران طبقہ کو ہمہ قسم سہولتیں سرکاری خزانے سے فراہم کی جاتی ہیں جبکہ عام شہری بجلی سمیت کوئی بھی سہولت حاصل کرنے کے لئے خود اپنی جیب سے ادائیگی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سلسلہ ایوان صدر سے لے کر کسی علاقے کے تھانیدار کے اخراجات و مصارف ادا کرنے تک جاری و ساری ہے۔ موجودہ حکومت تو عارضی طور سے ملک کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے لیکن کوئی باقاعدہ حکومت بھی کبھی اس بدنما اور استحصالی نظام کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔اس وقت اگرچہ بجلی کے بلوں میں اچانک اضافہ کی وجہ سے احتجاج اور بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اصل مسئلہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم ہے جہاں ایک طبقہ تو شاید اپنے بے پناہ وسائل کی وجہ سے سہولتیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ملکی انتظام کرنے والا ایک بہت بڑا طبقہ، مواصلات سے لے کر ضروریات زندگی تک سب سہولتیں سرکاری مصارف سے وصول کرتا ہے۔ ان میں اعلی عہدیداروں کے علاوہ معمولی انتظامی یا عدالتی عہدوں پر فائز لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ سب مناصب زی وقار ہیں۔ لیکن کیا ان عہدوں پر کام کرنے والے لوگوں کو کام کرنے کی تنخواہ نہیں ملتی؟ صدر مملکت یا چیف جسٹس آف پاکستان اگر کثیر تنخواہ وصول کرتے ہیں تو ان کے نجی اخراجات کیوں ریاست ادا کرنے کی پابند ہے؟ یہ اصول سیاسی عہدوں پر فائز لوگوں، ارکان اسمبلی، وزیروں، مشیروں وغیرہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ ہر دور میں سرکاری سہولتیں ختم کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن وہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سب افسروں اور عہدیداروں کو تنخواہ اور الاﺅنس ملتے ہیں تو انہیں سرکاری خرچ پر آمدورفت کی سہولت کیوں حاصل ہوتی ہے؟ اگر صرف مواصلات کی مد میں صرف ہونے والے مصارف ہی کم کر دیے جائیں تو عوام کو یہ اطمینان ہو سکتا ہے کہ حکمران اشرافیہ عوام کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا کوئی حکومت یہ اعلان کرسکے گی کہ اگر ملک کا صدر بھی نجی مقصد سے سفر کرتا ہے تو نہ تو اسے سرکاری پروٹوکول ملے گا، نہ ہی اس کی ٹرانسپورٹ کا خرچہ سرکار ادا کرے گی اور نہ ہی اس کے قافلے میں سےکیورٹی کے نام پر درجنوں گاڑیاں متعین ہوں گی۔یہ صرف ایک مد میں دکھائی دینے والے مصارف ہیں جن کا مشاہدہ ہر سطح پر روزانہ کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ جس ملک کے پاس زرمبادلہ نہ ہو اور وہ ادھار پیٹرول خریدنے پر مجبور ہو، اس کے اہلکار و عہدیدار روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گیلن پیٹرول بے مقصد صرف کر رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جاننا چاہیے کہ جب بھی انہیں ووٹ دینے کا موقع ملے تو وہ شخصیت پرستی، برادری، علاقہ یا ذاتی پسند ناپسند کی بجائے، اس وعدے پر ووٹ دیں کہ ان کے نمائندے منتخب ہو کر کم از کم ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں فراہم کی جانے والی سہولتوں کو ختم کریں گے۔اس ایک اقدام سے ملک میں طبقاتی تقسیم کی بھیانک تصویر کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پھر نگران یا منتخب وزیر اعظم کو عوام کو طفل تسلیاں دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سرکاری عہدیدار اپنا بوجھ خود اٹھائیں تو عام آدمی اپنا وزن اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔