عوام کی کسی کو فکر نہیں

نگراں حکومت نے اےک بار پھر پیٹرول بم گراتے ہوئے فی لیٹر قیمت میں 26 روپے سے زائد اضافہ کردیا۔نوٹی فکیشن کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے دو پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.34 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، ہم ان مسائل سے گھبرا نہیں رہے، مہنگائی 38 فیصد سے کم ہو کر 27 فیصد پر آگئی ہے۔ حکومتی اقدامات سے مختلف شعبوں میں بہتری آئی ہے، حکومتی اقدامات سے فصلوں کی بہتر پیداوار حاصل ہو گی، فصلوں کی بہتر پیداوار حاصل ہونے سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ روپیہ کافی حد تک مستحکم ہو گیا ہے، یہ بڑی پازیٹو چیز ہے، مائیکرو اکنامکس انڈی کیٹرز معاشی بحالی کو ظاہر کر رہے ہیں، اقتصادی مشکلات ختم ہو رہی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر ہو رہے ہیں۔ ٹیکس نیٹ کو نہیں بڑھایا گیا، جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ جو ٹارگٹ طے پایا ہے اسے پورا کریں گے، ٹیکس ریونیو کے ٹارگٹ کو پاکستان کی خاطر پورا کرنا ہے، ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر اور آسان بنانے پر کام جاری ہے، مقامی انڈسٹری کو چلانے کے لیے درآمدات بھی بہت اہم ہیں۔سمگلنگ کی روک تھام سے روپے کی قدر میں بہتری آئی، کوئی بھی ملک برداشت نہیں کر سکتا کہ ان کی کرنسی کے ساتھ کھیلا جائے، ایکسچینج کمپنیوں کے نظام کو ریگولیٹ کیا جا رہا ہے، کرنسی کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہم سرمایہ کاروں کو ون ونڈو سہولت دیں گے، ایس آئی ایف سی میں بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ صارفین کی مشکلات کم کرنے کے لیے گیس کی کم سے کم لوڈشیڈنگ پر بھی کام ہو رہا ہے، بجلی کی چوری کئی برسوں سے ہو رہی تھی، چوری کے خلاف مہم کو دس روز ہو گئے، اچھے نتائج آ رہے ہیں، بجلی چوری کے خلاف مہم جاری رہےگی، آنے والے دنوں میں بجلی چوری روکنے کے لیے مزید تیزی سے کام ہو گا۔بجلی کا ریٹ بڑھنے سے صارفین پر بوجھ پڑتا ہے، ہماری کوشش ہے کہ گھریلو صارفین پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ گزشتہ 15 برسوں سے سرکلر ڈیٹ بہت بڑا مسئلہ ہے، آج کی تاریخ میں 2500 ارب کا نقصان ہوا ہے، گیس کا سرکلرڈیٹ 2900 ارب تک پہنچ گیا ہے، گزشتہ 15 برسوں سے ان مسائل کو حل نہیں کیا گیا۔ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے پاور، گیس سیکٹر میں سود دے رہے ہیں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر کرنے پر بھی کام جاری ہے، بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں، توانائی شعبے کو مجموعی طور پر 5400 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے، امید ہے آنے والے دنوں میں چیزیں بہتر ہوں گی۔ ماضی میں تیل اور گیس کی تلاش پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، ملک میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے ہمیں پالیسی مرتب کرنا ہو گی، ملک سے تیل اورگیس کی تلاش کرنے کےلیے کوششیں تیزکررہے ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں کا تعین عالمی مارکیٹ کے مطابق کیا جاتا ہے، ماضی میں تیل اور گیس کی تلاش نہ کرنے کا بہت بڑا بلنڈر ہوا ہے، 70 فیصد پٹرول امپورٹ کرتے ہیں۔ بھارت میں پٹرول کی قیمت 381، بنگلا دیش میں 345 روپے فی لٹر ہے، پاکستان میں آج بھی ہمسایہ ملکوں کی نسبت پٹرول کی قیمت کم ہے،اوگرا کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے رات کو فیصلہ کر دیا جائے گا۔ معاشی حوالے سے پاکستان کے حالات اِس وقت انتہائی سنگین صورت حال اختیار کرتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو عام اشیائے ضروریہ کی فراہمی مشکل ہوتی جا رہی ہے کیونکہ لوگوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا پہیہ چلا سکیں۔پی ڈی ایم کی حکومت کو عمران خان کی حکومت کے جانے کے بعد اِس لئے خوش آمدید کہا گیا تھا کہ لوگ مہنگائی سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی ایسی حکومت وجود میں آئے جو انہیں معاشی حوالے سے سکھ کا سانس میسر کر سکے لیکن پی ڈی ایم کے آنے کے بعد حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس وقت غریب آدمی کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔گزشتہ ایک سال کے دوران آٹھ لاکھ نوجوان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔عوام مہنگائی کی وجہ سے پسے ہوئے ہیں۔ حکومت صرف وقت گزارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ کسی طرح سے مشکل وقت گزار لیا جائے ۔خوراک کے بنیادی جزو کے لئے لوگ قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ عوام کو اِس سے کوئی غرض نہیں پڑا کہ عمران خان اقتدارمیں ہوں یا شہباز شریف،انہیں دو وقت کی روٹی ارزاں نرخوں پر چاہئے، چاہے اِس کے لئے شہباز شریف اپنے کپڑے بیچیں چاہے عمران خان اس کے لئے کوئی تحریک چلائیں۔ عوام کو اپنی زندگی کا پہیہ چلانے سے مطلب ہے جو اِس وقت حکومت کی وجہ سے چلنے سے قاصر ہے۔حکومتوں کو عوام کو راضی کرنا ہو گا، عوام کی امنگوں پر پورا اترنا ہو گا،انہیں روزی روٹی مہیا کرنا ہو گی، مہنگائی کے جن کو قابو کرنا ہو گا، پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہو گا اور ملک میں معاشی حالت کو درست حالت میں لانا ہو گا۔ پاکستان اور اس کے عوام کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں اپوزیشن کے دنوں میں اقتدار کے لئے سیاست دان بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور شاعری کی زبان میں بات کریں تو چاند تارے توڑ کر لانے کا بھی دعوی کر دیتے ہیں مگر جونہی انہیں اقتدار ملتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ خزانہ خالی ہے، گزشتہ حکومت ان کی راہ میں کانٹے بچھا کر گئی ہے، آئی ایم ایف سے معاہدے ٹھیک نہیں کئے گئے،پھر اِس طرح نئے وعدوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اوراِس طرح ایک دائرے کا سفر ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر شے مفت میں استعمال کرنے والوں کو عوام کی کوئی فکر نہےں ہے۔ ہر حکومت چاہتی ہے کہ اس کے دور میں عوام مطمئن ہوں۔مہنگائی، غربت اور بےروزگاری نہ ہو۔لیکن عملی طور پرایسا ہوتا نظر نہیں آرہا بلکہ حکومت کے اقدام کا نتیجہ الٹ نکلتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ یا وجوہات جاننا اور پھر ان کا حل تلاش کرنا حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے ۔جب تک بیماری کی تشخیص نہ ہوجائے تو علاج اور صحت یابی کی توقع بے وقوفی کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔حکام کے پاس نہ تو ٹھوس ، جامع اور موثر حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی درست اور خیر خواہی کے مشورے ہیں۔ اور یہی وجوہات ہیں کہ نہ مہنگائی قابو میں آتی ہے نہ ہی گورننس کی کوئی کل سیدھی ہوتی ہے، بلکہ حالات روزبروز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور اب تو اس نہج پر پہنچ رہے ہیں کہ ٹھیک ہونے کے امکانات ہی معدوم ہوگئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشتی کو موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گےا ہے۔ حالات بہرحال اچھے نہیں ہیں۔ آنیوالے وقت میں حکومت اور عوام دونوں کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے خصوصا نومبر کے مہینے میں واضح اثرات نظر آنا شروع ہوسکتے ہیں بلکہ شروعات تو ہوچکی ہیں۔جہاں غلط مشورے ہوں گے وہاں نتائج بھی غلط ہی نکلیں گے۔ عوام کو سبز باغ دکھانے سے معاملات نہیں چلتے۔غلط اعدادوشمار بتانے سے عوام کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے فوائد کبھی سامنے نہیں آسکتے۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سابقہ حکومتیں جب آئی ایم ایف کے پاس جاتی تھیں تو کہا جاتا تھا کہ یہ کشکول لئے پھرتے ہیں اور اپوزیشن کہتی تھی کہ اگر ہم برسر اقتدار آئے توہم کشکول توڑدیں گے لیکن وہی کام برسر اقتدار آنے کے بعد زیادہ اہتمام سے کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی طرف سے قرض مل بھی جائے تواس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ نگران حکومت کے لئے تو یہ باعث مسرت ہوسکتا ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط میں مزید سختی کیوجہ سے عوام مزید مہنگائی کے لئے تیار رہیں۔گزشتہ چند برسوں میں ہم نے ملک میں شدید گرم موسم سے لے کر کچھ علاقوں میں تیز بارشوں اور دیگر علاقوں میں خشک سالی تک دیکھی ہے۔ پاکستان میں درجہ حرارت میں جس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ شدید درجہ حرارت میں ہونے والے مزید اضافے نے مون سون بارشوں کے وقت اور شدت کو تبدیل کردیا ہے ۔ملک کے دیگر علاقوں کے علاوہ شمالی علاقوں کے درجہ حرارت میں جس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ زیادہ خدشات کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے قدرتی ماحول متاثر ہورہا ہے۔ یہ دریاﺅں میں سیلاب کا باعث بھی بن رہا ہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔اگرچہ فضائی آلودگی اور گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا شمار بہت سے ممالک کے بعد کیا جاتا ہے لیکن جب معاملہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا آتا ہے تو ہم وہاں بھی بہت پیچھے ہی نظر آتے ہیں۔ توانائی کے لیے فوسل فیول پر تقریبا مکمل انحصار نے آلودگی کی سطح کو کم کرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان نے 2030 تک آلودگی کے اخراج کو نصف کرنے کا عہد کیا ہے تاہم ہم نے ابھی نیٹ زیرو ہدف کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس وقت فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے جس میں قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر تیزی سے منتقل ہونا بھی شامل ہے۔ ہم شمسی توانائی اور توانائی کے دیگر ذرائع استعمال کرنے میں بہت پیچھے ہیں۔ےہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ حکام عوام کا خےال رکھےں تاکہ ان کے لےے جےنا مزےد مشکل نہ ہو جائے۔