رپورٹ پیش نہ کریں،نشان عبرت بنائیں

 مہنگائی، ظلم، ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے سڑکیں اور راستے بند کر کے پریشان عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کی بجائے پاکستان کو اب اجتماعی دعاﺅں کی ضرورت ہے۔ نگرانوں سے نہ کوئی شکوہ ہے نہ شکایت لیکن جب تک الیکشن نہیں ہوتے دکھیاری عوام کے الجھے مسائل سلجھانے کے لیے فیصلہ سازی کا اختیار تو ان کے پاس ہے اور یہ نگران حکومت ماضی کی نگران حکومتوں کی طرح بے اختیار بھی نہیں ہے چناںچہ سوال تو ان سے بنتا ہے کہ 76 سال بعد آج بھی غریب عوام دو وقت کی روٹی اور تن ڈھاپنے کے لیے دوکپڑوں کے سوالی ہیں مکان تو بڑی دور کی بات ہے۔ روٹی، کپڑا، اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان کا نعرہ لگانے والوں کی اولادوں کے اپنے کئی محل بن گئے لیکن غریب کو دو وقت کی روٹی کے لئے آئی ایم ایف نے قرض کی زنجیر میں جکڑ رکھا ہے غربت کی چکی میں پسے عوام کبھی آسمان تو کبھی زمین کی طرف دیکھتے ہیں لیکن اس روئے زمین پر انہیں کوئی نجات دہندہ نظر نہیں آتا 16 ماہ تیرہ جماعتوں کی مخلوط حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے نگرانوں کو ملک کی باگ ڈور دے کر سبکدوش ہوگئی سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے الوداعی بیان میں کہا تھا کہ آئینی راستے سے آئے تھے اور آئینی راستے سے جارہے ہیں اور اگر عوام نے دوبارہ موقع دیا تو ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے شہباز شریف کی دوڑ بھاگ کے نتیجے میں انکی حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے میں تو کامیاب ہوگئی اور ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا لیکن اس سارے عمل میں آئی ایم ایف نے جس طرح لکیریں نکلوائیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں چنانچہ حکومت اور پالیسی سازوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہیئں جس سے مستقبل میں آئی ایم ایف سے جان چھوٹ سکے اور ملک خود انحصاری کی طرف گامزن ہوسکے۔ آفتوں اور مصیبتوں کے اس دور میں سابق حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ تو کیا لیکن مہنگائی میں کوئی کمی نہ لا سکی بلکہ جاتے جاتے پٹرول کی قیمت میں اضافہ اور شوگر مافیا کو ایکسپورٹ کی اجازت دے گئی جو ملک میں چینی مہنگی ہونے کا سبب بنا، رہی سہی کسر موجودہ نگران حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر پوری کردی اور حالیہ پٹرول کی فی لیٹرقیمت میں 26 روپے اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 17 روپے اضافہ کر کے نگرانوں نے عوام کا کچومر نکال دیا۔ ایک عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہر پندرہ روز کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے اشیا خورونوش کی قیمتوں میں ٹھہراﺅ کیسے آئے گا اور معیشت کیسے مستحکم ہو گی چنانچہ معاشی استحکام کے بغیر ملک میں بدحالی کے سوا کیا آسکتا ہے اور جہاں فیصلہ سازوں کے فیصلوں میں ہی استحکام نہ ہو وہاں میعشت کیا خاک ٹھیک ہو گی ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے سابق وفاقی وزیر پٹرولیم مصدق ملک پریس کانفرنس اور ٹاک شوز میں عوام کو خوشخبری سناتے رہے کہ ہم روس سے سستا تیل لے آئے ہیں اور یہ ہماری حکومت کی بڑی کامیابی ہے ، مہینوں گزر گئے انکی حکومت بھی ختم ہو گئی لیکن عوم کو سستا پٹرول اور ڈیزل نہ مل سکا بلکہ جاتے ہوئے عوم کا تیل نکال کر چلے گئے اب خبر یہ ہے کہ روس سے آنے والا کروڈ آئل جو کہ ڈیزل اور پٹرول کی ایک خام شکل ہے، ریفائن ہونے کے بعد مہنگا کاسٹ کررہا ہے چنانچہ مصدق ملک کے دعوﺅں اور وعدوں پر مبنی عوام کے لیے امید بھری خوشخبری کی یہ کہانی بھی ختم شد ہی سمجھیے۔ اس ملک میں ایک آفت دوسری کے انتظار میں رہتی ہے اور اب تو تمام مصیبتیں اور آفتیں ایک ساتھ نازل ہو گئی ہیں کہیں بجلی کے بل جلائے جارہے ہیں اور کہیں ڈیزل ،پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے پر لوگ ماتم کناں ہیں اس مہنگائی کے ذمہ داروں میں سر فہرست وہ ریمورٹ کنٹرول سفارشی حکمران ہیں جنکی پہلے برینڈنگ کی گئی اور پھر بڑی دھوم دھام سے بازار سیاست میں لایا گیا انکی طرز سیاست نے ہماری معیشت، سیاست، معاشرت تباہ کرنے کے ساتھ ملکی عزت وقار کی علامت ریاستی اداروں کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دگرگوں ملکی سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر ان سے جان چھڑانے کے لیے کسی کو اپنا منصب چھوڑنا پڑا تو کسی کو ریاست پر اپنی سیاست قربان کرنا پڑی، اپنا پرایا کوئی بھی انکی سیاسی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ پنجاب کا ایک مثالی سیاسی خاندان چوہدری برادران بھی اس سیاسی طوفان کی نذر ہو گیا اور کئی دہائیوں پر محیط انکی سیاست کا شیرازہ بکھر گیا۔ شیخ رشید کی سیاسی جائے پیدائش لال حویلی کو تالے لگ گئے ،9 مئی کے دلخراش واقعات کے نتیجے میں گرفتار سینکڑوں نوجوانوں کا مستقبل بھی اس انتشاری سیاست اور فساد کی بھینٹ چڑھا، اقتدار کا نشہ بھی کیا عجیب نشہ ہے جس کو چڑھ جائے اترتا ہی نہیں تبدیلی سرکار کے روح رواں سابق وزیراعظم کو اس نشے نے اسلام آباد کی بجائے اٹک پہنچا دیا اور آج کل اٹک جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ ملک میں الیکشن کا بگل بجتے ہی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بیان بازی کا عمل شروع ہو چکا ہے کل جو ہم قدم تھے آج مدمقابل ہیں یہی سیاست اور اسکا سبق ہے۔ ملک میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، اور ڈالر مافیا کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں حکومت کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سرکاری اہلکاروں کے علاوہ کچھ سیاسی عناصر بھی اس دھندے میں ملوث ہیں مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل یہی وہ سیاسی بیوپاری ہیں جو تین،تین کروڑ کے پارٹی ٹکٹ لے کر کروڑوں روپے الیکشن مہم پر عوامی خدمت کے لیے نہیں لگاتے بلکہ یہ سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ڈالر کو تگڑا اور ملکی کرنسی کو ٹکہ ٹوکری کرنے کا مکروہ دھندہ کرنے کے لیے لگاتے ہیں اس طرح یہ قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے کے علاوہ کروڑوں روپے مراعات کی شکل میں الگ وصول کرتے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈنڈے کا بھرپور استعمال کریں تو انکے گھروں سے ڈالر، سونا، اور نہ جانے کیا کیا برآمد ہوگا۔ اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کی لسٹیں نہ بنائی جائیں بلکہ انھیں نشان عبرت بنایا جائے انکے چہرے بے نقاب کئے جائیں کیونکہ یہی وہ ناسور ہیں جنھوں نے ملکی معیشت کو تباہی وبربادی سے دوچار کیا ہے۔ جب تک ایک عام آدمی تک ان مافیاز کے خلاف کریک ڈاﺅن کے ثمرات نہیں پہنچتے، آٹا، گھی، تیل، دال، چاول، پٹرول، بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں سب بے سود ہے۔ الیکشن میں تاخیر ہوتی ہے تو ہو جائے لیکن پہلے کرپشن زدہ چہرے بے نقاب ہوں پھر انتخاب ہوں۔ اس بار ان لٹیروں سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچایا جائے اور ان سے مال مسروقہ برآمد کرکے عوام کو ریلیف دیا جائے۔ ڈالر معمولی مہنگا ہونے پر مہنگائی آسمان پر پہنچ جاتی ہے لیکن ڈالر سستا ہونے پر مہنگائی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے حالیہ دنوں میں ڈنڈا چلنے کی وجہ سے ڈالر 340 سے 300 سے بھی نیچے آچکا ہے لیکن اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آئی پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے عوام کی سدھ بدھ ختم ہو چکی ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ بچوں کی فیسیں کیسے ادا کریں، سکول ، کالج، یونیورسٹی تک آنے جانے کے لیے اخراجات کہاں سے کریں بجلی کے ہزاروں روپے کے بل کیسے ادا کریں‘ کیا کھائیں‘ بچوں کو دو وقت کی روٹی کہاں سے کھلائیں، جینا تو مشکل تھا ہی لیکن اب مرنا بھی مشکل ہو گیا حکومت اگر سفید پوش فاقہ کشوں کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتی تو کم ازکم انکے لئے کفن دفن ہی فری کر دے تاکہ بعد از مرگ انکی سفید پوشی کا بھرم تو رہ جائے اور ان کے پیاروں کو کسی کے آ گے ہاتھ نہ پھےلانا پڑےں، مخدوش معاشی حالات کے جبر سے تنگ عوام کی سانسیں رک رہی ہیں اور جسم وروح کا رشتہ منقطع ہو رہا ہے، عوام کو بدحال اور ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے والے ذمہ داروں کے خلاف سخت کریک ڈاﺅن کیا جائے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر ایسا ڈنڈا چلائیں کہ انکی چیخ وپکار فرش سے عرش تک سنائی دے۔ سرکاری اداروں کے کرپٹ، بددیانت فرعون صفت افسر شاہی کے خلاف بھی شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے جو اپنے عہدے اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری خزانے اور وسائل کو اپنے نانا جی کی دکان سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ پر خرچ کر رہے ہیں وگرنہ ان ایکشن اور کریک ڈاﺅن سے اخبارات کی تین کالمی خبر، اور ٹی وی چینلز کے لیے بریکنگ نیوز تو بن سکتی ہے، ملکی بیمار معیشت اور ایک عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آسکتی۔