پانی ‘روٹی زیادہ اہم ہے

محمد قاسم نسیم

گلگت بلتستان کے چیف سےکرٹری محی الدین احمد وانی کا گلگت بلتستان سے تبادلہ ہوگیا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اُنھیں وفاقی سطح پراسلام آباد میں اہم ذمہ داریاں تفویض کی جارہی ہیں ۔ گلگت بلتستان میں اُن کا دور اب تک آنے والے چیف سےکرٹریز سے بالکل مختلف اور منفرد رہا ۔وہ یہاں شروع کئے جانے والے اپنے کاموں کے باعث شروع دن سے موضوع بحث بنے رہے۔ اُنھوں نے گلگت بلتستان میں کام کرنے کے لئے تین شعبوں کا انتخاب کیا ۔ جن میں تعلیم ،صحت اور خواتین کی ترقی کا شعبہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔تعلیمی شعبہ اُن کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اُنھوں نے بہت سارے تعلیمی اداروںکا انتخاب کیا جہاں اُنھوں نے وہ تمام سہولتیں فراہم کیں جو اِن اداروں کے لئے ناگزیر تھیں۔پہلی بار تعلیمی اداروں میں کمپیوٹر اور آئی ٹی کی جدید سہولتیں فراہم کیں ۔ سمارٹ بورڈ اورایک سو اسی سکولوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کا بیک اپ نظام دیا۔سکولوں میں پہلی بار ربوٹیک لیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔دیامر کے سیلاب سے متاثرہ سکولوں کی بحائی کا کام یونیسکو کے تعاون سے کرایا گیا۔ گلگت اورسکردومیں بہت بڑے پیمانے پر طلبا و طالبات کی کیرئےر کونسلنگ کے لئے کےرئیر فیسٹ کا انعقاد کیاگیا۔گلگت اور سکردو میں نیشنل کالج آف دی آرٹس کے کیمپس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس جیسے دوسرے اقدامات بھی اُٹھائے گئے۔ چیف سےکرٹری نے اپنے تبادلے کے بعد سکردو کاالوداعی دورہ کیا ۔اس دورے میں گلگت بلتستان میں متعین ہونے والے نئے چیف سےکرٹری ابراراحمد مرزا بھی اُن کے ہمراہ تھے ۔ تقریب میں فقط دو محکموں کے اہلکاروں، محکمہ تعلیم سے اساتذہ اور حکام اور محکمہ صحت سے ڈاکٹرز اور حکام کو مدعو کیا گیا تھا ۔ پرانے چیف سےکرٹری کو الوداع کہنے اور نئے چیف سےکرٹری کو خوش آمدید کہتے ہوئے اِن سے متعارف ہونے والی اس تقریب میں ضروری تو تھا کہ تمام محکموں سے سربراہان اور اس خطے سے منتخب قیادت کو مدعو کیا جاتا لیکن صرف اور صرف محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کا انتخاب اس لئے کیا گیا کیونکہ تقریب میں سابق چیف سےکرٹری کی تعریف کرانا مقصود تھا جو کہ فقط انہی دو محکموں کے حکام کی جانب سے ممکن تھا ۔دوسرے محکموں کے حکام ہوتے تو وہ یہاں مسئلے مسائل حل نہ ہونے کا تذکرہ بھی کرسکتے تھے۔اس تقریب میں خاص بات یہ تھی کہ محکمہ تعلیم اور صحت کے حکام کو ہی تقریر کا موقع دینا اور نظامت کے فرائض کی ذمہ داری اِنھی کے اہلکاروں کو تفویض کرنا طے تھا ۔ تقریر کے ذریعے خراج تحسین پیش کرنے کی سعادت ڈائریکٹر صحت بلتستان ریجن کوعطا ہوئی تھی تو بطور سٹیج سےکرٹری موصوف کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے قصائد پڑھنا محکمہ ایجوکشن کے اہلکار کے حصے میںآئی تھی۔سٹیج سےکرٹری صاحب تو پیشہ وارانہ خوشامدیوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر خوش آمدی ایسے ایسے جملے دھراتے ہوئے چیف سےکرٹری کو بار بار ” مُحسن گلگت بلتستان “ کے ٹائیٹل سے خطاب کرتے رہے۔تعریفی جملوں کی بارش اس تیزی اور تواتر سے برستی رہی کہ تقریب میں موجود خود محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے حکام کے چہروںپربھی ناگواری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ تقریب کے بعد جب سب باہر نکلے تو بہت ہی متحرک صحافی اسحاق جلال نے سٹیج سےکرٹری سے کہا کہ” خوش آمدی کلمات کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن آپ نے تو انتہا کردی جو کہ کسی صورت مناسب نہیں تھا۔“ سٹیج سےکرٹری کا جواب تھا کہ” میں تو فقط اپنی نوکری پکی کر رہا تھا“ اس تقریب کا ذکر یہیں پہ چھوڑتے ہیں ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ سابق چیف سےکرٹری کے دور میں گلگت بلتستان کے دیگر شعبوں کی حالت کیا رہی۔ تعلیم اور صحت میں جتنے کام ہوئے وہ یقینا قابل ستائش ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی این جی ، فلاحی ادارے یا مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن ہوئے ۔ جس کے لئے سب سے بڑ ا چےلنج یہ تھا ان کے تبادلے کے بعد ان کا جاری رہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا ۔ یوں یہ تعلیمی ادارے ربوٹیک اور کمپوٹرائیزڈ لیب سے نکل کر پھر سے پرانے ڈگر پہ واپس آجائےں تو سب سے زیادہ متاثر ان سکولوں کے طلبا نے ہونا ہے۔ایک بار چیف سےکرٹری کی جانب سے سکردو کے عمائدین کو اپنے ان منصوبوں کی بریفنگ کے موقع پر راقم نے چیف سےکرٹری سے یہی سوال کیا کہ آپ کے تبادلے کے بعد ان منصوبوںکا کیا بنے گا؟ ان کو دیرپا بنانے کے لئے آپ کیا حکمت عملی اختیار کریں گے؟ جس پر چیف سےکرٹری کا جواب تھا کہ جہاں بھی میں یہ بریفنگ دیتا ہوںیہ سوال مجھ سے لازماً پوچھا جاتا ہے۔ میرے تبادلے تک میں اس ضمن میں کوئی اقدام کرلوں گا کہ یہ منصوبے بلاتعطل جاری رہ سکیں۔چیف سےکرٹری صاحب کے یہاں تعیناتی کے عرصے میں اُن کی توجہ چونکہ زیادہ تر تعلیم اور صحت کے بعض مخصوص منصوبوں پر مرکوز رہی جس کے باعث دوسرے محکموں کے مسائل بڑھتے گئے کیونکہ اس عرصے مےں اختیارات کا اصل مرکز و محور ان کی ذات تھی منتخب عوامی نمائندے حتیٰ کہ صوبائی وزرا بھی عضو معطل بن کر رہ گئے تھے ۔ جس پر احتجاج کی صدائے باز گشت اسمبلی میں بھی شدت سے سنی گئی۔ جب صوبائی وزیر داخلہ نے علی الاعلان یہ کہا تھا ہم تو بے اختیار ہیں ہمارا کردارمنشی سے زیادہ نہیں۔اس صورت حال میں اداروں کی کارکردگی بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ۔ افسران کے تبادلوں سمیت دیگر معاملات کو لے کر چیف سےکرٹری اور عوامی منتخب قیادت کے مابین فاصلے بھی بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ مقامی افسران کوبھی شکایتیں پیدا ہوئیں اور وقتا فوقتا ان کی صدائے احتجاج منظر عام پر آتی رہی۔چیف سےکرٹری کی عام مسائل سے عدم دلچسپی اور دوری کا یہ عالم تھاکہ ایک بار سکردو کمشنر کے دفتر میں اپنے دور میں محکمہ تعلیم میں شروع کی گئی اصلاحات سے متعلق عمائدین سکردو کو بریفنگ دی جارہی تھی ۔ اس دوران شہر کے ایک سر کردہ عبداللہ حیدری نے کہ ”گلگت بلتستان کے گنتی کے چند سکولوں میں یہ اصلاحات اورمنصوبے اپنی جگہ لیکن اس وقت عوام کا مسئلہ آٹا، بجلی اور پینے کا صاف پانی ہے جو تینوں ہمیں میسر نہیں۔ گھروں میں بجلی ہی نہیں تو بچے کس طرح پڑھیں گے۔ جس پر چیف سےکرٹری نے کوئی تسلی بخش جواب دینا بھی مناسب نہیںسمجھا۔کچھ عرصے بعد جب کمشنر آفس میں میڈیا پرسنز کو برےفنگ کے دوران جب یہی سوال پھر سے اُٹھایا گیا تو انھوں نے بریفنگ کو جلدی ختم کردیا ۔ گلگت بلتستان بلکہ بلتستان کے پچھلے دو سالوں کے حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ چیف سےکرٹری کے ان اقدامات سے شہری علاقوں کے سرکاری سکولوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ اور نتائج کے تناسب میں بہتری آئی ہے لیکن دوسرے شعبے مسلسل نظر انداز رہے تو اُن شعبوں کے مسائل کی شدّت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم گلگت بلتستان کے دوسرے بڑے شہرسکردو میں صورت حال کا جائزہ لیں تو صورت حال تشویش ناک ہے۔ بلتستان جو قطبین کے بعد سب سے بڑے گلیشےئروں اور پھر ملک کے سب سے بڑے دریا ،دریائے سندھ سمیت دیگر دریاﺅں، ندی نالوں اور میٹھے پانی کے چشموں کی سر زمین ہے لیکن حکام کی عدم توجہی کے باعث سال 2023 ءکی گرمیوں میں لوگ پینے کے لئے پانی کے گھونٹ گھونٹ کو ترس گئے۔ سکردو کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کو پینے کے پانی کے حصول میں کوئی مسئلہ آیا ہو لیکن اس سال کئی مقامات پر پینے کے پانی کے حصول کے لئے لوگوں کے مابین لڑائی جھگڑے بھی دیکھنے میں آئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہوائی اڈے کے افتتاح کے بعد باقاعدہ سیاحت کا حب قرار پانے والے سکردو شہر میں بجلی اب صرف سپیشل لائنوں والوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔عام صارفین کو دن میں بمشکل ایک گھنٹہ اور رات میں آدھ گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک بجلی دی جارہی ہے ۔ اسی طرح انسان کی بنیادی ضرورت آٹے کی صورت حال دیکھےں تو وہ بھی تشویشناک ہے۔ لوگوں کو فی نفر ایک مہینے میں تین سے چار کلو آٹا راشن کارڈ پہ دیا جارہا ہے وہ بھی سیل ڈپو پر کئی روز چکر لگانے کے بعد۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے ازلی دشمن بھارت منفی پروپیگنڈا کرنے کے لئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ایسے میں یہاں کے لوگوں کو بوند بوند پانی ،دو وقت کی روٹی اور روشنی کی غرض سے بجلی کے لئے ترسایا جانا یہاں کے باسیوں کے لئے کرب و اضطراب کا باعث ہے ہی لیکن یہ عمل ملک کی عزت و وقار کے شایان شان بھی نہیںکیونکہ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے سکولوں میں کمپیوٹر کی نسبت لوگوں کو پینے کا پانی ، گھروں کو روشن کرنے کے لئے بجلی اور دو وقت کی روٹی زیادہ اہم ہے۔جس تقریب کا اوپر ذکر ہوا اُسی تقریب کے بعد جب میڈیا کے نمائندوں نے گلگت بلتستان میں نئے تعینات ہونے والے چیف سےکرٹری ابرار احمد مرزا سے سوال کیا کہ کیا آپ پرانے چیف سےکرٹری کے شروع کردہ کیرئیر فیسٹ جیسے پروگراموں کو جاری رکھیں گے۔ چیف سےکرٹری نے بہت ہی مختصر مگر مدلل جواب اِن الفاظ میں دیا کہ” میں پروگراموں کو ضرور جاری رکھوں گا مگر میرا طریقہ کار ذرا مختلف ہوگا۔“ اسی جملے میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو مسائل کی دلدل سے نکلنے کی اُمید کی کرن نظر آتی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔