ایجوکیشن فیلوز کی تعیناتی

صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے تیار کی جانے والی سفارشات پر گلگت بلتستان کے سکولز و کالجز میں طلبا کےلئے عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق اساتذہ کی کمی دور کرنے کے لیے ایجوکیشن فیلوز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں منظوری سے انقلابی قدم اٹھایا جا چکا ہے۔ ہماری حکومت تعلیم دوست اقدامات کے ذریعے صوبے کے طول وعرض میں طلبا کے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے کوشش کی جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں گلگت بلتستان کے اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کے کمی دور کرنے کیلئے ایجوکیشن فیلوز کی تعیناتی عمل میں لانے کیلئے آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ برائے ایجوکیشن ڈویلپمنٹ (اے کے یو۔ آئی ای ڈی)قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ‘لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز نالج پلیٹ فارمکے پی پر مشتمل کنسورشیم کیساتھ کئے گئے معاہدے میں حالیہ ترامیم کے بعد فوری عملدر آمد یقینی بنانے کیلئے بھی منظوری دیدی گئی ہے۔ وزیر تعلیم گلگت بلتستان نے اس حوالے سے کہا کہ معیاری تعلیم کی فراہمی اور تعلیمی درسگاہوں میں اساتذہ کی کمی دور کرنے کیلئے ایجوکیشن فیلوز کی تعیناتی کے بہتر نتائج سامنے آئیںگے۔اساتذہ کی کمی کے تدارک کے لےے ایجوکیشن فیلوز کی تعیناتی خوش کن ہے ۔ماضی میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے کہا تھا کہ ہم نے گلگت بلتستان کے گھوسٹ تعلیمی اداروں کی نگرانی اور باقاعدہ تعلیم کی آغاز کے لئے 1000 ایجوکیشن فیلوز کی خدمات حاصل کرنے کے لیے تجاویز طلب کی ہیں ان ایجوکیشن فیلوز کو گلگت بلتستان کے ہر اضلاع میں وہاں تعینات کیا جائے گا جہاں سکولوں کا فزیکل انفراسٹرکچر موجود ہے تاہم ایچ آر کی کمی کی وجہ سے یہ گھوسٹ اسکولوں کی تصویر پیش کررہے ہیں ہم عنقریب گلگت بلتستان سے گھوسٹ سکولوں کا خاتمہ کر دیں گے ۔ ہمارا یہ اقدام اس خطے کے تعلیمی منظرنامے کے لیے ایک واٹرشیڈ ہے،ہزار ایجوکیشن فیلوزکو تھرڈ پارٹی سروس پرووائیڈر کے ذریعے تےن سال کی مدت کے لیے کنٹریکٹ پر رکھا جائے گا یہ خدمات فراہم کرنے والے ایجوکیشن فیلوز گلگت بلتستان میں (ٹیچ فارپاکستان) اور ہمارے اپنے (ٹیک فیلو)جیسے ماڈل پرعمل کریں گے ان ایجوکیشن فیلوز کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کا مقصد معیارتعلیم کو یقینی بنانا ہے کیونکہ مستقل ملازمت کے برعکس ان غیر مستقل ملازمتوں پر خدمات فراہم کرنے والوں کو کارکردگی نہ دکھانے کی صورت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ان کی جگہ زیادہ قابل اورذمہ دار تعلیمی فیلوز کو بھرتی کیا جاسکتا ہے چیف سیکرٹری نے مزید کہا تھا کہ ان ایجوکیشن فیلوز کو پورے خطے میں بلا تفریق اور ضرورت کے مطابق تعنیات کیا جائے گا جبکہ انہیں تدریس، مقامی تعلیمی سیٹ اپ، گیم بیسڈ لرننگ اوران کے ڈومینز میں قابل بنانے کے لیے درکار دیگر ٹولز کی سخت تربیت فراہم کی جائے گی۔ پرائمری، مڈل کے ساتھ ساتھ ہائر سیکنڈری اسکولوں کو اس پروگرام کے ذریعے ہدف بنایا جائے گا جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو بنیادی توجہ دی جائے گی۔ محکمہ تعلیم جی بی معیار اور حاضری کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ پارٹی سروس پرووائیڈر کے ساتھ مل کر کام کرے گا جس کی نگرانی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جائے گی اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ ان سکولوں میں محکمہ تعلیم کے افسران کم از کم ہفتہ میں ایک دورہ ضرور کریں ان اقدامات کے سرانجام دینے سے یقین ہے کہ یہ منصوبہ خطے کے عوام کی امنگوں کے مطابق ایک یادگاراورموثر ثابت ہوگا ہم نی گلگت بلتستان کو جدید تعلیم اور سیکھنے والوں کی جنت بنانا ہے۔اب وزارت وفاقی تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کے سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے کہا ہے کہ تعلیم حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیک فار پاکستان ماڈل نے مجھے اپنی موجودہ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے گلگت بلتستان میں ایک ٹیک فیلوز پروگرام ڈیزائن کرنے کی ترغیب دی۔ میں پاکستان کے ترقیاتی شراکت داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹیک فار پاکستان کے فیلوشپ پروگرام کو پورے ملک میں پھیلانے میں مدد کریں۔اس پروجیکٹ کے تحت، ستاسی ٹیچنگ فیلوز، جو اعلی درجے کی یونیورسٹیوں کے ذہین گریجویٹس ہیں، نے اسلام آباد کے مضافات میں دیہی علاقوں کے سنتالےس سرکاری اسکولوں میں تقریبا آٹھ ہزار طلبا کو دو سال تک پڑھایا۔ایجوکیشن فیلوز پروجیکٹ کا مقصد پاکستان کے تعلیمی اصلاحات کے پروگرام کو اساتذہ کی بھرتی اور تربیت کے اعداد و شمار کے ساتھ آگاہ کرنا اور اس شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی تاثیر کا جائزہ لینا ہے۔ہم سمجھتے ہےں کہ جدید ٹیکنالوجی تعلیمی شعبے میں تمام مسائل کا حل نہیں۔ ممالک جب تک اپنے جی ڈی پی کا چھے فیصد یا بجٹ کا بےس فیصد تعلیم پر خرچ نہیں کریں گے اس وقت تک تمام لوگوں کو معیاری اور مساوی تعلیم دینے کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔ پائیدار ترقی کے تعلیمی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ابتدائی اور ثانوی درجے کی تعلیم دینے والے مزید لاکھوں اساتذہ کی ضرورت ہے۔دنیا کے ساٹھ فیصد ممالک میں پرائمری سکول کے اساتذہ کو دیگر پیشوں کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے۔ ان کے لیے بہتر حالات کار اور ترقی کے مواقع کا فقدان ہے۔ اسی لیے نوجوان تدریس کا شعبہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔ اساتذہ سے بہت سی توقعات رکھی جاتی ہیں، کووڈ جیسے حالات میں ان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی اچھی طرح واقفیت حاصل کریں۔ لیکن دوسری جانب ان کی مدد اور تربیت کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ پرائمری اور ثانوی درجے کے سکولوں میں ستر فیصد اساتذہ خواتین ہیں جبکہ اعلی تعلیم کے درجوں میں ان کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ غریب طبقے کے لیے تعلیم کا حصول آسان نہیں ہے۔ اگر اساتذہ کی مالی حالت اچھی نہیں ہو گی تو وہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور بجلی وغیرہ تک کیسے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جسمانی معذور افراد، اقلیتی طبقات، دیہی آبادی اور شہری مراکز سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی تعلیم و تدریس میں عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس نابرابری کو ختم کرنے کے لیے حکومتوں کو پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔دنیا میں بہت سے لوگوں کو ٹیکنالوجی کے ذرائع اور آلات حتی کہ بجلی تک بھی رسائی نہیں ہے۔ اسی لیے تعلیمی عدم مساوات کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی بظاہر بلامعاوضہ تعلیمی سہولت دینے والی کمپنیاں بچوں، ان کے والدین، عزیزو اقارب اور دوستوں کے بارے میں بلا اجازت معلومات جمع کرتی ہیں۔ اسے ڈیٹا مائننگ بھی کہا جاتا ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ سب کے فائدے کے لیے دستیاب ٹیکنالوجی کے استعمال میں حرج نہیں لیکن اسے بالاحتیاط ہونا چاہیے۔ تعلیمی شعبے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا حقیقی فائدہ تبھی ہو گا جب اس تک تمام لوگوں کی مساوی رسائی ہو۔ہر حکومت تعلےم کے شعبے میں بہتری لانے کے دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر صورتحال روز بروز تنزل پذیر ہے۔ہزاروں اساتذہ نہ ہونے سے ہائر سیکنڈری سکولوں کی کارکردگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ قانون کے مطابق ہر ہائر سیکنڈری سکول میں چار سے سات سبجیکٹ سپیشلسٹ اساتذہ کا ہونا لازم ہے مگر گزشتہ سات سال سے سبجیکٹ سپیشلسٹ کیلئے پرموشنز نہیں ہوئیں اور اس پرحکومت اور محکمہ سکول ایجوکیشن دونوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کی کمی کا بچوں کے امتحانی نتائج پر منفی اثر ڈھکا چھپا نہیں یہی وجہ ہے کہ ہائر سیکنڈری سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت چودہ ہزار اساتذہ کی بھرتی کا منصوبہ بنایا گیا تھا مگر پھر سیاسی وجوہ پر یہ عمل روک دیا گیا تھا۔ اساتذہ اور ماہرین کی کمی ایک طرف 2027 تک مزید تےس ہزار اساتذہ ریٹائر ہو جائیں گے یعنی اگر فوری نئے اساتذہ کی بھرتی نہ کی گئی تو تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اربابِ اختیار کو فی الفور اس جانب متوجہ ہونا چاہیے اور جلد از جلد اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پر کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق تعلیمی شعبے میں پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے 2030 تک دنیا کو چارکروڑ چالےس لاکھ اساتذہ کی فوری ضرورت ہو گی۔دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم کے لیے اضافی اساتذہ کی خدمات کے حصول پر 12.8 ارب ڈالر اور ثانوی تعلیم کے اساتذہ کی بھرتی پر 106.8 ارب ڈالر کے اخراجات آئیں گے۔اس تناظر میں گلگت بلتستان میں اساتذہ کی کمی ےقےنا تشوےشناک ہے‘ اےجوکےشن فےلوز کی تعےناتی عارضی حل ہے ‘ہونا تو ےہ چاہےے کہ مستقل بنےادوں پر اساتذہ کی تعےناتی کو ممکن بناےا جائے تاکہ بچوں کی تعلےم کا حرج نہ ہو۔