سی پیک کا احیا

رانا فیضان علی

سی پےک دم توڑتی‘ سسکتی آئی سی ےوکے بوسےدہ و خستہ حال بستر پر وےنٹی لےٹر کے سہارے لےٹی پاکستانی معےشت کےلئے سانسےںبحال کرنے والی آکسےجن پر مبنی اےک اےسا معاہدہ تھا جسے عاقبت نااندےش حکمرانوں نے بلاوجہ تاخےر سے دوچار کےا اوراس کی افادےت کا خاتمہ کر کے وطن عزےز کو نقصان پہنچاےا۔ امرےکہ کے آگے سر تسلےم خم نہ کرنے کے بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود اس کے سامنے کورنش بجا لاتے ہوئے زانوئے تلمذ تہہ کرتے رہے۔ےہ امرےکی غلامی ہی کی انتہا تھی کہ ساڑھے تےن سال تک سی پےک کو واقعتا ”پےک“ کر کے رکھ دےا گےا حالانکہ اب تک ےہ منصوبہ تکمےل کی حدوں کو چھو رہا ہوتا اور ملک و قوم اس سے پورے طور پر مستفےد ہو رہے ہوتے۔ستم ظرےفی ےہ ہے کہ سی پےک کے خلاف بے بنےاد پروپےگنڈے کے ساتھ ساتھ چےنی سرماےہ کاری کو بھی متنازعہ بناےا جاتا رہا‘ قوم کو چےنی سرماےہ کاری اور اس کے مستقبل کے بے بنےاد عزائم جو پاکستان دشمن قوتوں سے ادھار لےے گئے تھے سے ڈراےا جاتا رہا ۔شعور سے بے بہرہ حکمران اپنے ذاتی مفادات کےلئے ملک کے دور رس مفادات کو دانستہ و نادانستہ پس پشت ڈالے رہے۔کون نہےں جانتا کہ سی پیک خطے میں ایک گیم چینجر کی حےثےت رکھتا ہے ‘ یہ پاکستان کو چین کے ساتھ منسلک کرے گا جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ سی پیک اقتصادی مواقع پیدا کرکے صوبوں میں معاشی تفاوت کا خاتمہ کرے گا۔ اس منصوبے میں سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور توانائی کے منصوبوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے ،جو لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا کرکے پاکستان کی معیشت کو فروغ دے گا ۔ گوادر پورٹ کی ترقی اور سی پیک کی صلاحیت بلوچستان کی آنے والی نسلوں کےلئے ایک مضبوط اقتصادی بنیاد ہے ۔گوادر کے عوام گوادر کی بندرگاہ میں اہم سٹیک ہولڈر ہیں ،اس بندر گاہ سے مقامی افراد کو کثیر فوائد حاصل ہوں گے ۔ گوادر پورٹ سے برآمدات کاآغاز ریکوڈک کان سے سونے اور تانبے کی برآمد سے شروع ہوتا ہے ، جس سے پاکستان سمیت خطے میں سماجی و اقتصادی فروغ حاصل ہوگا۔سی پیک کے میگا پراجیکٹس میں گوادر پورٹ، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، حب پاور پلانٹ، حویلیاں ڈرائی پورٹ، رشکئی سپیشل اکنامک زون ، پشاور کراچی موٹروے، ایم ایل ون اور قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن شامل ہیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2006 میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جن کے مطابق کم و بےش پچاس منصوبوں پر کام ہونا تھا۔سی پیک کی باقاعدہ بنیاد2013 میں مسلم لیگ نون کے دور میں رکھی گئی ۔اپریل2015 میں دونوں ممالک کے درمیان46 ارب ڈالر کی51 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ۔نومبر 2017 میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے جس کا دورانیہ2017 سے 2030 ہے۔اس سمجھوتے کا پہلا مرحلہ 2020 تک مکمل ہونا تھا۔ درمیانی مرحلے کے لیے2025 تک کا وقت طے کیا گیا جبکہ تیسرا مرحلہ 2030 تک مکمل ہونا تھا۔سی پیک کے ذریعے پاکستان میں 17045 میگاواٹ بجلی کی پیداوار، ملک بھر میں ریلوے اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کی جدیدکاری، نئے آپٹیکل فائبر کنکشن، گوادر اور دیگر بندرگاہوں میں بہتری اور تجارت، اہم شہروں میں چار اربن ماس ٹرانزٹ سکیموں کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور یہ منصوبے2030 تک مکمل ہونے تھے۔ان میں اب تک انےس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری والے27 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 35 ارب ڈالرز سے زیادہ والے63 منصوبے تشنہ تکمےل ہےں ۔ ہم جانتے ہےں کہ سی پےک کے متذکرہ منصوبوں پر تےز رفتاری سے کام جاری تھا لےکن2018 میں تحرےک انصاف نے سی پےک کو سرد خانے میں ڈال دےا‘ اس حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دےا اور قومی اہمےت کے حامل اس منصوبے کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی‘ اپنے ہاتھوں اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری گئی‘ معےشت کی تباہی کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کےا گےا۔اگرچہ تحرےک انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی اےم کے عدم اعتماد کے بعد ہی سے سی پےک کے ضمن میں چےن کی ناراضگی دور کرنے کےلئے اقدامات شروع کر دےے گئے تھے تاہم نون لےگ کی موجودہ حکومت نے سی پےک کو پھر سے ٹرےک پر ڈالنے کےلئے اپنی تمام توانائےوں و صلاحےتوں کو اس ےک نکاتی اےجنڈے کے لےے وقف کر دےا ہے۔گزشتہ ماہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے چین کا دورہ کےا اور مےڈےا سے گفتگو میں اس امر کا اظہار کےا کہ چین کا اعتماد بحال کر رہے ہیں تاکہ سی پیک کا فیز ٹو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ازاں بعد نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار چین کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے پانچویں پاک چین وزرائے خارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کی ۔ اسحاق ڈار نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ پاک چین وزرائے خارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے پاک چین تعلقات کے تمام پہلوﺅں کے احےاءپر تفصےلی تبادلہ خےال کےا۔اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے وزےراعظم شہباز شرےف نے اپنے پانچ روزہ دورہ چےن میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس دورے کے دوران قراقرم ہائی وے، ایم ایل ون، خنجراب پاس، گودار پورٹ منصوبوں اور زراعت، انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں 23 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ۔دونوں رہنماﺅں نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔غور طلب بات ےہ ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شرےف نے اپنے دورے کا آغاز چینی شہر شین زین سے کےا جو آئی ٹی کا حب ہے اس سے ےہ اندازہ لگانے میں دشواری پےش نہےں آتی کہ موجودہ حکومت آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے ۔اس سارے منظر نامے میں تشوےشناک صورتحال ےہ ہے کہ ہماری ہماری بیوروکریسی اور بعض ادارے مغرب اور امرےکہ کو ہی اپنا مسےحا سمجھتے ہےں اور ان کے اذہان میں ےہ نقش ہو چکا ہے کہ امرےکہ اور مغرب سے ہی ان کی معاشی بقاہے ۔وہ ےہ حقےقت فراموش کر بےٹھے ہےں کہ امرےکہ نے ہمےشہ ہمیں ٹشو پےپر کی طرح استعمال کےا اور مطلب نکلنے پر ڈسٹ بن میں پھےنک دےا‘ ہمارے بزرجمہر تاحال ےہ تسلےم کرنے پر آمادہ نہےں کہ آنے والا دور اےشےاءکا دور ہے ‘ ہر کمال کو زوال ہے اور امرےکہ و مغرب اب اپنے زوال کا مزہ چکھنے کے دور سے بہت قرےب ہےں۔لہذا عقلمندی کا تقاضا ےہ ہے کہ ہم لکےر کے فقےر بننے کی بجائے اپنے مستقبل و مفاد کے مطابق فےصلے کرنے کی حکمت عملی اختےار کرےں کےونکہ طاقت کا توازن اب چےن‘ روس اور اےشےائی ممالک کی طرف منتقل ہونے والا ہے ‘عنقرےب چےن اور روس کا اتحاد خطے میں نئی تبدےلےوں کا موجب ہو گا۔ حقائق بتا رہے ہےں ےوکرےن مغرب اور امرےکہ کی آشےر باد کے باوجود روس کے سامنے گھٹنے ٹےک رہا ہے‘ خلےجی ممالک بھی امرےکی کےمپ کی بجائے نئے اتحادی تلاش کر رہے ہےں‘ اسرائےل امرےکی طاقت اور اسلحے کے باوجود آٹھ ماہ گزرنے پر بھی حماس کا بال بھی بےکا نہےں کر سکا‘ حال ہی میں سعودی عرب نے امرےکہ سے ڈالر میں تےل کی تجارت کے پچاس سالہ معاہدے کی تجدےد نہ کرنے کا عندےہ دےا ہے جو ڈالر کو زمےن بوس کر دے گا۔ ہمارا المےہ ےہ ہے کہ ہماری بےورو کرےسی ےہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سی پیک موٹر وے طرز کا منصوبہ نہےں ہے ےہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ہے جو صدےوں تک ملک کےلئے مستقل آمدن کو ےقےنی بنائے گا۔سی پیک سے پاکستان کی اکنامک گروتھ بڑھے گی‘ ٹریڈ میں اضافہ ہو گا‘بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری ملکی معےشت کو چار چاند لگا دے گی ‘انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور صنعتی ترقی سے ملازمتوں کے پیدا ہوں گے۔ اس لےے تمام سےاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اس کےلئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرےں ‘سی پےک منصوبوں کو پاےہ تکمےل تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرےں اوراےسے حالات پےدا کرنے سے گرےز کرےں جو اس اہم منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کا موجب بن سکتے ہےں۔