وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر اپنی کارکردگی کے حوالے سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں دنیا میں جہاں جاتا ہوں تو ان سے پہلی بات یہ کرتا ہوں کہ آپ کے ملک قرضے لینے نہیں بلکہ سرمایہ کاری لینے آیا ہوں اور اس کے لیے جتنے لوازمات ہیں، اس کے لیے ہم نے بھرپور تیاری کی ہے، آئندہ سرمایہ کاری اور تجارت کی بنیاد پر ہمارے تعلقات بڑھیں گے اور میں سمجھتا ہوں پاکستان آہستہ آہستہ قرضوں سے نجات حاصل کرے گا، یہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسی مثالیں ہیں جہاں پر ان ممالک نے صرف ایک دفعہ آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ بڑھایا اور پھر ان کے پاس نہیں گئے لیکن ہم چوبےس پچےس مرتبہ جاچکے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سازگار ماحول بنایا اور اگر ہم نے اپنے پروگرام پر سختی سے عمل کیا اور اہداف پر پوری طرح کمر کس لی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے جو قرض لینے جارہے ہیں وہ آخری پروگرام ہوگا۔افسوسناک امر ےہ ہے کہ ہماری معےشت کی مکمل عمارت قرض کی بنےادوں پر کھڑی ہے اور ہم بہتری کی امےد لگائے بےٹھے ہےں ۔آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا اور پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا۔آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ کوئی بھی ملک تقاضے پورے کر کے اس میں شمولیت کی درخواست دے سکتا ہے۔ ان تقاضوں میں معیشت سے متعلق معلومات اور کوٹہ سبسکرپشن کہلائی جانے والی واجب ادا رقم شامل ہے۔سبسکرپشن کے لیے جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔کسی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے:معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ۔ یہ دیکھتا ہے کہ ایک ملک کی کارکردگی کیسی ہے اور اسے کن خطرات کا سامنا ہے، جیسے برطانیہ میں بریگزیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے بعد تجارتی تنازعات اور پاکستان میں شدت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے معاشی اثرات۔رکن ممالک کو تجاویز دی جاتی ہیں کہ وہ اپنی معیشت کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ان ملکوں کے لیے قلیل مدتی قرضے اور مالی معاونت جو مشکلات سے دوچار ہیں۔یہ قرضے رکن ممالک کے کوٹا سبسکرپشن سے ممکن ہوتے ہیں۔2018 میں ارجنٹائن نے آئی ایم ایف کی تاریخ کا سب سے بڑا 57 ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا تھا۔رکن ممالک کو دینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس کل رقم ایک ٹریلین ڈالر ہے۔اکثر آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا آخری راستہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی بحران سے متاثرہ کسی بھی ملک کی آخری امید آئی ایم ایف سے ہی ہوتی ہے ۔ یہ جاننا ناممکن ہے کہ آیا اس کی مداخلت نے کسی ملک میں معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر اور اس کا متبادل کیا ہو سکتا تھا۔ 2002 میں برازیل نے اپنے قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ ہونے سے قبل آئی ایم ایف کا قرض حاصل کیا۔ اس کی حکومت جلد ہی معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس نے دو سال قبل ہی اپنا تمام قرضہ ادا کر دیا۔آئی ایم ایف قرض دیتے ہوئے بعض اوقات رکن ممالک پر سختیاں عائد کرتا ہے جن پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ مشکل ہیں۔ان میں حکومتی قرضے میں کمی، کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی اور ملکی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھولنا شامل ہیں۔آئی ایم ایف کے آغاز کے بعد سے عمومی طور پر ادارے کا سربراہ یورپی ہوتا ہے جبکہ عالمی بینک کی صدارت امریکی شہری کے پاس رہتی ہے۔دو ہزار انیس میں بطور آئی ایم ایف سربراہ اپنی پہلی سالانہ کانفرنس سے قبل کرسٹالینا جیورجیوا نے خبردار کیا تھا کہ بریگزٹ یورپ اور برطانیہ دونوں کے لیے تکلیف دہ ہو گا۔آئی ایم ایف 1944 میں امریکہ میں ہونے والی بریٹن ووڈ کانفرنس کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے دوسری عالمی جنگ کے دوران 44 ممالک نے شرکت کی تھی جن میں برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین شامل تھے۔اس کانفرنس میں عالمی معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ کا نظام بنانے اور جنگ سے متاثرہ یورپی ممالک کی معیشت کو بحال کرنے پر بات چیت ہوئی تھی۔آئی ایم ایف کے اراکین ایک فکسڈ ایکسچینج ریٹ کے نظام پر متفق ہوئے تھے جس کے بارے میں طے ہوا تھا کہ اسے 1970 تک قائم رکھا جائے گا۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک چوبےس پروگرام ہوچکے ہےں پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ آخری بار آئی ایم ایف بورڈ نے اگست 2022 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے ساتویں اور آٹھویں ریویو کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض دیا۔ایگزیکٹو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمی کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمی کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا تو نواز شریف کی دوسری وزارت عظمی میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔قرض لےنے کے طرےقہ کار کے مطابق سب سے پہلے ایک رکن ملک آئی ایم ایف سے مالی مدد کی درخواست کرتا ہے اس ملک کی حکومت اور آئی ایم ایف کا عملہ معاشی و مالی صورتحال اور قرض کی رقم پر بات چیت کرتے ہیں۔حکومت اور آئی ایم ایف معاشی پالیسیوں پر اتفاق کرتے ہیں جس کے بعد آئی ایم ایف اس ملک کو قرض دینے پر راضی ہوجاتا ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط سے مراد پالیسی اقدامات ہیں جو قرض لینے کے لیے ایک ملک کو کرنے ہوتے ہیں۔پالیسی پروگرام آئی ایم ایف کے بورڈ کو پیش کیا جاتا ہے تاہم ایمرجنسی فنانسنگ کے تحت اس نظام کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ایگزیکٹیو بورڈ قرض کی منظوری دیتا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف پالیسی اقدامات کی نگرانی کرتا ہے۔ملک کی معاشی اور مالی صورتحال بہتر ہونے پر آئی ایم ایف کو قرض کی رقم واپس کی جاتی ہے تاکہ اسے دوسرے رکن ممالک کے لیے دستیاب بنایا جاسکے۔ترقیاتی بینکوں کے برعکس آئی ایم ایف کسی مخصوص پراجیکٹ کے لیے قرض نہیں دیتا۔ اس کا مقصد ملکوں کو معاشی بحران میں مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔ ایسے میں معاشی استحکام اور پیداوار کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔کسی ملک میں معاشی بحران کی وجہ ادائیگیوں میں عدم توازن ہوسکتی ہے جس میں ایک ملک کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنا غیر ملکی قرض ادا کر سکے یا درآمدات حاصل کرسکے یا پھر اس کی آمدن اور اخراجات میں بڑے خسارے کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ان بحرانوں سے پیداوار میں کمی آسکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، آمدن میں کمی آ سکتی ہے اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہوسکتی ہے۔سول و غےر جمہوری حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکا ہے جس سے نکلنا بظاہرحکمرانوں کے بس کی بات نہیں لےکن اگر وزےراعظم شہباز شرےف ےہ ےقےن دلا رہے ہےں کہ ےہ آئی اےم اےف سے آخری پروگرام ہو گا تو اسے حسن ظن رکھتے ہوئے خوش کن کہا جا سکتا ہے لےکن ہم جس طرح قرض کی مے پےنے کے عادی ہو چکے ہےں اس کی روشنی میں آئی اےم سے نجات کی دور دور تک کوئی راہ دکھائی نہےں دےتی جب تک ہم قرضوں کے استعمال اور ان سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اختےار نہےں کرتے ہم مقروض ہی رہےں گے۔
