وزیر اعظم نے آپریشن عزم استحکام کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دے دی۔وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور داخلی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر اس پر عمل درآمد میں خامیوں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا گیا تاکہ ان کو اولین ترجیح میں دور کیا جا سکے۔اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کے وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔وزیراعظم نے قومی عزم کی علامت، صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپریشن عزم استحکام کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔سیاسی سفارتی دائرہ کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی، مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت سے بڑھایا جائے گا، جو دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی موثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار ہوں گے اور انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔اس مہم کو سماجی و اقتصادی اقدامات کے ذریعے مکمل کیا جائے گا جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے۔مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ قوم کی بقا اور بہبود کے لیے بالکل ضروری ہے۔ کسی کو بغیر کسی رعایت کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔فورم نے پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز ایس او پیزجاری کیے گئے، جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سیکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہوگا۔پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی حالیہ لہر نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے کی گئی کوششوں کو اکارت کر کے پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ردالفساد کے تحت کومبنگ آپریشنز اور انسدادِ دہشت گردی کی جامع تر حکمت عملیوں نے پاکستان کو میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے عروج کے سدِ باب میں مدد دی۔تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد ایجنسیاں اور ان کے معاونین پاکستان کی کامیاب انسدادِ دہشت گردی کی کہانی کو پلٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انسدادِ دہشت گردی کی مکمل طور پر فعال اور انتہائی قابل عمل پالیسی ہونے کے باوجود پاکستان کو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے دہشت گردی کے تدارک کی ایک تکمیلی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔انسدادِ دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی کے درمیان فرق یہ ہے کہ موخر الذکر دہشت گردی کی پیش بندی اور روک تھام کرتا ہے جبکہ اول الذکر زیادہ تر کسی واقعے کے بعد کا رجعتی ردعمل ہے۔ حملے کے بعد، انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیوں میں جوابی اور رجعتی ردعمل پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جس میں اکثر تادیبی فوجی کاروائیاں استعمال کی جاتی ہیں اور دہشت گردوں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔دوسری طرف تدارکِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیاں حملوں سے پہلے کام کرتی ہیں، جس میں دہشت گرد تنظیموں کے لئے ہمدردی اور حمایت کو ختم کرنے کے لئے پیچیدہ قانونی اور ضابط کار کارروائیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔قانون کی بالا دستی کو از سرِ نو قائم کرنے اور اسے مضبوط بنانے والے قانونی نظام کو تیار کر کے، تدارکِ دہشت گردی کا مقصدمعاشرے کے ان طبقات کی نشاندہی اور ان کا تحفظ کرنا ہے جو دہشت گرد نظریات کے زد پذیر ہیں۔ اب جبکہ پاکستان دہشت گردی کی موجودہ لہر سے نمٹ رہا ہے،پالیسی سازوں کو بنیادی علتوں کا سدِ باب کرنے کے لیے تدارکِ دہشت گردی کے ضابط کار کو وسیع العمل انسداد ِ دہشت گردی کے فریم ورک کے ساتھ ملا کر مکمل کرنا ہو گا۔انسداد ِدہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی میں حائل خلیج کے حوالے سے پاکستان کو پہلا تجربہ شروع کیے گئے جامع فوجی آپریشنز کی کامیابی کے بعد ہوا۔فوری خطرات کم ہونے کے بعد، ریاست نے مزید ادارے قائم کیے جن کا مقصد دہشت گردی کی ان پیچیدہ بنیادی وجوہات سے نمٹنا تھا جن کے باعث ملک میں دہشت گردی پھل پھول رہی ہے۔ان نیک ارادوں کے باوجود پاکستان تدارکِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیوں کو انسدادِ دہشت گردی کے پہلے سے موجود فریم ورک میں ضم کرنے میں ناکام رہا ہے۔اب جبکہ پاکستان دہشت گردی کی موجودہ لہر سے نمٹ رہا ہے،پالیسی سازوں کو بنیادی علتوں کا سدِ باب کرنے کے لیے تدارکِ دہشت گردی کے ضابط کار کو وسیع العمل انسداد ِ دہشت گردی کے فریم ورک کے ساتھ مکمل کرنا ہو گا۔انسدادِ دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی میں حائل یہ خلیج نیشنل ایکشن پلان اور مابعد نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی نیکٹا میں سب سے زیادہ واضح طور پر دیکھی گئی ہے۔ اے پی ایس حملے کے بعد قائم ہونے والے نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور اسٹریٹیجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے خیال یہ تھا کہ پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط کیا جائے۔ تاہم، بعد کے برسوں میں، اس کے برعکس نیکٹا نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نظریاتی جائزے پر توجہ مرکوز رکھی اور قانون کے نفاذ اور قانونی خدمات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ چھوڑ دیا۔اگرچہ نیکٹا نظریاتی طور پر دہشت گردی اور اس کی مختلف اشکال سے نمٹنے کے لئے ایک مثالی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے ، لیکن اسے دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گرد تنظیموں کی مرکزِ توجہ میں مسلسل تبدیلی کے باعث شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دہشت گردوں اور مجرموں کی دیگر قسموں کے درمیان فرق کرنا ایک ایسا پہلو ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے نفاذ کے طریقہ کار کو وضع کرنے میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔گھناﺅنے جرائم اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ملزمان، دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث گرفتار مجرموں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ ، جو دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق ہے، اکثر غیر دہشت گرد مجرموں کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔اس طرح کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں میں اس سے نہ صرف عدالتی کار گزاری پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، بلکہ ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ایسی تحقیقات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ اکثر شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے بریت میں نکلتا ہے یا پھر وہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی حقیقی کامیابی پر اجارہ داری قائم کر لیتی ہیں۔پاکستان نے گرفتار دہشت گردوں کے خلاف خصوصی فوجی عدالتیں قائم کیں۔ اے پی ایس کے حملے سے پہلے، انسدادِ دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی کے درمیان خلیج وسیع ترتھی۔ نائن الیون کے بعد شورش کچلنے کی کامیاب کارروائیوں نے پاکستان کو بڑے پیمانے پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا، لیکن ساتھ ہی دہشت گردوں کے لئے امید سے بڑھ کر بھر پور جوابی کارروائیاں کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے ، جس سے اس کی انسداد دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی طریق عمل میں ایک اور پرت کا اضافہ ہوا۔ اے پی ایس پشاور کے واقعے کے بعد، پاکستان نے تدارکِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں پر انسدادِ دہشت گردی کے ردِ عملی نظام کو ترجیح دی، جس میں کثیرالجہتی فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ایک جامع تر انسداد دہشت گردی پالیسی تیار کی گئی۔
