وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاور سیکٹر اور ایف بی آر صحیح نہ ہوئے تو خدانخواستہ ملک کی ناﺅ ڈوب سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف کے دور میں بےس بےس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا، بجلی کے بحران کو حل کرنے کےلئے ہماری کوشش جاری ہے، ہمیں بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے، بجلی کے مسئلے پر سیاست عوام کی توہین کے مترادف ہے، جو لوگ آج دھرنے دے رہے ہیں وہ سیاست برائے سیاست کرر ہے ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت کے اپنے آئی پی پیز ہیں ان کا کوئی ایشو نہیں ہے، چین نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا اور ہزاروں واٹ بجلی پیداکی، چین واحد ملک تھا جس نے سی پیک کے ذریعے بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیا، تاریخ کی تیز ترین اسپیڈ پر منصوبے لگائے گئے، ایل این جی کے پلانٹس لگائے گئے، سب سے سستے ترین بجلی کے پلانٹس لگے،کسی معاہدے کو طعنے کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے، بجلی سستی کرنا اتحادی حکومت اور نوازشریف کا ایجنڈا ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ٹیکس پیئرز پر مزید ٹیکس ڈالنا قابل تعریف نہیں، سیلری کلاس پر ٹیکس کا ہمیں احساس ہے، بعض ٹیکس تو بالکل جائز ہیں، تنخواہ داروں کا احساس ہے اسی لیے دو سو یونٹ تک کے صارفین کو تےن ماہ تک تحفظ دینے کے لیے پچاس ارب مہیا کیے ہیں۔ انڈسٹریز کےلئے ساڑھے آٹھ روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کی گئی، بجلی کی قیمت کم کیے بغیر ایکسپورٹس بڑھ سکتی ہے نہ زراعت ترقی کرسکتی ہے، بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوگی تو کاسٹ اینڈ پروڈکشن کرسکیں گے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ واقعتا عوام کے لےے شدےد پرےشانی کا باعث ہےں‘مشیر خزانہ خیبر پختونخوا مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ بجلی کی پیداواری قیمت کے مقابلے میں نئے نرخ واضح طور پر غیر منصفانہ ہیں، بجلی کی پیداواری قیمت چارکلو واٹ فی ڈالر اور فروخت تےن کلو واٹ فی ڈالر ہے۔ بجلی کی نئی قیمت صارفین کیلئے نا قابل برداشت ہو جائے گی، صاحب حیثیت لوگ شمسی یا توانائی کے دیگر ذرائع پر منتقل ہوجائیں گے۔پاکستان میں بجلی کی قیمت فروخت پیداواری قیمت سے آٹھ گنا زیادہ ہے، اضافی قیمت تقسیم کار کمپنیوں، نقصانات، ٹیکس اور سبسڈی میں جا رہی ہے۔ اخراجات اور آمدنی کے تناسب سے پاکستان رہنے کیلئے سب سے مہنگا ملک ہے۔ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ بجلی کے بھاری بلز کی وجہ سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں مہنگائی، غربت اور اب بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز کی وجہ سے لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اور اب ان کی پریشانی غصے میں بدل رہی ہے۔ماہرےن نفسےات کے مطابق قتل، خود کشی یا ایسا کوئی انتہائی قدم کوئی اچانک نہیں اٹھا لیتا۔ یہ لاوا پہلے سے پک رہا ہوتا ہے اور ایک لمحہ کسی کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ےہی وجہ ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت پر شہری سراپا احتجاج ہیں وہیں مذہبی سیاسی پارٹی جماعتِ اسلامی کئی روز سے دھرنے پر ہے ۔چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ضیا الحق شیخ کا کہنا ہے کہ درحقیقت آئی پی پیز کے معاہدے ملکی صنعت کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں کی وجہ سے ملکی انڈسٹری بند ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں لوگ چار سینٹ کی بجلی بنا کر دے رہے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں سولہ سینٹ کی بن رہی ہے ان حالات میں ہم کیسے دنیا کا مقابلہ کریں گے۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور مزدور طبقہ پریشان ہے۔ جب اخراجات آمدن سے زیادہ ہو جائیں تو مزاج میں چڑچڑا پن اور غصہ آ جاتا ہے۔ لہذا تیز مزاج اور حساس طبیعت کے افراد کے لیے خود پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ کم آمدنی والے افراد کو بجلی کی قیمت میں سبسڈی دی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اووربلنگ کی شکایات عام ہیں۔یہ واضح حقیقت کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں بجلی مہنگی ہے اور اس کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تاہم اگر ہم بغور جائزہ لیں تو تمام صارفین کیلئے یہ معاملہ ایک جیسا نہیں۔ کچھ صارفین کیلئے یہ بالکل مفت ہے یا پھر اس کے کم سے کم چارجز لیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف صارفین کے ایک زمرے کیلئے اس کی لاگت بہت زیادہ ہے۔یہ صارف طبقہ بجلی کے اپنے استعمال کی لاگت کے علاوہ ٹیرف کی ساخت کے تحت دوسرے صارفین کا بوجھ اٹھانے پر بھی مجبور ہے۔ تو یہ کون سے صارفین ہیں جو امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں اوراس کے نتیجے میں ان پر خطے میں سب سے زیادہ ٹیرف لگائے گئے ہیں؟ پاور ریگولیٹر نیپرا کی ایس او آئی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ڈسکوز کے اوسط ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبیوشن نقصانات16.45 فیصد ہیں جبکہ نیپرا کے مقرر کردہ بینچ مارک بارہ فیصد اور عالمی بینچ مارک چھے سے سات فیصد ہیں۔مراعات یافتہ صارفین کی دوسری قسم یا وسیع تر معنوں میں کم سے کم مراعات یافتہ صارفین پروٹیکٹڈ کنزیومر اور زراعت کے صارفین ہیں۔ یہ وہ صارف ہیں جو دو سو یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ چارج کیے جاتے ہیں۔ دس روپے کلو واٹ آوور کے بجائے طے شدہ اوسط ٹیرف تقریبا تےس روپے ہے۔ صارفین کا یہ زمرہ فیول ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ نامی متواتر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں بھی حصہ نہیں ڈالتا ہے۔ یو جو فرق ہے یہ سبسڈی کے طریقہ کار کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ریکوری کی شرح نیپرا کے مقرر کردہ سو فیصد بینچ مارک کے مقابلے میں بانوے فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سو یونٹس پیدا ہوتے ہیں تو ٹرانسمیشن نقصانات کو شامل کرنے کے بعد ڈسکوز کو عالمی معیار کے مقابلے میں صرف چوہتر ےونٹس کی ادائیگی ملتی ہے یعنی بانوے یونٹس اور بےس یونٹس کا ڈیلٹا باقاعدگی سے ادائیگی کرنے والے صارفین زیادہ تر متوسط طبقے، کمرشل اور صنعتی صارفین کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ اس ڈیلٹا کا بڑا حصہ بنیادی طور پر صارفین کے ایک مخصوص طبقے کی طرف سے توانائی کی چوری ہے جو بلآ خر بڑھتے ہوئے گردشی قرضے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اگرچہ معاشرے کے نچلے طبقے کو خاص طور پر کمزور معیشتوں میں تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے لیکن یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پروٹیکٹڈ کنزیومر کیٹیگری کا بجلی اور گیس دونوں صارفین کے ذریعے زبردست استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ تجویز دی گئی ہے کہ حکومت کو بجلی کے نرخوں میں پروٹیکٹڈ کنزیومر کیٹگریز بنانے کے بجائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا کسی دوسرے سماجی تحفظ کے طریقہ کار کے تحت براہ راست نقد سبسڈی فراہم کرنی چاہیے۔مراعات یافتہ صارفین کی تیسری قسم نیٹ میٹرنگ صارفین ہیں جو انتظامی نااہلیوں اور غلط وسیع پالیسیوں بالخصوص اضافی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے مراعات یافتہ بن جاتے ہیں۔ آن گرڈ سولر سسٹم کو انسٹال کرنے کے بعد نیٹ میٹرنگ صارفین گرڈ سے بجلی لے سکتے ہیں اور انہیں مصروف اوقات کار کے سوا کوئی بل ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔اس پہلو پر بہت زیادہ بحث ہوسکتی ہے اور اس کے فوائد اور نقصانات ہیں۔ تاہم صریح حقیقت یہ ہے کہ یہ صارفین صلاحیت پر بوجھ کم کرنے میں زیادہ حصہ نہیں ڈالتے جو ہمارے ٹیرف کا تقریبا ساٹھ فیصد ہے۔ اتنی زیادہ صلاحیت کو نصب کرنے کے استدلال پر بحث ہو سکتی ہے، چوتھے مراعات یافتہ صارفین کے زمرے میں سرکاری اہلکار ہیں جو بجلی کے مفت یا سبسڈی والے یونٹ حاصل کرتے ہیں اور بالآخر پاکستان کے ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ ایک اور اضافہ متوازی گرڈ اسٹیشن رکھنے والے کیپٹیو جنریشن صارفین ہیں۔حکومت نے ان صارفین کو ممکنہ صارفین کے طور پر دیکھتے ہوئے کچھ صلاحیتیں نصب کی ہیں لیکن سستے پیداواری ذریعہ ہونے کی وجہ سے یہ صارفین بھی قومی گرڈ کی صلاحیت کی لاگت میں زیادہ حصہ نہیں ڈالتے ہیں۔اب اس شہری کی بدحالی کا اندازہ لگائیں جسے وقت پر بل ادا کرنے کے بعد دوبارہ اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اس کے برعکس منظور نظر یا مراعات یافتہ شہری جو بل ادا ہی نہیں کررہا کیوں کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ ان صارفین کو اس کراس سبسڈی پر اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی ادا کرنا ہوتا ہے۔اسی طرح تیسری کیٹیگری میں ایک بار پھر ان صارفین کے بڑے حصے کی صلاحیت کی ادائیگیوں کا بوجھ ہے جنہوں نے نیٹ میٹرنگ کے ذریعے سولر پینلز لگائے ہیں وہ صارفین جنہوں نے نیٹ میٹر والے سولر پینلز نہیں لگائے ہیں۔یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ چونکہ جنریشن ٹیرف دو حصے ہیں، یعنی صلاحیت اور توانائی کا جزو، اسی مناسبت سے کھپت کا اختتامی ٹیرف بھی دو حصوں میں ہونا چاہیے۔ دو حصوں پر مشتمل ٹیرف کا انتظام خاطر خواہ فرق کو کم کرے گا اور اس کے نتیجے میں ٹیرف کا زیادہ مساوی طریقہ کار پیدا ہوگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکام بالا عوام کی مشکلات کا احساس کرےں اور سستی بجلی پےدا کرنے کے لےے منصوبے تشکےل دےں جن آئی پی پےز سے معاہدے ختم ہو چکے ہےں ان میں مزےد توسےع نہ کی جائے ۔وزےراعظم نے ملکی ناﺅ ڈوبنے کا جو خدشہ ظاہر کےا ہے وہ ناقابل فہم ہے جن اداروں کی بات کی گئی ہے ان میں اصلاح حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت اپنی ذمہ دارےاں پورا کرے۔
سپیشل اکنامک زون کے قیام کیلئے حکومت گلگت بلتستان سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی،وزیر اعلیٰ
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے دو میں دو ہائر سیکنڈری سکول قائم کرنے کی حامی بھرلی،گورنر
غیر ضروری التوا ،دیا میر بھاشا ڈیم کی لاگت 750ارب تک پہنچ چکی ، احسن اقبال
2ڈپٹی سیکرٹریزکے تبادلے،6سیکشن آفیسرزکی ترقی