پروفیسررفعت مظہر
وہ اپنی ترکش کے سارے زہرآلود تیر آزما چکا۔ یہ تیراندازی اس وقت شروع ہوئی جب اس وقت کے ڈی جی آئی اےس آئی جنرل احمد شجاع پاشا نے اکتوبر 2011 میں مینارِپاکستان پرجلسے کا انتظام کرکے اس کی رونمائی کی۔ اس کے بعد وہ مقبولیت کے اسپِ تازی پرسوار ہوکر یوں بگٹٹ ہواکہ اس کی مخالفت میں لکھنے والے جغادریوں کے قلم تھرتھرانے لگے۔ ہمارے کالم گواہ کہ ہم نے تب بھی لکھاکہ یہ سب تھوتھاچنا باجے گھناکے مصداق۔ وجہ یہ کہ ہم 1970 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے شوکتِ اسلام کے عدیم النظیر جلسے دیکھ چکے تھے لیکن جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تومشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو بازی لے گئے اور جماعت اسلامی منہ دیکھتی رہ گئی۔ یہی کچھ 2013 کے عام انتخابات میں ہوا، خاں کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف 26 سیٹیں آئیں اور بازی لے گئی نوازلیگ۔ انتخابات میں خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں تحریکِ انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس وقت نوازلیگ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا میں حکومت بناسکتی تھی لیکن میاں نواز شریف نے مولانافضل الرحمن کی شدید مخالفت کے باوجود تحریکِ انصاف کوحکومت کی تشکیل کاموقع دیا۔ تحریکِ انصاف نے جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت تشکیل دی۔ اگر خاں کی نیت میں فتور نہ ہوتا تو وہ اپنی تمام تر توانائیاں خیبرپختونخوا کوجنت النظیر بنانے میں صرف کرتا اوراگلے عام انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں گھر کرجاتا لیکن اس کامقصد تو فتنہ وفساد پھیلانا تھا جس کے لیے اسے پاکستان پر مسلط کیاگیا تھا۔یہ حقیقت بھی تاریخ میں درج کہ خاں نے لندن میں مولانا طاہرالقادری اور اس وقت کے ڈی جی آئی اےس آئی جنرل ظہیرالاسلام کے ساتھ مل کرایک خفیہ منصوبہ بنایا جس پر 14اگست 2014 کوعمل شروع ہوا۔ منصوبہ یہ تھاکہ عمران خاں اور طاہرالقادری اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک لاکھ کے اجتماع کے ساتھ دھرنا دیں گے اور امپائر کی انگلی کھڑی ہوجائے گی۔ ہوایوں کہ خاں جوکہتا تھاہزاروں موٹرسائیکلوں کے ساتھ وہ لاہورسے نکل کر اسلام آباد کی طرف عازمِ سفر ہوگا، جب اس نے لاہورکا ٹول پلازہ کراس کیاتو اس کے ہمراہ محض چارپانچ ہزار کا مجمع تھا البتہ مولانا طاہرالقادری کے ساتھ بیس، پجیس ہزار لوگ تھے جن میں ان کے سکولوں کے بچے، اساتذہ، ان کی فیملیز اور مریدین شامل تھے۔ ڈی چوک اسلام آباد کے 126روزہ ناکام دھرنے میں جوکچھ ہوا وہ اب تاریخ کاحصہ ہے۔اِسی سازش کے تحت زورآوروں نے اعلی ترین عدلےہ کوساتھ ملاکر 2017 میں میاں نواز شریف کوپاناما سکینڈل میں تاحیات نااہل کروایا۔ سپریم کورٹ کایہ فیصلہ آج بھی تاریخِ عدل کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں عمران خاں کو جتوانے کے لیے زورآوروں نے ہرحربہ استعمال کیا لیکن جب انتخابات کے نتائج حق میں نہ آنا شروع ہوئے تو آرٹی ایس بٹھاکر اسے جتوایا گیا۔ پھر بھی وہ قطعی اکثریت حاصل نہ کرسکا۔ پھر اِدھرادھر سے سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکانِ اسمبلی کو ڈنڈے کے زورپر اکٹھا کرکے بھان متی کاکنبہ جوڑا۔ خاں کا پونے چار سالہ دورِحکومت ایسا کہ جس میں محض بربادیوں کی داستانیں ہی رقم ہوئیں۔ گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزایار پھرے کے مصداق خاں نے اپنے مخالفین کو چن چن کر جیلوں میں ڈالا۔ اس کا مقصد تواگلے دس،پندرہ سال حکومت کرنا تھا مگر قدرت کویہ منظور نہ تھا۔ آئینِ پاکستان کے عین مطابق اس کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی تواس نے 27 مارچ 2022 میں اسلام آبادکے جلسہ عام میں کاغذکا ایک ٹکڑا لہراتے ہوئے کہاکہ یہ امریکی سائفر ہے جس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش تیارکی گئی ہے۔ قصہءمختصر 10اپریل کوتحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی لیکن چین اسے پھربھی نہیں آیا۔ وہ سڑکوں پر نکلا اور حکومت کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا۔ اِسی دوران اسلام آبادپر چڑھائی کی گئی جس پر توہینِ عدالت کاکیس سپریم کورٹ کی فائلوں میں کہیں گم ہوچکا۔ آجکل وہ اڈیالہ جیل میں ہے، اس کا سرپرست فیض حمید فوج کی کسٹڈی میں اور اس کے حواری تتربتر۔ وہ اپنی ترکش کے سارے تیر آزما چکا۔ 8اپریل کومویشی منڈی سنگجانی کے جلسہءعام میں ایک مویشی دھاڑتا چنگھاڑتا رہا لیکن جلسہ ختم ہونے کے بعد وہ آٹھ گھنٹے تک زورآوروں کے قدموں میں بیٹھ کر معافیاں بھی مانگتا رہا۔ مویشی منڈی کاہنہ میں وہ مویشی پھر آےا۔ نوازلیگ اس کے انتظار میں تھی اوراس کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے۔ لاہوریے تو نکلنے سے رہے نہ نکلے البتہ خیبرپختونخوا سے کچھ لوگ جلسے میں ضرور شریک ہوئے۔ اس مویشی نے توکہا تھا کہ وہ خاں کو چھڑوانے آرہا ہے لیکن خاں تو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ہے، مویشی منڈی میں نہیں۔ تحریکِ انصاف کے اِن جلسے جلوسوں کی حقیقت یہ کہ 2014 میں چینی صدر پاکستان کے دورے پر آرہے تھے جسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی اوراب اکتوبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کا پاکستان میں اجلاس ہورہا ہے جس میں چینی وزیرِاعظم بھی تشریف لارہے ہیں۔ فتنہ پرور اِس اجلاس کوبھی سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ یقینا حکمرانوں کے لیے لمحہءفکریہ ہونا چاہیے کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم پاکستان کی اقتصادیات کے لیے بہت ضروری ہے۔صدشکر کہ حکمرانوں کوبھی کچھ ہوش آیا۔ معاملہ یوں کہ 12جولائی کوسپریم کورٹ کے 8 معزز ججز صاحبان نے مختصر فیصلہ سنایا جس میں لکھاگیا کہ مخصوص حالات کے تحت قومی اسمبلی کے 80 ارکان کو تحریکِ انصاف کو دے دیا جائے۔ حیرت مگریہ کہ کیس میں مدعی سنی تحریک تھی اور تحریکِ انصاف نے کوئی دعوی ہی نہیں کیاتھا لیکن پھربھی اِن سیٹوں کا حقدار تحریکِ انصاف کو ٹھہرایا گیا۔ سات اگست کو الیکشن ایکٹ کا صدارتی آرڈیننس جاری ہوا۔ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ تونہیں آیا لیکن الیکشن کمیشن کو وضاحت جاری کردی گئی۔ لسٹ پرسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے الیکشن کمیشن کوخط لکھ کر واضح کیاکہ الیکشن ایکٹ آرڈیننس کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جاری ہوا اوریہ 2017 سے نافذالعمل ہے اِس لیے سپریم کورٹ کے 12جولائی کے فیصلے پرعمل درآمد نہیں کیاجا سکتا۔ اِس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کی ویب سائیٹ پرپارٹی پوزیشن کی وضاحت بھی جاری کردی گئی۔ اِس وضاحت میں تحریکِ انصاف کا تو نام ونشان نہیں البتہ سنی اتحادکونسل کی 80 سیٹیں ظاہر کی گئی ہیں۔ اِس کے علاوہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی یہ ترمیم کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی میں چیف جسٹس کے ساتھ ایک سینئرترین جج ہوگا اور کمیٹی کاتیسرا رکن چیف جسٹس خود منتخب کریں گے۔ ظاہرہے کہ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے ایک مخصوص حلقے کومنظور نہیں اِس لیے دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔