کسی لڑائی جھگڑے کو اگر ابتدا میں روکا نہ جائے تو وہ بڑھ کر دنگا فساد بن جاتا ہے اور انتشار کو اگر نہ روکا جائے تو یہ فتنہ وفساد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کچھ یہی حال ہماری سیاست کا بھی ہے۔ 2014 میں شہر اقتدار کے ڈی چوک کے دھرنے سے شروع ہونے والا انتشار , فتنہ وفساد کی شکل اختیار کرتا ہوا اپنے اقتدار کے خاتمے کے رنج و غم میں 9, مئی 2023 کو نقطہ عروج پر جا پہنچا لیکن فسطائیت ان کا مقدر بنا، اس انتشار اور فساد کے نقطہ عروج کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما نے اپنی گرفتاری سے بچنے کیلئے کارکنوں کو بطور ڈھال استعمال نہیں کیا اور نہ ہی گرفتاری کی صورت میں ردعمل دینے کے لیے کارکنان کو ملکی دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کے لئے کہا لیکن بانی پی ٹی آئی نے یہ کیا اور انکی گرفتاری پر 9 ،مئی کو ملک کے درجنوں حساس مقامات پر عملاً ایسا کیا گیا ، عوام نے جلاؤ گھیراؤ دفاعی تنصیبات سے اٹھتے ہوئے شعلے اور شہدا کی یادگاروں کو ٹوٹتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایسا لگتا تھا کسی دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہو ، ملکی سیاسی تاریخ کا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے یہ شرم ناک ، ناقابل فراموش واقع قومی سلامتی کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشی بدحالی میں اس قسم کی شرانگیزی سیاسی استحکام اور ملکی ترقی میں سب بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ عرصے سے ملک میں ایسی سیاسی ہلچل مچی ہے جس نے قوم ،ملک،سلطنت کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کبھی سری لنکا اور بنگلہ دیش بننے کی کہانی سنا کر قوم کو ڈرایا گیا اور اب بنگلہ دیش جیسے حالات کی باتیں کی جارہی ہیں لیکن ناعاقبت اندیش یہ نہیں جانتے کہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ پاکستان سلامت رہے گا تا قیامت رہے گا ، اور پاکستان ریے گا تو ہم سب رہیں گے۔عوامی حقوق کے نام پر سیاسی بہروپیوں کو پنجابی،پٹھان،سندھی اور بلوچیوں کو آپس میں لڑا کر اپنی سیاسی دکان سجانے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ پنجابی ،پٹھان ،سندھی ،بلوچی سب گلدستہ پاکستان کے پھول ہیں ،مٹھی بھر علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا وہی حشر ہو گا جو بنگلہ دیش بنانے والوں کا ہوا۔گذ شتہ ماہ اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر پی ٹی آئی کے جلسے میں مقررین کی جانب سے نفرت انگیز تقاریر میں جو بدزبانی اور بد کلامی کی گئی کوئی بھی محب وطن اس کی حمایت نہیں کرسکتا صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے پاک فوج اور صحافیوں پر لفظی گولہ باری کی اور پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ کو جس لب لہجے میں قابلِ اعتراض سخت جملوں کا استعمال کرتے ہوئے مخاطب کیا یہ قابل مذمت ہے،اسکے بعد لاہور میں کاہنہ کے مقام پر جلسہ کرکے طوفان بدتمیزی کرنے کی ایک بار پھر ناکام کوشش کی گئی لیکن اس بار یہ جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہ سکے۔ اڈیالہ جیل سے پارٹی لیڈر کی جانب سے جب یہ سب کچھ کرنے والے کو داد و تحسین ملے گی اور اس کی پشت پناہی کی جائے گی تو پھر یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے افغانستان سے مذاکرات کے متعلق جو کچھ کہا یہ انکی ریاست سے باغیانہ سوچ کی عکاس ہے۔8, فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے لیکن انتخابات کو بھی کم وپیش آٹھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے محاذ آرائی کا سلسلہ رکنے کی بجائے مزید تیز تر ہو تا جا رہا ہے اور سیاسی تناؤ میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ حسب روایت اقتدار سے محروم سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور دن بدن سیاسی صورتحال مزید کشیدہ ہو رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور نئے الیکشن کا مطالبہ کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کی اگر بات کی جائے تو ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی الیکشن ایسے نہیں ہوئے جو متنازع نہ ہوں۔کبھی 35 پنکچرز لگے،کبھی آر ٹی ایس بیٹھ گیا اور اب فارم 45 اور 47 کے تحت دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے۔ دراصل انتخابی دھاندلی کا کھیل ہارنے اور جیتنے والے دونوں فریق مل کر کھیلتے ہیں اس لیے عوام کو کبھی اس کی سمجھ نہیں آتی اور کبھی تو یہ اقتدار ملنے کی خوشی میں اتنے بدحواس ہو جاتے ہیں کہ جیت سے قبل ہی بتانے لگتے ہیں کہ ایمپائر کی انگلی کب کھڑی ہو گی۔سیاسی پارٹیوں کی اقتدار کی رسہ کشی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے لیکن ایسا لگتا ہے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست اور انتخابات ہیں اور سیاست بھی ایسی جو جھوٹ فتنہ وفساد اور منافقت پر مبنی ہے، اور انتخابات بھی ایسے جس میں ہارنے والے کبھی انتخابی نتائج تسلیم نہیں کرتے ،ملک وقوم کی کسی کو پروہ نہیں۔حکومت اور اپوزیشن کو مل کر عوامی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی لیکن بدقسمتی سے ان کے اپنے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ انھیں عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں، کوئی اڈیالہ میں یے اور کچھ وہاں سے ہو کر اچکے ہیں۔ حکومتی توجہ عوامی مسائل کی بجائے اقتدار بچانے کی طرف مرکوز ہے اور حزب اختلاف حکومت کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہے جبکہ ائی پی پیز کی لوٹ مار کی وجہ سے عوام پر بجلی کے بلوں کا عذاب نازل ہے۔ بجلی ،گیس کے بلوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ سے پریشان عوام اپنی گھریلو اشیائ بیچ کر بلز ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی، گیس کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے جہاں عام آدمی کو متاثر کیا ہے وہاں تاجر برادری اور کاروباری طبقہ کے لئے بھی کاروبار جاری رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی تبدیلی سے یہ سب مسائل حل ہو جائیں گے بجلی ،گیس کے بلوں میں کمی اور مہنگائی کم ہو جائے گی۔ اگر کسی سیاسی ارسطو کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی نسخہ کیمیا اور آلہ دین کا چراغ ہے تو وہ دکھائے اور جلائے تاکہ ملک کے چوبیس کروڑ عوام کو اس عذاب سے نجات مل سکے لیکن یہ سب اقتدار کا گورکھ دھندے ہے جو بڑا ہی گندہ ہے اور اس دھندے نے ہمیشہ عوامی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ملکی معیشت جو بڑی مشکل سے بدحالی سے بحالی کی طرف جانا شروع ہوئی نت نئے تجربات سے معاشی میدان میں بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف ہوگا۔دس اپریل 2022؛کو عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے، کے پی کے ، اور پنجاب اسمبلی توڑ نے سے سیاسی اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں جو سیاسی بحران آیا آج تک نہ ملک اس بحرانی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکا اور نہ ہی معیشت اس بہنور سے نکل سکی،چنانچہ محاذ آرائی کی سیاست سے نہ تو سیاسی استحکام آئے گآ اور نہ ہی معیشت بہتر ہو سکے گی ،اس طرز سیاست سے کاروبار سیاست تو چل سکتا ہے ملک اور معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور ، انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنا اور نئے انتخابات کا مطالبہ سیاسی جماعتوں کا معمول بن چکا ہے۔ اپوزیشن کے زیر نظر اس وقت صرف دو نکاتی ایجنڈا ہے نمبر ایک اقتدار کے لیے لڑائی اور نمبر دو بانی پی ٹی آئی کی رہائی اسکے لئے ایوان کے اندر ،باہر ، سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم ،گالم گلوج اور خواتین کے متعلق جو زبان استعمال کی جارہی ہے بحیثیت قوم ہم سب کے لیے باعث شرمندگی وندامت ہے۔ حدود وقیود سے بالا نفرت انگیز سیاست سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ غریب کو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرنے کے بعد دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ایک وقت کی کھاتا ہے تو دوسرے کی فکر کھائے لیتی ہے لیکن امیر شہر جیل میں بھی دیسی مرغ وہ بھی دیسی کھی کے بغیر کھانا پسند نہیں کرتے۔ ریاست مدینہ بنانے کی باتیں کرنا اور سائیکل کی مثالیں دینا بہت اسان ہے لیکن اہنے دور اقتدار میں کبھی سائیکل نہیں چلائی اور دس کلومیٹر کا فاصلہ بھی کبھی ہیلی کاپٹر کے بغیر طے نہیں کیا۔ وزیراعظم ہاؤس کے درو دیوار آج بھی یونیورسٹی بننے کے انتظار میں ہیں۔ ملک دشمن ایجنڈے پر مبنی سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے حقیقی آذادی اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کے دلفریب نعروں سے شروع ہونے والا سفر ،190 ملین پاؤنڈ ، توشہ خانہ سے لوٹ مار ،ادویات کے شعبہ میں اربوں روپے کے مالی کرپشن اور ریاست کے خلاف 9, مئی کی بغاوت پر اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن سیاست کی آڑ میں ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک منظم سازش کے تحت نقصان پہنچانے والے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل ابھی جاری ہے۔ حساس ادارے کے ایک سابق سربراہ کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے دفاعی ادارے ملکی سلامتی سے ہر گز غافل نہیں اور سرحد کے دونوں جانب ملک دشمن انکی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران پیدا کرنے اور 9,مئی سے جڑے تمام کردار عنقریب قوم کے سامنے بے نقاب ہونے والے ہیں۔ جھگڑے ،فساد ، انتشار ، نفرت کی سیاست اور شہر اقتدار کے ڈی چوک میں ناچنے سے نہ کبھی پہلے تبدیلی آئی تھی اور نہ اب آئے گی،یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی کانفرنس کی تیاری میں مصروف ہے جوکہ 15, اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوگی اس سے پہلے ڈی چوک میں پی ٹی آئی ویسا ہی کچھ کرنے کی تیاری کر رہی ہے جس طرح 2014 میں ڈی چوک میں دھرنا دے کر چائینیز صدر کی پاکستان آمد کے موقع پر کیا تھا جس کی وجہ سے چائینیز صدر کا یہ دورہ منسوخ ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل جو حقیقی آزادی کے لئے سراپائے احتجاج تھے اور قوم کو غلامی سے نجات دلا رہے تھے آج اپنی آزادی کے لئے امریکی ایوان نمائندگان اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ سے اپنی گرفتاری کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی قرارداد منظور کروا کر خوشی سے دھمال ڈال رہے ہیں۔سائیفر امریکی سازش بیانیہ کی آڑ میں جو کھیل تماشہ لگایا گیا وہ سب کے سامنے ہے اس سائیفر کہانی میں کوئی میر جعفر بنا تو کوئی میر صادق جس نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دیا انھیں امریکی غلام اور غدار کہا گیا۔ سیاسی مخالفین کی کردار کشی کی گئی انھیں چور ،ڈاکو کے القابات سے نوازا گیا۔ سیاسی جدو جہد میں پر امن احتجاج سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے لیکن انتشار ،دنگا فساد کو سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ نئے انتخابات کسی مسئلے کا حل نہیں ،محاذ آرائی کی سیاست ترک کر کے موجودہ حکومت کو کارکردگی کا پورا موقع دینا چاہیے تاکہ حکومت کے تمام وعدوں اور دعووں کے مطابق کارکردگی عوام کے سامنے آسکے اور عوام آئندہ انتخابات میں کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔
