وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردی اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے، ملکی ترقی اور خوشحالی سب سے اہم پہلو ہے، معاشی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا، وزیر اعظم نے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا پاکستان کی معیشت آہستہ آہستہ استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں وفاقی، صوبوں اور سب کا بے پناہ کردار ہے۔ آج پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی سب سے اونچی سطح اور مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے۔ملک میں آئی ٹی کی ایکسپورٹس اور بیرونی ترسیلات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، یہ تمام اشاریے اس بات کا عندیہ ہے کہ استحکام آہستہ آہستہ آرہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کھل گئے ہیں، یہ صرف تب ممکن ہوگا جب ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ہو۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی استحکام اور بہتری امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، 2014 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں جب دہشت گردوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں پوری قوم اور قیادت یکجا تھی، 2018 میں پاکستان سے دہشت گردی کا قلع قمع کیا پورے پاکستان سے 80 ہزار افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تب جاکر ملک سے اس ناسور کو ختم کیا گیا، ملکی معیشت کو 130 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور جنوبی اضلاع میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بدترین درندگی ہے، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔دہشت گردی کی ہر کارروائی پر بہت شور مچتا ہے۔ مذمتیں ہوتی ہیں، رپورٹیں طلب کی جاتی ہیں لیکن گزشتہ تقریبا ایک دہائی کے دوران حکمران سیاست اور ریاست دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ہر دوسرے عذاب کی طرح دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق بھی غریب طبقے سے ہے۔ مرنے والے زیادہ تر باوردی اور بے وردی افراد بھی محنت کش ہیں اور حفاظتی اقدامات کے لئے لگائے گئے ناکوں پر ذلیل بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ لی جانے والی تلاشیاں ہوں یا شک کی بنیاد پر گرفتاریاں، پھنستا غریب ہی ہے۔ ہر سڑک پر چیک پوسٹ ہے، ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر سخت سیکیورٹی نے عام لوگوں کی روز مرہ زندگی کو اور بھی تلخ کردیا ہے۔ لیکن یہ تمام تر ریاستی اقدامات دہشت گردوں کے لئے انتہائی بے ضرر ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں نے جہاں بم دھماکہ کرنا ہوتا ہے، کرتے ہیں۔ جسے مارنا ہو، دن دہاڑے مارتے ہیں اور درجنوں ناکوں کے بیچ میں سے باآسانی فرار ہوجاتے ہیں جس کے بعد شروع ہونے سرچ آپریشن کا عذاب غریب ریڑھی والوں اور دہاڑی دار مزدوروں پر ٹوٹ پڑتا ہے۔دنیا کو دہشت گردی کے عالمی پھیلاﺅ کا سامنا ہے۔ دہشت گردی ایک ناسور ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔پاکستان پوری دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ پاکستان کے تقریبا تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن صوبہ خیبرپختونخوا کا دارالحکومت تو ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں سیاسی علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ دہشت گرد حملوں میں ہزارہا افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہواہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاﺅنٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرائع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی انٹےلی جنس ایجنسی را مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لئے بھارتی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔اے پی اےس سانحہ کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے آپریشن شروع کرنے اور ان کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں بے شماردہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور کئی کو گرفتار کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاک فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے دن رات برسرپیکار ہیں اور اس میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں ۔پاک فوج نے ضرب عضب اور رد الفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی بیخ کنی کی۔ اب کچھ عرصہ سے ٹی ٹی پی اور داعش بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے پھر سر اٹھانے لگی ہیں اور اپنی شیطانی ذہنیت کے ساتھ غیر انسانی کارروائیاں کر رہی ہیں۔پاکستان کو معیشت کے بحران کیساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے اور دہشت گردوں کو کچلنے کا سخت جنگ لڑ رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر سیاسی اور وطن مخالفت عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔افغانستان میں پاکستان دشمن منصوبوں کی تیاری، عملدرآمد، پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور انکی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزیئر افغان عبوری حکومت کو فراہم کر دی گئی تھےں لیکن افغان حکومت نے پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا بلکہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان سرزمین علاقائی دہشت گردگروہوں کو دستیاب ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں نیٹو کے چھوڑے ہوئے ہتھیار بھی دہشت گردوں کی دسترس میں ہیں۔نیٹو کے وہ ہتھیار جو افغان سےکیورٹی فورسز کو فراہم کیے گئے تھے اب القاعدہ اور داعش خراسان کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔یہ دہشت گرد تنظیمیں یہی ہتھیار علاقائی ممالک کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔ اگرچہ سےکیورٹی ادارے اس حوالے سے مستعد ہیں اور اپنا کام پوری تندہی سے کر رہے ہیں۔قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک کے سےکیورٹی اداروں کی کو ششیں قابلِ تحسین ہیں مگر یہ بھی ضروری ہے کہ پوری قوم اس چیلنجنگ صورتحال میں اتحادو اتفاق کا ثبوت دے۔ مثالی امن کا قیام اسی صورت ممکن ہے۔اس وقت پورا ملک کو ایک بار پھر سنگین دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں ہمیشہ کی طرح افغانستان سے جڑے ہمارے دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان شکار ہو رہے ہیں۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سےکیورٹی سٹڈیز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال پاکستان میں دہشت گردی کے 506 واقعات ہوئے اور زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیش آئے۔ 2022 سے 2023 تک ہونے والے نوے فیصد دہشت گردی کے حملے سےکیورٹی اور حکومتی اہلکاروں پر ہوئے ہیں اور ابھی تک جاری ہیں، جن میں اےک ہزار پاکستانی اپنی جانوں سے گئے جبکہ مجموعی طور پر 1714 افراد دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کا نشانہ بنے۔ تواتر اور شدت کے ساتھ ان دہشت گردی کے واقعات کو دیکھ کر ہر پاکستانی کے ذہن میں ایک ہی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا پھر ایک بار ملک میں دہشت گردی کا دور واپس آرہا ہے؟ پاکستان میں تقریبا ڈیڑھ سال سے جاری اس دہشت گردی کی لہر کے بنیادی اسباب میں جہاں حقیقی ورلڈ رجیم چینجنگ اور نئے عالمی بلاکس کا قیام ہے، وہاں اندرون خانہ قومی سیاسی منظر نامہ اور دو ٹوک قومی سلامتی پالیسی پر سٹینڈ لینا شامل ہے۔ نئے عالمی بلاک کی بات کی جائے تو افغانستان سے امریکہ کا فرار اور طالبان کی واپسی نے پاکستانی دہشت گر د طالبان کو ہمارے خلاف ایک بار پھر آزادی سے طبل جنگ بجانے کی ہلاشیری دی۔ایک دوسرا اہم سبب نیشنل سےکیورٹی کونسل کا افغان مہاجرین کی واپسی اور غیر قانونی تارکین وطن کا پاکستان سے انخلا کا حتمی اور پختہ فیصلہ ہے جس کا افغان حکومت اور دنیا بھر سے پاکستان کے کھلے ڈھکے دشمنوں کی جانب سے ہضم نہ ہونا ہے کیونکہ ان مہاجرین کی آڑ لے کر اور ان کو استعمال کر کے پاکستان میں دہشت گردی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہونے کی امید قوی ہوتی جارہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابھی افغانیوں کو پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ باڑ کے نصب ہونے کا دکھ ہی نہیں بھول رہا تھا کہ اوپر سے انخلا کا فیصلہ دہشت گرد ٹولے کی تکلیف کا سبب بنا۔ یہ بات بھی طے ہے کہ امریکی اور اتحادی افوا ج کے دورمیں پاکستان میں افغانستان میں قائم بھارتی سیل کھلے بندوں دہشت گردی کا موجب تھے۔ اب افغان طالبان خود اس کے ذمہ دار اور سہولت کار ہیں۔