راجہ کے ٹو سے پہلی اور آخری ملاقات

ناصرشمیم

 گلگت بلتستان میں صحافت کے بانی نوجوان رائٹر جناب راجہ حسین خان مقپون عرف راجہ کے ٹو سے پہلی اورآخری ملاقات کی روداد آپ قارئین کے خدمت  میں ان کی تیرہ ھویں برسی کے موقع پر انہی کی زیرادارت شائع ہونے والے اخبار روزنامہ کے ٹو میں شائع ہونے والی خصوصی اشاعت کی وساطت سے آپ تک گوش گزار کرنے کی جسارت کررہا ہوں امید ہے آپ قارئین کو پسند آئے گی الحمدللہ ۔ راجہ کے ٹو سے میری دوستی پچین سے تھی راجہ مرحوم نے اخبار کی اشاعت سے قبل جب وہ اخبار کی اشاعت کاپروگرام بنارہے تھے اور اس حوالے سے راجہ مرحوم اہم شخصیات سے مختلف مشورے لے رہے تھے مجھے یاد ہے جب راجہ اخبار کی اشاعت کے سلسلے میں مشورہ لینے کیلئے سب سے پہلے بلتستان کی ایک سیاسی شخصیت  کے گھر گئے انہوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کا کہہ دیا تو راجہ صاحب کے حکم پر میں بھی ساتھ ہولیا وہاں ان کے گھر پہنچ کر اخبار کی اشاعت کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی کیونکہ وہ  سیاسی شخصیت بھی گلگت بلتستان کے اولین صحافیوں میں سے ہے اور ان کو اس حوالے سے کافی تجربہ تھا ان کے زریں مشوروں کے بعد ہم وہاں سے نکل کر بلتستان کے ایک اور معروف کاروباری شخصیت کے گھر بھی گئے وہاں گھنٹوں تک بات چیت ہوتی رہی  وہاں سے بھی ان کے زریں مشوروں سے استفادہ کرکے واپس آگئے ۔یہاں یہ سب  لکھنا اپنے لئے باعث فخر محسوس کرتا ہوں کہ راجہ صاحب کے صحافتی آغاز میں سب سے پہلے ان کے ہمراہ بندہ ناچیز بھی تھا اور میں خود بھی یہ بات برملا کہتا رہتا ہوں کہ کے ٹو اخبار کی اشاعت کے ابتدائی دنوں میں راقم بھی ساتھ تھا اور اس اخبار کے بانیوں میں سے ہوں اس کے فورابعد راجہ صاحب نے اسکردو سے اخبارکا ڈیکلریشن حاصل کرکے غالبا 1995 میں باقاعدہ اخبار ہفت روزہ کے طور پر شائع کرنا شروع کردیا۔ اشاعت کے بعد راقم کو ضلع کھرمنگ کا نمائندہ منتخب کیا اسی اخبار کی وساطت سے راقم  علاقے کے مسائل اور لوگوں کے مطالبات ایوانوں تک پہنچاتا رہا کافی عرصے تک کے ٹواخبار سے منسلک رہا۔کچھ عرصے میں راقم کو سرکاری  ملازمت مل گئی  اور اخبار سے رابطہ منقطع ہوگیا لیکن راجہ کے ٹو صاحب سے تعلقات رہے اور جب بھی راجہ صاحب اسکردو آتے مجھ سے ملے بغیر نہیں جاتے تھے اور جب راقم اسلام آباد جاتا تھا تو راجہ صاحب میری اسلام آباد آمد کی خبر سن کر خود رابطہ کرتے تھے اور ان سے ملنے کے بعد راجہ اپنی گاڑی کے فرنٹ سیٹ پر مجھے بٹھا کر مختلف  مقامات پر اور راولپنڈی اسلام آباد کی اہم شخصیات سے ملنے کو ساتھ لے کر جاتے تھے اسی وجہ سے آج اسلام آباد میں کئی وفاقی سیکرٹری اور وفاقی وزرا سے میری تعلقات قائم  ہیں راجہ صاحب گلگت بلتستان کی صحافت کے علمبردار تھے آپ صحافت کے ذریعے یہاں کے مسائل اور عوامی مطالبات اپنے قلم اور اخبار کے ذریعے اعلی ایوانوں تک پہنچاتے رہے ان کی اس محنت اورلگن کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کو بھی ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح  شناخت ملی۔ اخبار کی اشاعت کے بعد کافی مشکلات برداشت کیں ۔ایک دفعہ گلگت بلتستان کے ایک اہم محکمے کی کوتاہی کی نشاندہی کرنے پر ان کے اخبار کے ٹو کا ڈیکلریشن  منسوخ کردیا لیکن راجہ صاحب نے ہمت نہیں ہاری انہوں نے جب اسکردو سے ڈیکلریشن منسوخ ہوا تو راتوں رات خپلو جاکر وہاں کے ڈپٹی کمشنر کو اخبار کے نئے ڈیکلریشن کیلئے درخواست دی تو اس وقت ڈی سی صاحب خپلو ضلع سے باہر گئے ہوئے تھے اس وقت کے ایڈمن آفیسر میرے سسر جناب بابو نثار حسین نے اپنے دستخط سے راجہ صاحب کو فورا این او سی جاری کردیا لیکن ان کی کوششوں سے اخبار کااجرا مسلسل جاری رہا یہ بھی راجہ حسین خان مقپون کی ہمت تھی ان کی کوششوں سے محکموں کے بڑے بڑے بے بس ہوگئے ۔اخبار ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہونے دیا۔راجہ کے ٹو ایک باہمت پرعزم صحافی تھے راجہ حسین خان مقپون سے میری آخری ملاقات 2011کے دستمبر میں ہوئی جب راقم اسلام آباد گیا اور راجہ صاحب کو میری آمد کا علم ہوا تو وہ خود چل کے راوپنڈی میں موجود مہدی آباد ہائوس میں مجھ سے ملنے کیلئے پہنچ گئے اور وہ  مجھے بھی اپنے ساتھ اپنے گھر  لے کر گئے۔ان کے دولت کدے میں رات گئے تک اہم ایشوز پر بات ہوتی رہی راجہ صاحب  گلگت بلتستان کے حقوق کی بات کرتے تھے  وہ گلگت بلتستان کے ایک الگ خود مختار صوبے کے بڑے حامی تھے یہ ان کی بہت بڑی خواہش بھی تھی۔راجہ کے ٹو  یقینا یہ ارمان دل میں لیے 26 فروری 2012 کو لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے شیخوپورہ کے نزدیک کار حادثے میں جان کی بازی ہار گئے۔یہ راجہ صاحب سے میری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ آخر میں میری دلی دعا ہے کہ ان کے فرزند جناب راجہ کاشف حسین مقپون کو اپنے والد جناب راجہ کے ٹو مرحوم کے ادھورے خواب کی تعبیر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ تعالی مرحوم راجہ حسین مقپون عرف راجہ کے ٹو کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔