صدر مملکت آصف علی زرداری نے متنازع پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمزپیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 پردستخط کردیے ہیں۔بل میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا تحفظ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائیگی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی سہولت کاری کریگی اور انہیں فروغ دیگی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے آن لائن تحفظ اور حقوق کو یقنی بنائیگی۔سوشل میڈیا تحفظ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان سے قابل رسائی غیر قانونی اور اشتعال انگیز مواد کو ریگولیٹ کریگی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کریگی یا منسوخ اور معطل کریگی۔اتھارٹی ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جزوی اور مکمل بلاک کریگی، اتھارٹی کسی درخواست پر ایکشن لیگی، اتھارٹی خلاف ورزی پر جرمانہ کریگی، اتھارٹی متعلقہ حکام کو غیر قانونی اور توہین آمیز موادکو تیس روز کے لیے بلاک کرنے یا ہٹانے کی ہدایت کرے گی، تیس دن مزید توسیع بھی ہو سکے گی۔جعلی یا غلط معلومات سے متاثرہ شخص معلومات کو بلاک کرنے یا ہٹانے اتھارٹی کو درخواست دے گا، اتھارٹی 24 گھنٹے میں اس پر فیصلہ کریگی، اتھارٹی میں چئیرمین اور آٹھ ارکان ہوں گے، اتھارٹی میں سیکرٹری داخلہ، چئیرمین پی ٹی اے اور پیمرا ارکان ہوں گے، چیئرمین اور ممبران کی تقرری پانچ سال کے لیے ہوگی، عمر اٹھاون سال سے زیادہ نہ ہو۔اتھارٹی میں پریس کلب کا رجسٹرڈ صحافی، سافٹ ویئر انجینیئر ، وکیل ، سوشل میڈیا پروفیشنل ، آئی ٹی پروفیشنل بطور ممبران ہوں گے،اتھارٹی کے فیصلے کثرت رائے سے ہوں گے، چیئرمین کے پاس غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے اور فوری ایکشن لینیکا خصوصی اختیار ہوگا، البتہ اتھارٹی اس کی اڑتالیس گھنٹے میں توثیق کریگی۔اتھارٹی ایسے مواد کو بلاک کرے گی یا ہٹائے گی جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جو عوام کو قانون کی خلاف ورزی کرنے ، قانون ہاتھ میں لینے پر اکسائے ، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جس کا مقصد عوام ، افراد ،گروہ ، حکومتی آفیشل یا اداروں کو ڈرانا ، دہشت زدہ کرنا یا مجبور کرنا ہو، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو عوام کو سرکاری یا نجی پراپرٹی تباہ کرنے پر اکسائے، ایسا مواد بلاک کیا جائے گا جو ڈرا کر عوام کو ان کی قانونی تجارت کرنے سے روکے ، شہری زندگی متاثر کرے۔ایسا مواد بھی بلاک کیا جائیگا جو مذہب ، فرقے، نسل کے خلاف توہین یا نفرت پر اکسائے جس سے تشدد کو ہوا ملے، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جس میں نازیباں ، عریاں مواد ہو، ایسا مواد بلاک ہو گیا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ جعلی اور غلط ہے، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جو ممبران عدلیہ، آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے خلاف بہتان لگائے، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرے یا ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف تشدد پر اکسائے۔اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف شدہ معلومات کو سوشل میڈیا پر نشر نہیں کیا جائیگا، کالعدم تنظمیوں اور ان کے نمائندوں کے بیانات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشر نہیں کیے جائیں گے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شکایات کو دیکھنے شفاف اور مثر طریقہ کار اپنائیں گے، سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بنائی جائیگی، اتھارٹی کی ہدایت پر عمل نہ ہونے یا خلاف ورزی پر اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کریگی، سوشل میڈیا تحفظ ٹربیونل قائم کیے جائیں گے۔سوشل میڈیا تحفظ ٹربیونل میں ہائی کورٹ کی اہلیت کا جج چیئرمین ہو گا، ٹربیونل میں صحافی ، سافٹ ویئر انجینیئر ہوں گے، اتھارٹی سے متاثرہ فریق، ٹربیونل سے رجوع کرسکتا ہے، ٹربیونل سے متاثرہ شخص ساٹھ دن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔غلط یا جعلی معلومات دینے پر تین سال تک سزا، بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔جو شخص دانستہ طور پر غلط یا جعلی معلومات دے جس سے عوام میں خوف ، انتشار ، بے چینی پھیلے اسے سزا ہوگی۔تحقیقات، انکوائری، پراسیکیوشن کے لیے نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائیگی، نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ ختم ہو جائیگا۔قبل ازیں قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی بل منظور ہو گیا ایکٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی اور احتجاج کیا جب کہ صحافیوں نے سینیٹ اجلاس کی کارروائی کے دوران واک آوٹ کیا۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے کہا کہ ہم اس بل کی حمایت نہیں کررہے، وزیرکی باتیں درست ہیں کہ جھوٹ پرمبنی خبرپھیلانے کوکوئی سپورٹ نہیں کرتا، کوئی شراکت دار اس میں شامل نہیں، بل کا طریقہ کار درست نہیں، جو کیسز ہیں اس کے لیے نہ ادارہ بنا، نہ جج ہیں، نہ وکیل۔سینیٹ اجلاس میں جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ پیکا ایکٹ پر میری ترامیم تھیں جنہیں نہ کمیٹی نے منظور کیا گیا اور نہ ہی مسترد کیا گیا، یہ قائمہ کمیٹی کی نامکمل رپورٹ ہے۔بل کی منظوری کے بعد پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ صحافی برادری ملک بھر میں یوم سیاہ منارہی ہے، ہم اس بل کو عدالت میں بھی چیلنج کریں گے جس پر وکلا سے بات چیت جاری ہے، ہم حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ اس پر ہم سے مشاورت کرے۔حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے، پانچ اراکین میں دس سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنئیر بھی شامل ہوں گے، اس کے علاوہ اتھارٹی میں ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ مزید تفصیلات پڑھیں۔۔ وفاقی حکومت نے بائیس جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان نے پریس گیلری میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ میڈیا اور آزادی اظہار رائے کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ میڈیا کا گلہ گھونٹا جائے۔ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کی جائے گی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں وہ ملاقاتیں خود کرنی ہوں گی۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس کیے جانے والے اِس حکومتی بِل پر نہ صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔قومی اسمبلی میں ہونے والے ہنگامے کے دوران وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ صحافیوں کے پاس گئے اور دعوی کیا کہ یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔حزب مخالف کی جماعتوں اور پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس بِل کی منظوری کی سخت مذمت کی ہے جبکہ متعدد صحافتی تنظیموں نے اس ترمیمی بِل کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن۔اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی جبکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیا جا سکے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔اس بِل کو قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ اور اس کے بعد ایوانِ زیریں میں پیش کیے جانے کے دوران سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی اس پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس بل کا مقصد سوشل میڈیا پر لگام ڈالنا ہے کیونکہ اب وہی پلیٹ فارم بچے تھے جن پر لوگ حکومت کے کرتوت سامنے لاتے تھے۔ پہلے حکومت نے فائر وال لگائی، اس سے کام نہیں بنا تو اب یہ بِل لے کر آئے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا آپ کو کسی کا اکائونٹ یا اس سے کی جانے والی بات اچھی نہیں لگتی تو اس کو اٹھا لیں۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان نے بھی جلد بازی میں منظوری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ اس معاملے پر قومی اسمبلی میں بحث کروا لی جاتی۔انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس حق میں نہیں کہ لوگوں کی آواز کو دبایا جائے۔پیکا ایکٹ پر صحافتی تنظیموں کے خدشات درست ہیں اس لیے حکام بالا کو چاہیے کہ وہ ان تنظیموں سے مشاورت کو ممکن بنائے ۔
