مذاکرات بھی ہو گئے، اب کیا ہو گا؟

 سید مجاہد علی 

صدر آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمان اور صحافیوں کو تشفی دلانے کے چند ہی گھنٹے بعد پیکا کے ترمیمی بل پر دستخط کر کے اسے باقاعدہ قانون کی شکل عطا کردی ہے۔ اب حکومت کسی بھی شخص کو جھوٹ پھیلانے اور جعلی یا جھوٹی خبریں عام کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے اسے تین سال قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دلا سکتی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے عجلت میں حکومت کے ساتھ وہی مذاکرات ختم کر دیے ہیں جن کا انجام درحقیقت ان کا آغاز ہونے سے بھی پہلے دکھائی دے رہا تھا۔حکومت کہتی ہے کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ پیکا آزادی رائے پر حملہ نہیں ہے اور صحافیوں کو اس پر ہرگز پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے صحافیوں کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ اس قانون میں نئی شق تو دراصل ان لونڈوں لپاڑوں کا مزاج درست کرنے کے لیے قانون کا حصہ بنائی گئی ہے جو ہر روز خبر یا معلومات کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ پھیلانے اور اس کی بنیاد پر سیاسی بے اطمینانی پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ صحافی تنظیمیں بھی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں۔اسی لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس میں جب اس ترمیمی بل کو منظور کیا گیا تو صحافیوں نے بھی احتجاجا واک آئوٹ کیا اور کہا کہ یہ تو آزادی رائے پر حملہ ہے۔ اس کے جواب میں حکومت سادگی سے سوال کر رہی ہے کہ جھوٹ کی روک تھام کرنا کہاں سے آزادی رائے کا معاملہ ہو گیا؟ اس سوال کا جواب اس لیے واجب نہیں ہے کیوں کہ یہ حکومت تو رائے کی آزادی تو کیا ووٹ کی آزادی پر بھی یقین نہیں رکھتی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر متعدد بار براہ راست اور بالواسطہ طور سے واضح کرچکے ہیں کہ اس وقت ملک کو معاشی طور سے پائوں پر کھڑا کرنے اور قومی پیداوار میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ ملکی تاریخ کے اس نازک مرحلے یا موڑ پر دیگر عیاشیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ البتہ ایک سویلین وزیر اعظم کو منتخب وزیر اعظم قرار دے کر اگر کوئی ملک کو جمہوری قرار دیتا ہے یا اس غلط فہمی میں مبتلا رہنا چاہتا ہے تو ملکی حکومت جو خود کو منتخب قرار دیتی ہے یا اس کے غیر منتخب سرپرستوں کو اس خوش گمانی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔پیکا میں ترمیم کے ذریعے صرف جھوٹ پھیلانے اور نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے، اس لیے معصوم حکومت کا یہ ماننا ہے کہ اس پر تو صحافیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کے جھوٹے مدمقابل اب میدان سے بھگا دیے جائیں گے اور میڈیا بڑے اطمینان سے وہی سچ عوام تک پہنچانے میں آزاد ہو گا جو وہ پہلے بھی پوری تندہی و مستعدی سے عام کرنے کا فرض انجام دے رہا ہے۔ حکومت ان معنوں میں بھی معصوم کہی جا سکتی ہے کہ اسے اپنی طاقت کا اصل منبع معلوم ہونے کے باوجود یہ گمان ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں اکثریت نے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا ہے۔ جبکہ ملک بھر میں فارم 45  اور 47 کی بحث پوری شدت سے جاری رہنے کے بعد اب مدھم پڑنے لگی ہے۔ اس بحث کا صرف یہی مقصد تھا کہ عوام میں یہ تاثر پھیلایا جائے کہ انہوں نے جن لوگوں کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کیا تھا، انہیں درحقیقت فارم 47 کی جعل سازی میں چھپا دیا گیا اور من پسند لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیج دیا گیا، اس لیے اس پارلیمنٹ کو جائز عوامی نمائندہ نہیں مانا جاسکتا۔دوسری طرف حکومت سادگی سے یہ پوچھتی ہے کہ یہ پارلیمنٹ جعلی یا غیر نمائندہ کیوں کر ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر حقیقی آزادی کی چیمپئن تحریک انصاف کے نمائندے بدستور اس کے رکن کیوں ہوتے۔ وہ تو پارلیمانی کارروائی کا حسب توفیق واک آئوٹ کر کے یا عمران خان کو رہا کرو کے نعرے لگا کر اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ تاکہ کوئی جمہوریت دشمن یہ دعوی نہ کرسکے کہ ان لوگوں نے تو پارلیمانی کارروائی میں حصہ ہی نہیں لیا تو یہ مفت کی تنخواہیں اور مراعات کس کھاتے میں وصول کر رہے ہیں۔شہباز حکومت کو اس حوالے سے بھی معصوم اور سادہ ہی سمجھنا چاہیے کہ اسے ابھی تک یہی بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر 2018  میں جھرلو کے ذریعے جسے آر ٹی ایس کا نام دیا گیا تھا، ایک جعلی یا غیر نمائندہ حکومت قائم کی جا سکتی تھی تو کیا وجہ ہے کہ 2024  میں بھی اسی تجربے کو دہراتے ہوئے شہباز شریف کی قیادت میں ایک نئی جعلی حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ لوگوں کو دیانت داری سے یہ دیکھنا چاہیے کہ اختیار تو انہی ہاتھوں میں ہے جن کے پاس ہونا چاہیے۔ جنہیں آئین تو اس اختیار پر تصرف کا حق نہیں دیتا لیکن ملکی روایت اور سیاست دانوں نے اتفاق رائے سے اس اختیار کو آئین سے بھی بالادست مان کر آمنا و صدقنا کہہ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے خواہشمند بھی ایک ہی دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں اور وہ انہیں ماورائے آئین قوتوں سے ہتھ جوڑی کا راستہ ہے جو بوجوہ تحریک انصاف کے لیے مسدود کیا جا چکا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پیکا قانون میں ترمیم بھی درحقیقت اس راستے کو مشکل بنانے ہی کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ حکومتی نمائندے شاید آف دی ریکارڈ صحافیوں اور ان کے نمائندوں کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن بسا اوقات بعض بات سمجھ کر بھی اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔اسی غیر یقینی کے عالم میں سینیٹ سے پیکا قانون میں ترمیم منظور ہو جانے کے بعد صحافیوں کا وفد ہر مسئلہ کا مجرب علاج فراہم کرنے والے حکیم مولانا فضل الرحمان کے پاس پہنچا اور انہوں نے صحافیوں کے احتجاج میں اپنی آواز ملاتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ صدر آصف زرداری کو ابھی مطلع کرتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملائے بغیر اور ان کی رائے سنے بغیر اس قانون پر دستخط نہ کیے جائیں۔ صدر زرداری بھلا مولانا کی سفارش کیسے ٹالتے۔ انہوں نے فوری طور سے اقرار کیا کہ وہ کچھ دیر پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کی رائے کا انتظار کرلیتے ہیں۔ یہ وعدہ کر کے صدر نے بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، آرام سے لنچ کیا اور قیلولہ کرنے کے بعد فرمایا: لائو بھئی اب پارلیمنٹ سے آئے ہوئے قانون کے مسودوں پر دستخط کا کام بھی نمٹا دیا جائے۔ لیجیے ہینگ لگی نہ پھٹکری، زرداری آزادی رائے پسند بھی ہو گئے اور قانون بھی نافذ ہو گیا۔ شاید اسی کے لیے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا محاورہ مستعمل ہوا ہے۔اب یہ طے ہونا باقی ہے کہ  کس جھوٹ کو پکڑا جائے گا اور کس جھوٹ پر نئی اتھارٹی فیک نیوز کے الزام میں چھاپے مارنے اور گرفتاریاں کرنے کا کام کرتی ہے۔ متعدد صحافیوں اور میڈیا ہائوسز کا شاید یہ مسئلہ بھی رہا ہو کہ جب قانون میں جھوٹ پھیلانے یا نشر کرنے کو ہی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے تو وہ اپنے خبر ناموں میں آخر کیا نشر کریں گے؟ کوئی یہ سوال بھی کر سکتا ہے کہ کیا یہ کہنا کہ ملک میں اس وقت عوام کی منتخب حکومت کام کر رہی ہے، جھوٹ بتانے اور پھیلانے کے زمرے میں آئے گا یا اسے نظریہ ضرورت کے تحت سچ کا درجہ دے کر نظر انداز کرنے کا حکم صادر ہو گا۔ بلکہ یہ ایک ایسا قومی جھوٹ ہو گا جسے پورے اعتماد سے عام صحافی سے لے کر وزیر اعظم تک نہ صرف بول سکتا ہے بلکہ جس حد تک ممکن ہو نشر کر کے، عام کر کے اور شیئر کر کے ثواب دارین بھی حاصل کر سکتا ہے۔اس دوران تحریک انصاف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیکا میں ترامیم کے خلاف شور مچانے اور اجلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا بائیکاٹ بھی کیا۔ عمران خان نے ان مذاکرات کے نتیجہ کو جانچنے اور حکومت کی نیت کا امتحان لینے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اگر اس تاریخ تک پی ٹی آئی کے دو بنیادی مطالبات نہ مانے گئے تو وہ مذاکرات سے دست بردار ہوجائیں گے۔ البتہ اس دوران نہ جانے کون سی ناگہانی کیفیت رونما ہوئی کہ تحریری مطالبوں پر حکومتی وفد کا جواب جانے بغیر ہی اڈیالہ جیل سے یہ حکم صادر ہوا کہ حکومت اگر نو مئی اور 26  نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن نہیں بناتی تو تحریک انصاف مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی۔ حکومتی وفد کے ترجمان عرفان صدیقی نے بڑی درد مندی سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کمیٹی تحریک انصاف کے مطالبوں پر ہمدردی سے غور کر رہی ہے۔ وہ اجلاس میں آ کر ہماری بات تو سنیں لیکن تحریک انصاف کا مرغ ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے کا اعلان کر چکا تھا اور اس میں تبدیلی کسی ایرے غیرے کے بس میں نہیں تھی۔28 جنوری کو سردار ایاز صادق کے بلائے ہوئے اجلاس کو تحریک انصاف نے حقارت سے مسترد کر دیا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس کے باوجود اپنے دروازے کھلے رکھنے کے علاوہ کہا ہے کہ ایک اجلاس میں تحریک انصاف کے نمائندوں کی غیر حاضری کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اگرچہ عمر ایوب نے مشورہ دیا تھا کہ حکومت مذاکرات کا شوق پورا کرتی رہے۔ یہ لوگ خود ہی مل بیٹھیں اور چائے پی لیا کریں۔ ہمیں ان کی چائے پینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بے چاری چائے۔ بڑوں کی لڑائی میں اس بے چاری کو کیوں رسوا کیا جا رہا ہے۔لیجیے مذاکرات کا شوق بھی پورا ہوا۔ ایاز صادق اور عرفان صدیقی خواہ کیسی ہی خوشگوار باتیں کرتے رہیں، تحریک انصاف کا مرغ اگر ایک ٹانگ پر کھڑا ہے تو حکومت کا پرنالہ بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ایک طرف سے تجاویز پر بات کرنے کی بجائے مطالبے منوانے پر اصرار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف حکومت کی زنبیل میں بھی کوئی ایسی تجویز نہیں تھی جس پر قومی اتفاق رائے کے کسی منصوبے کی بنیاد رکھی جا سکتی۔حکومت تو بتا چکی ہے کہ وہ 26 ویں ترمیم اور پیکا ترمیم جیسے ہتھکنڈوں سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور وہ اس طریقے کو ترک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ تحریک انصاف کو البتہ بتانا ہے کہ مذاکرات کو مسترد کر کے اب آگے کیا ہو گا۔ اس سے پہلے احتجاج کرنے اور اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا شوق پورا کیا جا چکا ہے۔ تحریک انصاف ہٹ دھرمی اور ضد سے جو راستے ہموار کرانا چاہتی ہے، ان کے کھلنے کا امکان نہیں ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ سیاسی پارٹی کے طور پر اب تحریک انصاف کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔حکومت سے بات چیت جاری رکھنا موجودہ مشکل حالات میں ایک آپشن تھا۔ اسے مسترد کر کے تحریک انصاف نے صرف اپنی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔