بدامنی پھیلانے والوں کو انتباہ

گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون نے کہا ہے کہ استور کے امن کو سبوتاژ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائیگا چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں،حکومت کی رٹ ختم ہوئی ہے نہ ہی کمزور ہوئی ہے ،حکومت ایک پہاڑ ہے جوپہاڑوں کو چیر کر ٹنل بھی بناتی ہے۔شمس الحق لون نے کہا کہ گزشتہ پانچ دنوں سے استورکے مختلف مقامات پر چوک بلاک کرکے احتجاج کیا جا رہا تھا کہ پریشنگ میں عبدالرزاق نامی شخص نے گستاخی کی ہے تاہم اس کے خلاف ایف آئی درج کر لی گئی ہے اور اس کی گرفتاری بھی ہوگی، قانون اور آئین سے کوئی بھی بالا تر نہیں ہے، استور پرامن ضلع ہے بدامنی نہیں پھیلانے دیں گے، کوئی یہ سمجھتا ہے سٹیٹ کی رٹ ختم ہوئی ہے یا کمزور ہوئی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، لوگ سرکار کی پالیسی کو کمزوری ہرگز نہ سمجھیں،استور سمیت پورے گلگت بلتستان میں جہاں جہاں قانون کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا ان کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا ،وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ چاہے پریشنگ کا واقعہ ہویا کوئی اور جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آرز ہوئی ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی اورجو سرکاری ملازمین مذہبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی حتمی لسٹ تیار کرنے کے بعد ان کے خلاف بھی سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو لوگ مذہبی فسادات کے ذریعے مجھے بدنام کرنے کی کوشش کررہے تھے آج ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے، دونوں مسالک کے علمائ، عمائدین اور عوام کے درمیان ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کھڑے ہیں، وقت بتائے گا کس نے کیا کیا ہے، جو لوگ میرے خلاف من گھڑت پروپیگنڈے کر کے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں اس پریس کانفرنس میں ان کا نام تک لینا توہین سمجھتا ہوں، ان کا قد کاٹھ اتنا نہیں ہے کہ میں ان کو یہاں ڈسکس کروں،انہوں نے کہا کہ استور کے باشعور عوام سے گزارش ہے اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں کو باہر نکالیں اور استور کے مثالی امن کیلئے ایک دوسروں کے مقدسات کا بھر پور احترام کریں۔ امن کے دشمنوں سے واقعتا سختی سے نمٹا جانا چاہیے 'امن کے دشمن کسی رعایت کے حق دار نہیں ہیں ان کی مکمل سرکوبی کیلئے سخت اقدامات اور آپریشن کی ضرورت ہے۔صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا سب سے زیادہ فائدہ ان عناصر کو مل رہا ہے جو یہاں ترقی کے خلاف ہیں۔معاشرہ جب آگے کی جانب نہ بڑھ پا رہا ہو تو جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور جدیدیت کے عہد میں بھی پسماندگی سماجی شعور پر غالب آجاتی ہے۔ فرقہ واریت پنپتی ہے، جرائم کی معیشت پھلتی پھولتی ہے اور غریب عوام مسلسل استحصال اور ظلم و بربریت کی اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تاکہ لوگ از خود امن مخالف عناصر کی سرکوبی کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔لاتعداد لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے نارمل زندگی نہیں گزار سکتے، دہشتگردی نے عدم اطمینان پیدا کیا ہے، لوگ حقیقی طمانیت سے محروم ہیں،دہشت گردی ایک مستقل ذہنی اذیت ہے، اِس میں دو رائے نہیں کہ سیاسی طور پر مستحکم ممالک ہی معاشی ترقی کر پاتے ہیں، پاکستان کو تو سیاسی استحکام کی اِس لیے بھی ضرورت ہے کہ پوری قوم جب تک ایک جان ہوکر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرے گی، تب تک اِس کی مشکلات بڑھ تو سکتی ہیں لیکن کم ہرگز نہیں ہوں گی۔بدامنی کے خاتمے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ معاشرے میں سیاسی استحکام ہو تاکہ پوری قوم یکسو ہو کر اِس ناسور کو کچل سکے۔ہمارے معاشرے میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت ایک المیہ ہے سوشل میڈیا کو لوگوں نے عدم برداشت کا اکھاڑا بنا رکھا ہے جس نے معاشرے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیجئے وہاں  جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ بھی کسی محفل یا مجلس میں بیٹھے ہوں تو وہاں بھی متنازعہ گفتگو چھیڑ لیتے ہیں۔ معلومات تو کسی کے پاس ہوتی نہیںں، بس جو کچھ ادھر ادھر سے سنا صرف اس کی بنیاد پر آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ خود تو دوسروں کے رہنمائوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا ان کے لیڈرز کے بارے میں کچھ کہہ دے تو یہ لڑ پڑتے ہیں، ان سے اپنے لیڈروں کی گستاخی برداشت نہیں ہوتی خود چاہے دوسروں کو کچھ بھی کہتے رہیں۔سیاستدانوں نے بھی عدم برداشت کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔ وہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بس ایک دوسرے کی مخالفت کا ہی حلف لیا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، دوسروں پر تنقید کرنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مخالفین کو اسمبلیوں میں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بات کرنا اور ہاتھ ملانا تو بہت دور کی بات ہے۔ مخالفین پر حملے کرانا اور تنقید کرنے والوں پر تشدد کرنے کی بھی ہمارے معاشرے میں ایک روایت موجود ہے جو عدم برداشت کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی عدم برداشت کا کلچر معاشرے میں سرایت کرتا جارہا ہے، جس نے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔معاشرے میں امن و امان اور پرسکون زندگی کیلئے صبر و تحمل اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کیلئے سیاستدانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے معاشرے کے اہم طبقات کو خود ہی آگے بڑھنا ہوگا، جن میں علما اور اساتذہ سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام منبر سے عوام کو اچھے اخلاق اور صبر و تحمل کا درس دیں اور اساتذہ کرام طلبا کو اخلاقیات کا درس دیں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ معاشرہ کسی بھی طرح کے فتنے اور فسادات کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہذا کسی بھی سیاسی و مذہبی لیڈر کی باتوں میں آکر آپس کے تعلقات خراب مت کریں۔اسی طرح معاشرے کے پڑھے لکھے نوجوان خود بھی تھوڑا سا سوچیں اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود ہی ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر حقائق کے مطابق چلیں اور کسی بھی رہنما کی اس حد تک تقلید مت کریں کہ اس کی ہر غلط بات بھی درست معلوم ہونے لگے۔ یوں معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم برداشت کا خود خاتمہ کر سکتے ہیں۔عدم برداشت کی اہم وجہ اپنی سوچ کو ہر کسی کی سوچ سے، اپنے رویے کو ہر کسی کے رویے سے بہترین سمجھنا ہے ۔ اس میں کسی اور کی مداخلت کو برداشت نہ کرنا، کسی اور کی رائے کو ترجیح نہ دینا۔کسی کی رائے کا احترام نہ کرنا۔ اس سے انسان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے جب وہ کسی کی رائے کا احترام نہیں کرے گا تو کوئی اس کی رائے کو بھی ترجیح نہیں دے گا جس سے انسانی نفسیات متاثر ہوں گی اور وہ عدم برداشت کا شکار ہوتے ہوئے اس پر چیخنے گا چلائے گا، ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اسی کی رائے کو اہمیت دی جائے۔اپنے فیصلوں کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی بہت عام رویہ ہے  تنقید برائے تنقید یا کسی کو نیچا دکھانے کے لیے بے جا تنقید کی جاتی ہے ایسا رویہ ہوتا ہے جو اپنے سے زیادہ کامیاب کسی کو دیکھ نہیں سکتے اور حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان وہ اپنی ذات کا ہی کرتے ہیں۔ ہر طرف انتشار، فرقہ پرستی ،  جارحیت، امتیازی سلوک،انا کو فوقیت دینا،  زور زبردستی ہے ۔ ان سب معاملات میں ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے صبر کا دامن چھوڑ دینا۔ رواداری کا پاس نہ رکھنا۔  لیڈرز بھی صبح شام اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے مخالفین کی بے عزتی میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزرنا پڑے گریز نہیں کرتے  جس سے نہ صرف ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے بلکہ مجموعی طور پر پورا معاشرہ ان کی اس جنگ کا شکار رہتا ہے۔غصے کو قابو نہ کر سکنا بھی عدم برداشت کی وجہ ہے۔ ہر کوئی دوسرے کے نظریے کا احترام کرے تو وہ پر سکون ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ کوئی دوسرا بھی انسان ہی ہے۔ اس کی بھی خواہشات ہیں، اس کا بھی اپنا الگ نظریہ ہے۔ اس کا اثر انتشار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ جب اس کی خواہش کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو وہ کسی کی خواہش کو کیا جانے۔ کسی انسان کے اندر کسی بھی چیز کو تحمل اور حوصلے سے برداشت کرنے کی کمی کا نام عدم برداشت ہے یہ درحقیقت رواداری، صبر و تحمل اور بردباری کی ضد ہے۔ یہ وہ منفی رویہ ہے جس سے دور حاضر کا انسان دوچار ہے۔ عدم برداشت انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر کسی کی زندگی میں دیمک کی طرح شامل ہے اور روز بروز اسے ختم کرنے میں سرگرم ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات بھی ہیں جن سے پورا معاشرہ اور انفرادی طور پر ہر شخص متاثر نظر آتا ہے۔عدم برداشت کی یہ صورتِ حال مختلف عوامل کے زیرِ اثر ہے، جیسے مذہب، قومیت، سیاست، اور سماجی رویے وغیرہ۔جمہوری اداروں کی کم زوری بھی سیاسی عدم برداشت کو مزید بڑھاتی ہے۔دراصل کئی نسلی گروہ  ہیں اور یہی یہ تنوع کبھی کبھار تنازعات کا بھی سبب بنتا ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ برداشت سے کام لیا جائے اور امن کو ہاتھ میں لینے کی سعی نہ کی جائے۔