شریف بلتستانی
میں انتہائی رنجیدہ دل اور دکھ کے ساتھ یہ خبر بطور کالم لکھ رہا ہوں کہ بتاریخ 3 فروری 2025 کو گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم نے جماعت ہشتم اور پنجم کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا ، لیکن یہ اعلان نہ قابل سماعت ہے ، نہ قابل دید ہے اور نہ قابل بیان ہے، کیونکہ میں ذاتی طور پر یہ نتائج مانتا ہی نہیں کہ ایک سکول کے 50 طلبہ ہوں اور ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہو کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں ، کم سے کم میں تو یہ نہیں سوچ سکتا ، میرا دل ہی نہیں مانتا کہ ایک طالب علم بھی پاس نہ ہو ، لیکن کیوں ؟ اس کیوں کا جواب ہمیں ڈھونڈنا ہوگا۔ محکمہ تعلیم نے پورے جی بی میں جماعت پنجم کی سالانہ امتحانی کارکردگی 28.6 بتائی ، اور جماعت ہشتم کی کارکردگی 40.7 بتائی جو انتہائی حیران کن اور تباہ کن بھی ہے، اور کئی تو ایسے ایسے سکول بھی ہیں جہاں سرے سے کوئی طالب علم پاس ہی نہیں ہوا بلکہ سکول کے سارے طلبہ فیل ہوئے۔ میں آپ کو اس ناکامی کے پس منظر اور اس کا حل بھی بتا دیتا ہوں۔ پہلا سوال کہ اتنے بچے فیل کیوں ہوتے ہیں ؟ جواب آج کل سکولوں میں تعلیم کا معیار ختم ہوچکا ہے اور تعلیم ایک عادت بن گئی ہے، عادت ایک کیفیت ہے جسے ہر حال میں اپنا مشن پورا کرنا ہوتا ہے، صبح بچے سکول جاتے ہیں، اور شام کو واپس آتے ہیں، پھر اسی طرح سارا سال ان کا یہی حال ہوتا ہے، مطلب یہ کہ سکول میں کیا سیکھا ، کیا پایا کیا کھویا ، کیوں جا رہے ہیں ، کس مقصد کے لئے جا رہے یہ نہیں پتہ ہوتا ، اکثر والدین بھی نہیں پوچھتے نہ بچوں سے سوال کرتے ہیں نہ گھر میں توجہ دلاتے ہیں بس ایک عادت بن چکی ہے جسے کسی بھی طرح پوری کرنا ہے بیگ کو کندھے پہ چڑھا کے آتے جاتے ہیں، تعلیم کے مقصد سے لا علم ہیں۔ دوسری ناکامی کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ آج کل سوشل میڈیا اور مصروفیت اور انٹرنیٹ کا دور ہے ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل فون دستیاب ہے بچے آج کل سوال کا جواب کتاب میں ڈھونڈنے کی بجائے موبائل میں ڈھونڈھتے ہیں، جو لوئر کلاس کے بچوں کے لئے مفید اور زیادہ موزوں نہیں، اس کی وجہ ہے کہ جب بھی بچے موبائل دیکھتے ہیں تو لفظ دیکھنے کے بعد موبائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ جب کہ کتاب میں براہ راست سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوتا ہے تو بچے کا ذہن اور توجہ صرف اسی سوال کے جواب پر ہوتا ہے تبھی وہ جلدی اس جواب کو ذہن نشین کر لیتا ہے، اس کے علاوہ بچے کتاب سے جواب ڈھونڈنے کی بجائے اپنی آسانی کے لئے گوگل یا انٹرنیٹ پہ سرچ کرتے ہیں ، جو پھر وہی لوئر کلاس کے بچوں کے لئے زیادہ مفید اور موزوں نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کا ذہن ابھی اس چیز کی طرف نہیں ہوتا کہ اسی سوال پر ہی مرکوز رہے اس لئے بچے ادھر ادھر گم ہو جاتے ہیں اور اصل مقصد سے پیچھے رہ جاتے ہیں، تیسری وجہ فیل ہونے کی : یہ وجہ بہت اہم اور ناکامی کی بنیاد ہی سمجھ لیجیے ، یہی وہ وجہ ہے جسے شاید نوے فیصد لوگ سچ مانتے اور سمجھتے ہیں، یہ وہ وجہ کہ جس میں اساتذہ کرام بچوں کی تعلیمی زندگی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں، اس کی بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں کہ ممکن ہے پڑھانے والا استاد ہی ناقابل اور سفارشی ہو، یا ایک وجہ یہ بھی ہے آج کل بچوں کے ٹیکسٹ کتابیں اتنی مشکل بنائی ہے کہ شاید زیادہ تر سرکاری اساتذہ دیکھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے ہوں ، جس کی مثال یہ ہے کہ آج کل سکول کی پریپ نرسری کلاس کے بچوں کی کتاب میں یہ Verb' Adverb' Adjective وغیرہ وغیرہ جیسے پیچیدہ ٹاپک درج ہیں جو کہ بچے کے ذہن کے بلکل متضاد ہیں کیا ضرورت ہے ایسے پیچیدہ ٹاپک درج کرنے کی جبکہ سبھی بچوں نے صرف A B C ا ب ت اور 1 2 3 لکھنا ، بولنا اور پڑھنا سیکھنا ہے تو کیا ضرورت ہے ایسی ٹاپک شائع کرنے کی ؟ اور استاد بھی ان پیچیدہ ٹاپک کے بارے میں بالکل لا علم ہوتا ہے، یہ سب مثال دینے کی صرف ایک وجہ ہے کہ استاد ہی اگر پڑھانے کے قابل نہیں تو اس میں طالب علموں کا کیا قصور ؟ قصور وار میری نظر میں اساتذہ کرام بھی ہیں طلبہ بھی والدین بھی ہیں اور یہ پورا محکمہ بھی ہے، والدین کا قصور یہ کہ وہ گھروں میں اپنے بچوں پر توجہ نہیں دلاتے نہ سکولوں میں جاکر بچوں اور سکول کا حال جانچنے کی سعی کرتے ہیں ، اساتذہ کرام کا قصور یہ ہے وہ اکثر بچوں کو وقت گزارا کرتے ہیں صحیح سے نہیں پڑھاتے ، سمجھاتے اور نہ سکھاتے ہیں۔ محکمہ کا قصور یہ کہ وہ اپنے ادارے کی غلطی کو نشاندہی کرنے کی بجائے ایسی پالیسیاں بناتا ہے کہ جس سے پیسے تو خرچ ہوں لیکن معیاری تعلیم مہیا نہیں ہوتا، ایسی پالیسیوں سے الٹا نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ تیسری وجہ: یہ کہ اگر محکمہ تعلیم نئی نشستوں پر بھرتی سفارش رشوت یا اثر رسوخ کی بنیاد پر کرے تو اس کا اثر یہی ہوگا ناں، اور یہ کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ لڑائی لڑے بغیر قوم کو اندھیروں میں دھکیلا جائے ، تشویش یہ پائی جاتی ہے پچھلے کئی سالوں سے گلگت بلتستان میں اساتذہ کرام کی تعیناتیاں سفارش رشوت اور اثر ورسوخ سے ہوئیں تبھی یہ نتائج آج دیکھنے کو مل رہے ہیں، یہ آج پورے گلگت بلتستان کے لئے باعث شرم و عار ہے کہ ناکامی کا تناسب کامیابی کے 100 میں سے 15 فی صد پر بھی نہ آئے، بہر حال ان مسائل اور اس چنگل سے آزاد کیسے ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال کے مطابق ہم ان مسائل سے کچھ اس طرح نکل سکتے ہیں یا ہم اپنے تعلیمی مسائل میں بہتری ایسے لا سکتے ہیں کہ محکمہ تعلیم اپنی پالیسیوں کو بدلنے کے بجائے جو پالیسیاں پہلے سے مرتب ہیں ان پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ اساتذہ کرام سے سالانہ کارکردگی کے بارے میں ٹیسٹ لیا جائے، اور جو استاد اچھی کارکردگی دکھاتا ہے اس کو انعام سے نوازیں، اسی طرح محکمہ تعلیم اپنی نگرانی میں بچوں سے قابلیت کے حوالے سے بین الاضلاعی ٹیسٹ کا انعقاد کیا جائے ، بچوں کی کارکردگی کے حوالے سے اساتذہ اور والدین کے درمیان رابطے کرنے کا راستہ بنایا جائے ، بچوں کی ہر ماہ کی کارکردگی رپورٹ والدین تک پہنچائے جانے کا راستہ اپنایا جائے ، والدین گھروں میں بچوں پر کڑی نظر رکھیں بچوں کو وقت کے ساتھ ساتھ کھیل و کود میں حصہ لینے کا موقع بھی دیں اور تعلیم پر زیادہ توجہ دلائیں، محکمہ تعلیم کے عہدے داران کو چاہئے کہ یہ سفارشی روایت ختم کریں اور استادوں کا مختلف سکولوں اور بین الاضلاعی تبادلہ کیا جائے، آخر میں ایک اور اصولی بات یہ بھی ہے کہ جب بھی استادوں کو بھرتی کرتے ہیں تو سفارش اور رشوت سے پاک بھرتی کیا جائے ورنہ کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ان کو تعلیم سے دوری ہی کافی ہوتی ہے۔