چند روز قبل وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پانچ روپے سے زائد کا اضافہ کیا۔ وفاقی حکومت نے پٹرول پانچ روپے جب کہ ڈیزل پانچ روپے ایک پیسہ فی لٹر مہنگا کرنے کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل کی قیمت میں پانچ روپے بیالیس پیسے جب کہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے بانوے پیسے کا اضافہ کیا گیا ۔حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کو عوام کی پروا ہی نہیں اپنے اللے تللے پورے کرنے کے لیے ہر شے کے نرخوں کو آسمان تک پہنچانے میں اس حکومت کا کوئی ثانی نہیں'بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات تو شروع سے اس کے نشانے پر تھیں اور ہیں' پھر آٹے 'چینی اور بنیادی ضروریات کے استعمال کی اشیاء زد پر آئیں۔ بہانہ عالمی منڈی کا بنایا جاتا ہے اور عوام کی جیبیں خود خالی کی جاتی ہیں۔ اگر عالمی منڈی میں ریٹ بڑھے ہیں تو ٹیکسز کم کر دیں ضروری ایک ایسی شے سے منافع کمانا ہے جو لوگوں میں جینے کی امنگ ہی چھین رہی ہے حکومتیں منافع کمانے کے لیے نہیں ہوتیں۔ظلم یہ ہے کہ قیمت سے زائد ٹیکس عائد کیے ہوئے ہیں' بات ریاست مدینہ کی' کی جاتی ہے اور یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ اسلام میں زکواة کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں ۔کرپشن بدستور بڑھ رہی جس پر قابو پانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی نہ کرپٹ شکنجے میں آتے ہیں۔کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بد عنوانی ہے۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔کرپشن آکاس بیل کی طرح سے ہے یعنی وہ زرد بیل جو درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتی کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا- یہاں تک کہ معاشرہ کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے۔کسی برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں بد عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیںکوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے۔ہمارا معاملہ یوں ہے کہ کرپشن کسی جڑواں بچے کی طرح پاکستان کے بنتے ہی ساتھ آ گئی تھی وہ لوگ جو آج معاشرہ میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں، پاکستان کے ابتدائی دنوں کی تاریخ کو بڑی احتیاط سے چھپاتے ہیں یہ لوگ کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کی وجوہات اور پیدائش پر بات نہیں کرتے یہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا وہ افسوس ناک باب ہے جس میں ہماری کرپشن، موقع پرستی، مذہبی بلیک میل اور بے حسی کی جڑیں چھپی ہیں۔ہماری قیادت کو ان مسائل کا شائد کوئی تصور ہی نہ تھا جو ہمارے عوام کو تقسیم ہند کے وقت پیش آنے والے تھے چنانچہ مہاجروں کی آباد کاری کا کوئی ٹھوس منصوبہ موجود نہ تھا۔برطانوی حکومت سے پہلے بر صغیر میں مسلمانوں کا مزاج بالعموم جاگیردارانہ اور زراعتی تھا، بعد کی صدیوں میں زیادہ تر وقت مسلمان مزاحمت اور علیحدگی کی تحریکوں میں رہے، صرف ایک محدود سا طبقہ سول سروس اور فوج میں شامل ہوا۔اس سارے دور میں مسلم خطیبوں اور ڈاکٹر اقبال جیسے شاعروں کے ولولہ انگیز پیغام نے ہمارے مجاہدانہ مزاج کو اور گہرا کر دیا لہذا ہمارے کاروباری طبقوں میں جاگیردارای اور جنگی مزاج قائم رہا اور ایک حقیقی کاروباری طبقہ کے جمہوری مزاج کی کمی رہی۔ پاکستان میں کرپشن جیسی لعنت اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ اگر اسے روکنے کے لئے راست اقدامات نہ کیے گئے تو ہوسکتاہے کہ اس کے باعث پاکستان کی سا لمیت ہی دائو پر لگ جائے ،پاکستان میں کرپشن کو روکنے اور کرپٹ افراد کے خلاف اقدامات کرنے کے لئے جو ادارے یعنی نیب ،اینٹی کرپشن ،ایف آئی اے وغیرہ بنائے گئے ہیں ،یہ ادارے بجائے کرپشن میں کمی کے اضافے کا باعث بن رہے ہیں ،ان اداروں کو حکومت نے سیاسی انتقام کاموثر ذریعہ بنالیاہے۔ان سے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرواکر انہیں لوٹے بنا کر اپنے ساتھ ملالیا جاتاہے یا انہیں کم از کم اپنی زبان بندی پر مجبور کیا جاتاہے ،نیب کے ادارے نے تو اربوں روپوں کی کرپشن میں ملوث لوگوں سے کروڑوں کی کرپشن کرنے والوں سے لاکھوں اور لاکھوں کی کرپشن والوں سے ہزاروں روپے وصول کرکے انہیں ایسی سند عطا کردی جس کے باعث اب وہ پہلے سے بھی زیادہ دیدہ دلیری سے کرپشن میں ملوث ہوگئے ،جب کہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ادارے تو عرصہ دراز سے عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں ان سے توعوام کو بھلائی کی کوئی امید ہے ہی نہیں ،اگر ماضی کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو صاف پتہ چلتاہے کہ ان اداروں سے پہلے کرپشن ا تنی نہ تھی جتنی ان کے آنے کے بعد ہوگئی ہے ،ان اداروں میں سیاسی عمل دخل ،تقرریوں اور ترقیوں نے بھی ان کا بیٹرا غرق کرکے رکھ دیا ہے ،گنے چنے اقدامات کے علاوہ ان کے کریڈٹ میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے ۔پاکستان میں کسی بھی کرپٹ افسر کے خلاف اگر ستم رسیدہ اور متاثرین زیادہ شور شرابا یا شکایات ارباب اختیار اور افسران بالا کے سامنے کرتے ہیں توکیونکہ تقریبا افسران ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں ،یا وہ سیاسی عمل دخل کے باعث اپنے خلاف کاروائی کے ڈر سے خاموش ہوتے ہیں ،انکوائری کمیٹی کا اعلان فرما کر تحقیقات کا اعلان کردیتے ہیں ،آپ اگرکسی پولیس افسر یا اہلکار کے خلاف شکایت کریں تو اس کی انکوائری بھی پولیس کا ہی آدمی کرے گا جس کے باعث کرپٹ سے کرپٹ پولیس والے کے خلاف زیادہ سے زیادہ سزا یہ دی جاتی ہے کہ یا تو اسے ٹرانسفر کردیا جائے یا لائن حاضر ۔یہی وجہ ہے کہ پولیس کے بارے میں عوام الناس کی بڑھتی ہوئی شکایات کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور جرائم کی شرح بھی بتدریج خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے ،اکثر انکوائری کمیٹی کے افسران جوانکوائری کے لئے تعینات کیے جاتے ہیں ،وہ خود اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی انکوائری کی جائے ،یہ حضرات جب کوئی انکوائری شروع کرتے ہیں تو پہلے تو اسی شخص کے گلے پڑ جاتے ہیں جس نے درخواست دی ہوئی ہوتی ہے یا واویلا کیا ہوتاہے ۔الٹا اس سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ فلاں شخص کرپٹ ہے ،دوسری واردات میں اس سے اتنے الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں ،اور اسے اتنے چکر لگواتے ہیں کہ وہ شخص یا تو انکوائری واپس لے لے یا پھر اسے صلح پر مجبور کیا جاتاہے ،ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں کرپشن ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے ،سٹیل ملز سیکنڈل ،سٹاک ایکسجینج سیکنڈل ،سیمنٹ ،چینی ،گندم ،لنک روڈ سیکنڈل اس کے علاوہ دوسرے کئی سیکنڈلوں میں انکوائری کمیٹیاں بٹھائی گئیں ،لیکن کمیٹیوں کے ارکان کیونکہ ایسے لوگوں کا نامزد کیاگیا جن کا کام کرپشن کو بے نقاب کرنے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرنا تھا ،اس لئے عوام سے اربوں روپے ہتھیانے والے ان سیکنڈلوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا ،اکثر لوگ تو اب یہ تک کہتے ہیں کہ حکومت جس کرپشن کو بے نقاب نہ کرنا چاہئے اور جس کرپٹ افسر کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے اس کے خلاف انکوائری بٹھا کر یا تواسے اتنا لمبا کردیا جاتاہے کہ لوگ بھول بھال جائیں یا اپنا من پسند رزلٹ حاصل کرلیا جاتاہے ،پاکستان میں اب تک مختلف جید علما کرام کے علاوہ کئی اہم سیاسی شخصیات کو بے دردی سے قتل کیاگیا جس کی تفصیل بہت لمبی ہے ،ان لوگوں کے قتل کے خلاف بھی انکوائری کمیٹیاں بٹھائی گئیں لیکن آج تک کسی کے قتل کا سراغ نہ مل سکا ،انکوائری کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اب عوام کو بے وقوف بنانے کے اس سلسلے کو ختم کردینا چاہئے تاکہ انکوائری افسر اور اراکین کی ناز برداری اور نخرے اٹھانے سے تو بہتر ہے کہ معاملے کو خدا پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ جب کسی کرپٹ افسر کو انکوائری افسر یا کمیٹی کلیئر کردیتاہے تو وہ پھر وہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم وستم ،کرپشن اور انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کردیتاہے ،جس کے باعث شکایت کنندہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس سے تو بہتر تھا چپ ہی رہا جاتاہے ،جب تک یہاں چائنہ کی طرز کے اقدامات شروع نہیں ہوتے وہ رشوت خور ،ملاوٹ اور دیگر جرائم کرنے والوں کو سکواڈ کے آگے کھڑا کرکے نشان عبرت بنادیتے ہیں ،حالات سدھریں گے نہیں ۔