کراچی: سیلابی ریلے میں بہنے والے دو بچوں کی لاشیں مل گئیں،5افراد تاحال لاپتہ

نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے لنک روڈ پر سیلابی ریلے میں بہنے والی کار میں سوار بچوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں گاڑی میں سوار دیگر 5 افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق حیدرآباد کا رہائشی ذیشان اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ہمراہ رینٹ اے کار میں واپس اپنے گھر جارہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا، گاڑی میں میں ڈرائیور سمیت 7افراد سوار تھے۔

تفصیلات کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پینتالیس سالہ ذیشان،اس کی اہلیہ چالیس سالہ رابعہ ،ان کے بچے پندرہ سالہ ہمنہ ، بارہ سالہ ایان ، دس سالہ عباد الرحمن اور آٹھ سالہ موسیٰ سوار تھے۔

، واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی اور ان کے صاحبزادے سعد ایدھی کی موجودگی میں ایدھی کے غوطہ خوروں نے ریسکیو آپریشن شروع  کیا، جمعرات کو علی الصبح کار تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر مل گئی لیکن کار میں کوئی نہ ملا۔

ایدھی غوطہ خوروں کو کئی کلومیٹر دور تک تلاش جاری رکھنے کے جمعرات کی دوپہر ہاشم علی گوٹھ کے قریب سے آٹھ سالہ موسیٰ اور پھر کچھ دیر بعد درسانو چھنو کے قریب پندرہ سالہ ہمنہ کی لاش مل گئی۔

جائےحادثہ پر موجود رابعہ کے بھائی حمزہ اور سلمان نے بتایا کہ ان کے بہن بہنوئی لانڈھی میں ایک عقیقے کی تقریب میں شرکت کے لیے کراچی آئے تھے، بہنوئی کا آبائی تعلق حیدرآباد سے تھا اور وہ پیشے کے اعتبار سے ٹیلر ماسٹر تھے، گاڑی کا ڈرائیور عبدالرحمن جامی بھی حیدرآباد میں ان کے گھر کے قریب ہی رہائش پذیر ہے جسے فون کرکے بلایا گیا اور وہی انھیں حیدرآباد لے کر جارہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی وہ کراچی پہنچے  معلومات حاصل کرنے پر مقامی افراد نے بتایا کے بتایا کہ واقعے کے وقت ملیر ندی میں پانی کا بہائو بہت تیز تھا اور یہاں سے گزرنے والے ٹرک و ٹرالر کھڑے ہوئے تھے کہ کار کے ڈرائیور نے جلد بازی کی اور گاڑی ندی کی طرف بڑھانے لگا جس پر اسے قریبی موجود ڈرائیوروں نے منع کیا لیکن وہ نہ مانا اور گاڑی تیز بہائو کی نذر ہوگئی۔

جائے حادثہ پر موجود گاڑی کے ڈرائیور عبدالرحمن جامی کے ورثا نے بتایا کہ عبدالرحمن رینٹ اے کار کی گاڑی چلاکر اپنی گزر بسر کر رہا تھا ،زیادہ تر کراچی سے حیدرآباد اور حیدرآباد سے کراچی ہی مسافروں کو لاتا لے جاتا تھا،اپنی ٹریول ایجنسی کھولنا چاہ رہا تھا اور لائسنس کے حصول کے لیے کراچی پہنچا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عبدالرحمٰن کراچی سے کام  کام نمٹا چکا تھا کہ اسی دوران اسے ذیشان کو واپس لانے کے لیے ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس کے بعد حیدرآباد واپسی پر ڈملوٹی کے مقام پر یہ حادثہ پیش آگیا۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ ان کے غوطہ خور ڈوبنے والے تمام افراد کی تلاش میں مصروف ہیں ، ندی میں پانی کا بہائو بہت زیادہ تیز ہونے کے باعث غوطہ خوروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، ندی میں کہیں پانچ فٹ کی گہرائی ہے اور کہیں پندرہ فٹ تک گہرائی جبکہ جگہ جگہ پتھر بھی ہیں جس کی وجہ سے ریسکیو بوٹ کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

علاوہ ازیں جائے حادثہ پر ڈپٹی کمشنر ملیر عرفان معرفانی ، ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر ، علاقے کے رکن اسمبلی ساجد جوکھیو اور دیگر حکام بھی پہنچے ، موقع پر موجود ورثا کو تسلی دی اور ریسکیو آپریشن کا جائزہ بھی لیا ، امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے تیراک بھی موجود  تھے ۔