روس میں دہشت گرد حملہ: یورپ میں خوف کی لہر

 صائمہ حیات

سرد جنگ کے خاتمے اور سابق سویت یونین کی شکست و ریخت کو اگرچہ 32 سال گزر چکے ہیں لیکن روس کا شمار آج بھی دنیا کے طاقت ور ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ ملک اس وقت سنگین معاشی مسائل سے دوچار ہے لیکن اس کے بے پناہ قدرتی وسائل بالخصوص تیل و گیس کے وسیع ذخائر نے اسے معیشت کے بد ترین بحران سے اب تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ روس ایک بڑی جوہری اور فوجی طاقت بھی ہے جو اسے امریکا اور چین کا ہم پلہ بنا دیتی ہے۔ یہ ملک رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور آبادی کے اعتبار سے 9 واں بڑا ملک ہے۔اس کی جغرافیائی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی حدود میں 11 ٹائم زونز آتے ہیں اور 14 ملک اس کے ہمسائے ہیں۔ روس کی 71 فیصد آبادی روسی زبان بولتی ہے جبکہ 35 دیگر زبانوں کو سرکاری درجہ حاصل ہے۔ ولادیمیر پیوٹن ایک سخت گیر حکمران کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ 1999 سے اب تک برسر اقتدار ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں 87.9 فےصد ووٹ لے کر پیوٹن مسلسل پانچویں بار صدارت کا انتخاب جیت چکے ہیں۔ماضی کی سپر پاور اور عالمی سیاست میں آج کے اہم اسٹیک ہولڈر کو، ان دنوں دہشت گردی اور جنگ جیسے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے۔ یوکرین جنگ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے جس میں ہزاروں فوجی و شہری ہلاک اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ روس کا خیال تھا کہ بے پناہ فوجی طاقت کے زور پر یوکرین کو چند ماہ میں زیر کر لیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ یوکرینی حکومت بے پناہ عوامی حمایت اور مغرب کی فوجی و مالی مدد کے باعث میدان میں ڈٹی ہوئی ہے۔جنگ چونکہ بہت طویل ہو چکی ہے لہذا روس کو غیر معمولی معاشی اور عالمی دباﺅ کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ماسکو میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے روس کے مسائل میں نہ صرف ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے بلکہ پوری دنیا بالخصوص یورپ کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ 17 مارچ کو صدر پیوٹن کی جیت کا اعلان ہوتا ہے اور 22 مارچ کو روس پر اس کی تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گرد حملہ کر دیا جاتا ہے۔ ملک کے دارالحکومت ماسکو کے مضافات میں واقع کروکس کنسرٹ ہال میں 6800 تماشائی مشہور راک بینڈ کنسرٹ سے لطف اندوز ہونے کے لیے موجود تھے۔آنے والوں کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ کنسرٹ ہال میں مشین گنوں کی گولیاں، بارودی دھماکے اور آتش گیر سیال سے نکلتے شعلے ان کے منتظر ہوں گے۔ کئی نقاب پوش مسلح دہشت گرد اچانک ہال میں داخل ہوئے، لوگوں پر گولیاں برسائیں، خوف ناک دھماکے کیے، آتش گیر مادہ پھینک کر آگ لگائی جس کے نتیجے میں اب تک 137 انسان اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکے ہیں۔ جس ہال میں کبھی نغمے گونجا کرتے تھے وہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔حملہ آور آگ و خون کا دریا بہا کر فرار ہو گئے جنہیں جلد گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو چکے تھے۔ اس حملے کے فورا بعد انتہاپسند جہادی تنظیم، داعش خراساں نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ داعش خراساں میں طالبان سے ٹوٹ کر نکلے ہوئے جہاد کے حامی مسلح جنگجو شامل ہیں۔ یہ تنظیم روس کی سخت مخالف ہے کیونکہ روس نے شام کی طویل خانہ جنگی میں داعش کے بد ترین دشمن صدر حافظ اسد کی زبردست مدد کی تھی جس کے باعث اس تنظیم کو بھاری جانی نقصان اٹھا کر شام سے فرار ہو کر افغانستان کو اپنا مرکز بنانا پڑا تھا۔یہ جہادی تنظیم چیچنیا، افغانستان اور شام میں روس کے کردار کو جواز بنا کر اس کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں کرتی ہے اور اس سے پہلے بھی کابل میں روس کے سفارت خانے پر حملہ کر چکی ہے۔ داعش خراساں عرب ملکوں کے علاوہ مغربی اور جنوبی ایشیا میں سرگرم ہے اور مسلکی حوالے سے ایران بھی اس کے نشانے پر رہتا ہے۔ داعش نے کرمان شہر میں بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 84 بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکا نے سات مارچ کو روس میں موجود اپنے شہریوں کو ہدایت نامہ جاری کر کے خبردار کیا تھا کہ وہ پر ہجوم علاقوں اور تفریح گاہوں سے دور رہیں۔ روس کو بھی امریکا نے 8 مارچ کو دہشت گردی کے امکانی خطرے سے مطلع کر دیا تھا۔ شاید دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث روسی حکومت نے اس اطلاع پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔بین الاقوامی سطح پر اس دہشت گرد حملے کی جس طرح مذمت کی گئی اس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی یک جہتی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے صدر پیوٹن سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ یورپین یونین کے ترجمان نے کہا ہے یورپی یونین شہریوں پر دہشت گرد حملوں کی سخت مخالفت کرتی ہے، دکھ کی اس گھڑی میں ہم متاثرین کے ساتھ ہیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس سمیت ہر یورپی ملک نے بے گناہ شہریوں کے خلاف بزدلانہ کارروائی کی مذمت کی ہے، نیٹو، امریکا افغانستان، کیوبا، جاپان کے علاوہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے روسی حکومت اور عوام سے ہمدردی اور یک جہتی کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ داعش دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے لہذا تمام ملکوں کو متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا۔اس اندوہناک سانحہ کے بعد یورپ پر گہرے خوف اور دکھ کی فضا طاری ہے جس کی ایک وجہ یہ ڈر ہے کہ داعش کی جانب سے مغرب کے بڑے شہروں میں کسی بھی وقت اس نوعیت کے اچانک حملے کیے جا سکتے ہیں۔ یورپ میں انسداد دہشت گردی کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس تنظیم کی جانب سے کئی جگہوں پر حملوں کے نمو پذیر منصوبوں کی گن سن ملی تھی۔ ماسکو کنسرٹ ہال پر حملے کے بعد یورپ کے شہری سخت تشویش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں نومبر 2015 کی دردناک واقعہ کی یاد تازہ ہو گئی ہے جب پیرس میں داعش کے مسلح حملہ آوروں نے 89 شہریوں کو مار ڈالا تھا۔انہیں مانچسٹر کے آریانہ گرینڈ کنسرٹ میں خود کش بمبار حملے کے وہ مناظر بھی یاد آ گئے ہیں جس میں 22 لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یورپی ملکوں میں خوف اور اضطراب امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کی جانب سے ہاﺅس کمیٹی کے سامنے دیے گئے حالیہ بیان سے بھی بڑھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ داعش خراساں کے پاس امریکی اور مغربی مفادات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت اور خواہش دونوں موجود ہیں۔ وہ کم سے کم چھ ماہ میں وارننگ دیے بغیر ایسا کر سکتی ہے ۔روس سمیت دنیا کے بڑے ملکوں نے اگر متحد ہو کر اپنے ہی پیدا کردہ عناصر کا مقابلہ نہ کیا اور ایک دوسرے کے خلاف نیابتی جنگ میں مسلح گروہوں کو استعمال کرنے کی پالیسی ترک نہ کی تو باری باری سب ایسے حملوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔