ٹرمپ سے تجھ کو امےدےں۔۔۔۔

رانا فیضان علی


پاکستانی سےاستدانوں نے کبھی بھی اپنے زور بازو پر حکومت حاصل کرنے کی سعی نہےں کی‘ وہ عوام کی بات تو کرتے ہےں لےکن اقتدار و اختےار کےلئے ان اندرونی و بےرونی مقتدر قوتوں کو دےکھتے ہےں جو انہےں جائز و ناجائز طرےقے سے اقتدار کی مسند پر بٹھا سکےں۔سےاسی جماعتوں میں سے اےک بھی اےسی جماعت نہےں جس نے کبھی ےہ کہا ہو ہم اسٹےبلشمنٹ کے سہارے ےا اس کی بےساکھےوں پر اقتدار حاصل نہےں کرےں گے۔اقتدار میں موجودگی پر انہےں اسٹےبلشمنٹ سے کوئی شکاےت نہےں ہوتی لےکن اقتدار سے باہر ہونے پر ان کی ساری توانائےاں اسٹےبلشمنٹ کے خلاف ہرزہ سرائی پر صرف ہوتی ہےں اور انہےں لگتا ہے کہ اسٹےبلشمنٹ انہےں اقتدار سے باہر کرنے کی ذمہ دار ہے۔ماضی قرےب ہی کا قصہ ہے کہ تحرےک انصاف کے بزرجمہر جنرل باجوہ کی تعرےفوں میں رطب اللسان رہتے تھے اور برملا ےہ اعتراف کےا جاتا تھا کہ ہمارے تو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کورم کی تکمےل بھی اسٹےبلشمنٹ کے مرہون منت ہوتی تھی لےکن جونہی اقتدار کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے جنرل باجوہ مےر جعفر بن گئے‘ انہےں ان کا نےوٹرل ہونا بھی گوارا نہ ہوا تو نےوٹرل کو جانور سے تشبےہہ دےنا شروع کر دےا ۔کون نہےں جانتا کہ اقتدار کے حصول کےلئے کنٹےنر پر امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کون کرتا رہا ‘اس انتظار کی بے چےنی کمزور ےاداشت کے حامل تو بھلا بےٹھے ہوں مگر ےہ تارےخ کے صفحات پر اس طرح سے کندہ ہو چکی ہے کہ مٹائے نہےں مٹ سکتی۔ گوےا عوام کو ہاتھی کے جو دانت دکھائے جاتے ہےں وہ محض دکھانے کےلئے ہےں اور نظر نہ آنے والے دانتوں سے اپنے جو مقاصد حاصل کےے جاتے ہےں ان کی بھنک عوام کو نہےں پڑنے دی جاتی۔کےا عوام ےہ بھی فراموش کر دےں کہ جنرل باجوہ جو آج ان کی صفوں سے راندہ درگاہ قرار دےے جا چکے ہےں کےا انہےں ملازمت میں توسےع دے کر تاحےات آرمی چےف بنانے کا لالی پاپ نہےں دےا گےا تھا۔کےا جنرل فےض کو آرمی چےف بنانے اور اپنی حکومت کے لامحدود مدت تک تسلسل کےلئے ان کی مسلسل توسےع کی حکمت عملی مرتب نہےں کی گئی تھی۔جنرل فےض کو آئی اےس آئی کا چےف برقرار رکھنے کےلئے اےڑی چوٹی کا زور لگانے کے پس پردہ کونسے مقاصد کارفرما تھے۔کےا حکومت کھو دےنے کے باجود اپنی مرضی کا آرمی چےف لانے اور جنرل عاصم باجوہ کی تقرری روکنے کےلئے لانگ مارچ کا بےڑا نہےں اٹھاےا گےا تھا۔پنجاب اور کے پی کے حکومتوں کے اخراجات پر ستر جلسوں کا اہتمام کن مقاصد کےلئے کےا گےا تھا۔ اگر جمہوری روح ان کے پےش نظر ہوتی تو عدم اعتماد کی تحرےک کو قبول کر لےا جاتا۔کےا آئےن کو پامال کرتے ہوئے عدم اعتماد کے باوجود اسمبلےوں کی تحلےل کی سمری پر دستخط نہےں کےے گئے۔کےا دندان ساز صدر نے ےہ جانتے ہوئے بھی کہ ےہ آئےن کے برخلاف ہے اسمبلی تحلےل کرنے کا نوٹےفےکےشن جاری نہےں کےا؟ےہ تو مشتے از خروارے اندرونی اسٹےبلشمنٹ کے تلوے چاٹنے کی چند مثالےں ہےں ۔بےرونی اسٹےبلشمنٹ جس میں سرفہرست امرےکہ ہے کی بات مان کر چار سال تک سی پےک کو فرےز کر دےا گےا تاکہ امرےکہ خوش رہے‘ ستم ظرےفی ےہ ہے کہ ان کے اراکےن اسمبلی سی پےک کے خلاف اسمبلی میں تقرےرےں کرتے رہے ‘ عوام کو دھوکہ دےنے کےلئے ’ہم کوئی غلام ہےں‘ کے نعرے لگائے گئے لےکن اندرونی طور مکمل غلامی کا امرےکی طوق اپنے گلے میں پہن لےا گےا۔ٹرمپ کے کہنے پر کشمےر بےچ دےا اور امرےکہ سے واپسی پر فاتحانہ انداز میں کہا گےا کہ میں دوسرا ورلڈ کپ جےت کر لوٹا ہوں۔ امرےکہ کی لابنگ فرمز ہائر کر کے انہےں پاکستان کے خلاف اقدامات اٹھانے کا ٹاسک دےا گےا‘آئی اےم اےف کو قرض نہ دےنے کے خطوط لکھ گئے‘امرےکی کانگرےس سے درخواستےں کی گئیں کہ وہ پاکستان کی امداد بند کر دے‘ لابنگ کے ذرےعے امرےکی سےنےٹرز کو پاکستان مخالف اقدامات کرنے اور پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کی درخواست کی گئی۔امرےکی صدر جوبائےڈن کو خط لکھے گئے‘ منافقت کی گھٹا ٹوپ ظلمت کے اسےروں نے امرےکی انتخابات سے قبل ہی ٹرمپ سے ےہ امےدےں وابستہ کر لیں کہ وہ آئے گا تو جےل سے چھڑائے گا۔ اےاک نعبد واےاک نستعےن پڑھنے والوں نے جےل سے رہائی کی لگامےں ٹرمپ کے ہاتھ میں پکڑا دےں۔ٹرمپ ہی کے دباﺅ پر تحرےک انصاف کے اراکےن قومی اسمبلی میں اسرائےل سے تعلقات کے فوائد گنواتے رہے‘ اسرائےل کا طےارہ اسلام آباد ائرپورٹ پر آنے کی بازگشت بھی اسی دور میں سنائی دےتی رہی۔ ٹرمپ کو اپنا ناخدا سمجھنے والے اب جنوری میں اس کے اقتدار سنبھالنے کا انتظار کر رہے ہےں‘انہےں توقع ہے کہ ٹرمپ سےٹ پر بےٹھتے ہی پہلا فرمان ےہ جاری کرے گا کہ عمران خان کو فوری رہا کر دےا جائے۔ ےہ نہےں جانتے کہ ےہ جسے اپنا ناخدا سمجھے ہوئے ہےں وہ اس ملک کا صدر ہے جس کی دوستی و دشمنی کے پےمانے اپنے مفادات کے حصار میں مقےد ہوتے ہےں۔عمران خان انہےں اب کےا فائدہ پہنچا سکتا ہے جو وہ اس کےلئے کسی سودے بازی کا اہتمام کرےں۔ اب وہ وقت نہےں کہ امرےکہ پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دے اور کمانڈو آرمی چےف اس کی ساری شرائط من و عن تسلےم کر لے ۔ٹرمپ سے امےدےں لگانے والے ےہ فراموش کر بےٹھے کہ اسی پاکستان نے ٹرمپ کے دباﺅ کے باوجود شکےل آفرےدی کو امرےکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دےا تھا۔کےا ےہ ناروا امےدےں وابستہ کرنے والے نہےں جانتے کہ تحرےک انصاف بائےڈن کے فون کے انتظار میں اقتدار گنوا بےٹھی مگر فون کی گھنٹی نہ بجی پھر ےہ شکاےت بھی بزعم خود عالمی سطح کے لےڈر کہلانے والے کی زبان پر آگئی کہ ’مودی مےرا فون نہےں سنتا اور بائےڈن مجھے فون نہےں کرتا‘۔بائےڈن کے دور میں امرےکی سےنےٹرز اورکانگرےس کے اراکےن بارہا عمران خان کی رہائی کےلئے آواز اٹھا چکے ہےں لےکن ’رہائی کا ہما‘ ہنوز سر پر بےٹھنے سے گرےزاں ہے اور بدستور فضا ہی میں چکر لگا رہا ہے۔گزشتہ ماہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے 60 سے زائد اراکین نے صدر جوبائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ امریکہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کو رہائی دلوائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوائے۔جس پرپاکستانی دفترِ خارجہ نے اس خط کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خطوط پاکستانی سیاسی صوتحال کے حوالے سے غلط سمجھ بوجھ پر مبنی ہیں۔اب بھی اگر رہائی کی کوئی سبےل بنتی ہے تو پاکستان کی شرائط مانے بغےر اےسا ممکن نہےں ہو گا۔ ماضی میں پاکستان میں تعینات سابق امریکی سفارتکار اور سٹمسن سینٹر میں ساﺅتھ ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر ایلزبیتھ تھریلکلیڈ کا کہنا ہے کہ 2019 میں واشنگٹن کے دورے کے دوران ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات بہت اچھی رہی تھی لیکن مجھے اس بات کی توقع نہیں کہ اس کا نتیجہ عمران خان کےلئے کسی معنی خیز حمایت کی صورت میں میں نکلے گا۔ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد بھی امریکہ کی پاکستان پالیسی میں کوئی خاص یا بڑی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔سےد مجاہد علی اپنے اےک کالم میں لکھتے ہےں کہ”تحریک انصاف امریکہ سے اپنے لیڈر کی رہائی اور سیاسی واپسی کی توقع کرتے ہوئے اس حقیقی آزادی کے سلوگن کا کیا کرے گی جس کےلئے ان کے لیڈر ساری زندگی جیل میں گزارنے پر آمادہ ہیں لیکن سمجھوتہ کرنے، این آر او لینے یا ملک سے باہر جانے کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کر رہے۔ کیا مایوسی اب اس حد تک گہری ہو چکی ہے کہ جیل سے رہائی کےلئے امریکی صدر سے مدد کی امید باندھی جا رہی ہے؟تحریک انصاف کے کسی لیڈر کو یہ جواب ضرور دینا چاہیے کہ جب کوئی پارٹی یا فرد اپنے ملک کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غیر ملکی امداد کا سہارا لے گی تو وہ سب سے پہلے قومی خود داری اور خودمختاری کو داﺅ پر لگائے گی۔ یعنی ٹرمپ کے ذریعے عمران خان کی رہائی اور تحریک انصاف کےلئے سیاسی سہولت حاصل کرنے کا مقصد یہ ہو گا کہ پاکستان کی آزادی و وقار کو داﺅ پر لگا دیا جائے۔ کیا عمران خان کی غیرت اور تحریک انصاف کے آدرش، اسے قبول کر لیں گے؟ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے ہمدردوں کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرانے کی بجائے کہ ٹرمپ آ کر سب سے پہلے عمران خان کو رہا کرائے گا، تحریک انصاف کی قیادت واضح بیان جاری کرے کہ کسی قیمت پر ملک کی آزادی و خود مختاری کا سودا نہیں کیا جائے گا۔ ٹرمپ حکومت نے اگر عمران خان کی رہائی کےلئے اسلام آباد یا راولپنڈی پر دباﺅ ڈالنے کی پیش کش کی بھی تو پارٹی اسے مسترد کردے گی کیوں کہ ہمیں اپنی سیاسی لڑائی میں کسی بیرونی طاقت کی مداخلت قبول نہیں ہے۔ کجا اس بات پر شادیانے بجائے جائیں کہ اب امریکہ حکومت کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر عمران خان کو رہا کرنے کا حکم صادر کرنے والا ہے۔اس تناظر میں کےا ےہ سمجھ لےا جائے کہ اےبسلوٹلی ناٹ کہنے والے اےبسلوٹلی ےس کہنے کےلئے بے چےن ہےں۔