سید مجاہد علی
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق فوجی عدالتوں نے سانحہ 9 مئی کے باقی ماندہ 60 افراد کو بھی سزائیں سنا دی ہیں۔ سزا پانے والوں میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی شامل ہیں جنہیں دس سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ یہ حکمت عملی ملک میں بحران اور عدم اعتماد میں اضافہ کرے گی۔سزائوں کا اعلان ہونے کے بعد فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے تمام مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ تاہم یہ فیصلے اس مشکوک بنیاد پر استوار ہیں کہ سپریم کورٹ اس اصول پر کیا فیصلہ کرتی ہے کہ کیا کسی سویلین کا معاملہ فوجی عدالت میں بھیجا جا سکتا ہے۔ ماہرین قانون کی رائے میں یہ درست طریقہ نہیں ہے کیوں کہ فوجی عدالتوں کی کارروائی میں شفافیت نہیں ہوتی۔اگرچہ فوج کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ تمام شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں سزائیں دی گئی ہیں۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے کی گئی کارروائی میں کوئی پبلک سکروٹنی نہیں تھی۔ کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ جیسا کی پہلے ہی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سانحہ 9 میں ملوث ہونے پر جن 105 لوگوں کے معاملات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے تھے، ان میں سے سب کو سزائیں ہوئی ہیں۔ پچھلے سال اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا جن بیس ملزموں کو ایک سال سے کم سزا ملی تھی، انہیں سزا پوری ہونے پر یا معاف کر کے رہا کر دیا گیا ہے۔ باقی لوگوں کے مقدمے سپریم کورٹ کے کنفیوژن اور ججوں کے باہمی اختلاف کی وجہ سے مسلسل زیر التوا تھے۔ پہلے سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ کیا تھا کہ کہ شہریوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جا سکتے۔ انہیں عام عدالتوں میں منتقل کیا جائے۔ اس فیصلہ کے خلاف وزارت دفاع اور تین صوبوں کی طرف سے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی۔ ایک نئے چھ رکنی بینچ نے پانچ ایک کے تناسب سے فیصلہ دیا کہ فوجی عدالتیں مقدموں کی کارروائی مکمل کر لیں لیکن عدالت عظمی کا حتمی حکم آنے تک ان کا اعلان نہیں ہو سکتا۔26 ویں آئینی ترمیم کے بعد معاملہ آئینی بینچ کے پاس چلا گیا ہے۔ حکومت کی درخواست پر آئینی بنچ نے حکم دیا تھا کہ سزائوں کا اعلان کر دیا جائے لیکن یہ فیصلے اس بارے میں سپریم کورٹ کے حتمی حکم سے مشروط ہوں گے۔ حالانکہ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ کسی عدالت کو کوئی ایسا فیصلہ کرنے کا حق دے دیا جائے جس کے بارے میں ملک کی اعلی ترین عدالت یہ بھی طے نہیں کر پائی ہے کہ وہ اس کی مجاز ہے بھی یا نہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ قیاس کر لیا جائے کہ کل کو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں یہ مقدمے نہیں بھیجے جا سکتے تھے اور ان سارے معاملات پر سزائیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔ یوں یہ سارے مقدمے دوبارہ چلانا پڑیں گے۔اس معاملہ کے دوسرے پہلو کے بارے میں ماہرین قانون، انسانی حقوق کی تنظیمیں حتی کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین بھی یہ کہہ رہی ہے کہ اس طریقے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ پاکستان نے چارٹر آف ہیومن رائیٹس پر دستخط کیے ہوئے ہیں، اس کے تحت پاکستان یہ طریقہ اختیار نہیں کر سکتا۔ بیرونی ملکوں نے اسی لیے ان فیصلوں کو قابل افسوس قرار دیا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ اعلی عدالتیں ان پر کیا فیصلے کرتی ہیں۔ البتہ اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس معاملے میں پکڑے گئے لوگوں کے خلاف مقدموں کی ساری کارروائی ابھی تک مشتبہ اور مشکوک ہے۔ اپیل پر اگر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سزائوں کو قرار غلط دیتی ہے تو عدالتی کارروائی کے دوران میں قید رہنے والے افراد کو مقید رکھنے کا کیا جواز ہو گا۔ کون جواب دے گا کہ کسی بھی شہری کو بغیر کسی قانونی جواز کے سزا دلوائی، قید رکھا گیا اور اس کے بعد عدالتی نظام نے اس کو بری کر دیا۔فوجی عدالتوں کی عدم شفافیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہاں جو بھی مقدمہ جائے گا، اسے لازمی سزا دی جائے گی۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ عدالتوں نے تمام شواہد دیکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 105 لوگوں کے مقدمے وہاں گئے تھے۔ ان میں سے کس ایک کو بھی ثبوت نہ ہونے یا شبے کی وجہ سے بری نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی عدالت میں جو جج بیٹھے ہوتے ہیں، انہوں نے یہ فرض کیا ہوتا ہے کہ جو مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو اسے لازمی سزا دیں۔ اسی سے یہ کارروائی مشتبہ ہو جاتی ہے۔ اسی لیے قانونی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انہیں ماننے پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس صورتحال میں حکومت کی کیا مجبوری تھی کہ وہ سانحہ 9 مئی کے مقدمے لازمی طور سے فوجی عدالتوں میں بھیجنا چاہ رہی تھی۔ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت فوج کو خوش کرنا چاہ رہی تھی۔ اس وقوعہ پر فوج سخت ناراض ہے۔ اس روز تحریک انصاف کے کارکنوں نے متعدد ایسے مقامات پر حملے کیے جو عسکری تنصیبات ہیں، شہدا کی یادگاریں ہیں یا سیکیورٹی کے لیے ضروری جگہیں ہیں۔ انہیں حساس مقامات کہا جاتا ہے۔ سیاسی احتجاج میں اگر عسکری اداروں کو ملوث کیا جائے گا تو اس سے فوج کو تکلیف ہوگی۔ اسی لیے فوج نے اس پر بہت سخت رد عمل دیا تھا۔فوج کے شدید رد عمل کا ایک سبب یہ بتایا جاتا رہا ہے فوج کے اندر سے بہت سے لوگ اس میں ملوث تھے۔ جس پر فوج کو بہت شدید تشویش ہے۔ فوجی اہلکار یا ریٹائر فوجی، سویلین سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر فوجی تنصیبات پر حملے کروانے کے ذمہ دار تھے۔ حالانکہ ان کی وفاداری فوج کے ساتھ ہونی چاہیے تھی۔ فوجی ناراضی کے باوجود سویلین سیاسی حکومت کے لیے یہ غور کرنا ضروری تھا کہ ایک طرف فوج کو مطمئن کرنا ہے تو دوسری طرف ملک کے نظام انصاف کو بھی چلانا ہے۔ تاہم واضح ہو رہا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نے سانحہ نو مئی کے بعد یہ طے کیا کہ یہ اس واقعہ کی تمام سزا تحریک انصاف کو ملنی چاہیے۔ اس روز کے واقعات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف، اس کے قیادت کو سخت سزا دی جائے تاکہ سیاسی میدان صاف ہو جائے اور مد مقابل میدان سے ہٹ جائے۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ گزشتہ فروری میں ہونے والے انتخابات میں حکومت کی خواہش کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا کہ وہ کلین سویپ کر لیتی۔ مسلم لیگ نون بہت سے دعوے کرتی آ رہی تھی کہ اپریل 2022 کے عدم اعتماد اور حکومتی تبدیلی کے بعد معیشت بہتر ہوئی ہے۔ جب دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تو تحریک انصاف کی پیدا کردہ ساری معاشی پریشانی ختم کر دیں گے۔شہباز شریف حکومت تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے میں کسی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی پیدا ہوئی، عدالتی نظام پر اعتماد کمزور ہوا اور حکومت کے علاوہ بالواسطہ طور سے فوج کے ارادوں کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ ان سوالات کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حکومت فوجی عدالتوں کے فیصلوں سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ دنیا چاہے جو بھی کہے، ہم نے بالکل قانون و انصاف کے مطابق فیصلے کرائے ہیں۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ ان فیصلوں کو ملک کا نظام یعنی سول سوسائٹی اور وکلا کی اکثریت بھی جائز طریقہ نہیں مانتی۔ اکثر سیاسی کارکن بھی یہی کہیں گے یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف کا رویہ دیکھا جائے تو وہ بھی متوازن نہیں ہے۔ انہوں نے ابھی تک اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی کہ یہ ایک سیاسی غلطی تھی۔ 9 مئی کو جو بھی مظاہرے ہوئے اور وہ کسی کی بھی غلطی تھی، وہ غلط اقدام تھا۔ عین ممکن ہے کہ اس دن فوجی تنصیبات پر حملوں کا فیصلہ کہیں اوپر سے نہ آیا ہو، پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو بلکہ جس طرح ہوتا ہے کہ فوری طور سے جوش میں کارکن نکلے اور ایسے میں کچھ غلط واقعات ہو گئے۔ سیاسی بلوغت کا تو یہی تقاضا تھا کہ وہ غلطی مان لی جاتی اور اس پر معافی مانگ لی جاتی۔ اس طریقہ کی مذمت کی جاتی اور ان واقعات میں ملوث کارکنوں کو خود پارٹی سزا دیتی۔ تحریک انصاف نے البتہ زوال کے بعد صرف اقتدار میں آنے کے لڑائی لڑی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پارٹی نے سیاست بہتر بنانے اور نظام میں اصلاحات کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ انہوں نے قیاس کر لیا کہ اگر ہم الٹا فوج پر الزام لگائیں گے یعنی کہ اسے فالس فلیگ آپریشن کو کہیں گے تو ہمیں اس میں کامیابی ہوگی۔دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے بھی اور فیصلے آنے کے بعد بھی عمران خان کے ایکس اکائونٹ سے نو مئی کو فالس فلیگ آپریشن کہتے ہوئے انہیں انصاف کا خون کہا گیا۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ جب تک ویڈیو فوٹیج نہیں دکھائی جائے گی اور کھلی عدالت میں الزام ثابت نہیں ہوتا، ہم ان مقدموں کو نہیں مانتے۔ پارٹی واقعہ کو فالس فلیگ آپریشن کہنے کے باوجود پارٹی ان میں ملوث لوگوں سے اظہار لاتعلقی نہیں کرتی۔ اگر یہ سارا آپریشن یا احتجاج فوج نے ہی منظم کیا تھا تو پھر پی ٹی آئی کے لوگ کیسے اس میں ملوث ہوئے؟ یہ مان لینا بہت مشکل ہے کہ اس روز کے واقعات کے ثبوت نہیں ہیں۔ کچھ نہ کچھ شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ یہ ایک بالکل الگ بات ہے کہ سویلین عدالتوں میں وہ شواہد کس حد تک قبول کیے جا سکتے ہیں۔سیاسی لحاظ سے نظام انصاف کے حوالے سے یا انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جائے تو فوجی عدالتوں کے فیصلوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی شہرت متاثر ہوئی ہے۔ ان فیصلوں سے سیاسی نظام کمزور ہوا ہے، شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے ہیں، عدالتی نظام پر شکوک و شبہات بڑھے ہیں اور عالمی سطح پر بھی پاکستانی انصاف کے بارے میں سوال اٹھے ہیں۔ یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ امریکہ، یورپ یا برطانیہ کے کہنے سے پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا اور ان ملکوں کی بات ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ لیکن پاکستان کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مہذب دنیا میں ایک مہذب قوم کے طور پر زندہ رہنے کے لیے ایک شفاف جمہوری نظام کو آگے چلانا ہو گا۔ جو ملک کے آئین کا مطابق ہو۔فوجی عدالتوں سے ہونے والی سزائوں کو حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ایک طرف مل بیٹھ کر مسئلے حل کر نے کی بات کی جا رہی ہے، دوسری طرف تحریک انصاف کے لوگوں کو قانونی نظام کے تحت سزائیں دلانے کی بجائے فوجی عدالتوں سے سزائیں دلا کر زبردستی جیلوں میں بند رکھا جا رہا ہے۔ اس میں اگر توازن تلاش نہیں کریں گے اور یہ تضاد دور نہیں کیا جائے گا تو بحران سے نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔ اسی طرح تحریک انصاف مسئلہ کا سیاسی حل چاہتی ہے تو فالس فلیگ آپریشن جیسے الزامات سے اعتماد سازی نہیں ہو سکتی۔ اس موقف سے تحریک انصاف کو صرف نقصان ہوا ہے۔دونوں طرف سے معاملات پر از سر نو غور ہونا چاہیے۔ لیکن سب سے پہلے سپریم کورٹ فوری طور پر اس معاملے میں اصولی فیصلہ جاری کرے تاکہ طے ہو سکے کیا فوجی عدالتوں کے فیصلے لاگو ہو بھی سکتے ہیں۔ ملک کو آگے لے جانے، قوم کو سکون فراہم کرنے اور موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اعتماد سازی کی فضا پیدا کی جائے۔ عام شہریوں کو اس تنازعہ میں آلہ کار نہ بنایا جائے۔