گلگت بلتستان کا سیاسی مسئلہ اور اس کا حل

عاشق فراز

13 جنوری کو قاسم بٹ کا واٹس ایپ پیغام ملا کہ اگلے دن پانچ بجے فیڈرل پریس کلب اسلام آباد میں سکردو ٹی وی کے زیر اہتمام ایک مباحثہ کا انتظام کیا جارہا ہے جس میں شرکت ضروی ہے۔ موضوع کا پوچھا تو پتہ چلا کہ گلگت بلتستان کے سیاسی مسائل اور ان کے حل پر بات ہوگی اور بڑی پارٹیوں کے مرکزی لیڈر اس مباحثہ کا حصہ ہونگے ۔ اس مباحثے کا اہتمام مشترکہ طور پر روزنامہ سلام، فکر سوشل فورم اور سکردو ٹی وی نے کیا تھا۔سکردو ٹی وی ایک ڈیجیٹل چینل ہے جو سکردو کے ہمارے کچھ دوست چلارہے ہیں اور کم ہی عرصے میں اس چینل نے متنوع موضوعات پر پروگرام کرکے گلگت بلتستان میں اپنا الگ اور ممتاز مقام بنایا ہے۔ پریس کلب اسلام آباد میں گلگت بلتستان کی بڑی جماعتوں کے نمائندہ افراد کے ساتھ یہ نشست نہایت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ ہمارے ہاں اس طرح کے مباحثوں کا بہت کم رواج ہے۔گلگت بلتستان 1947'48 سے مختلف سیاسی اور انتظامی مسائل کا شکار رہا ہے۔ ان میں FCR کا نفاذ، آئینی شناخت کا مسلئہ ،بنیادی جمہوری حقوق کی عدم فراہمی ، مارشل لا کا نفاذ، مذہبی انتہا پسندی جیسے واقعات و حالات نہایت اہم رہے ہیں جنہوں نے یہاں داخلی انتشار اور افتراق کو فروغ دیا۔اب کافی عرصہ سے اس سماجی کشاکش میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے جو نہایت خوش آئند ہے گو کہ یہ علاقہ آج بھی بنیادی آئینی حیثیت سے محروم ہے۔یوں فکر سوشل فورم کے تحت منعقدہ اس مذاکرہ میں گلگت بلتستان کی اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اہم رہنمائوں نے شرکت کی جن میں موجودہ حکومت کے ترجمان سمیت پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، جمعیت علمائے اسلام ، تحریک انصاف ، تحریک اسلامی اور وحدت المسلمین شامل تھیں۔ یوں اس مذاکرہ میں حافظ حفیظ الرحمان ، امجد حسین ایڈووکیٹ ، حاجی رحمت خالق ، میثم کاظم ، وزیر سلیم ، منیر حسین اور فیض اللہ فراق نے شرکت کی۔ مذاکرہ کا انتظام فیڈرل پریس کلب اسلام آباد کے ہال میں کیا گیا تھا جہاں گلگت بلتستان کی سیاسی اور سماجی شخصیات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی نیز نیشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی موجود تھے۔مذاکرے کا فارمیٹ کچھ اس طرح رکھا گیا تھا کہ پینل میں شریک سیاسی قیادت اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق گلگت بلتستان کے اہم سیاسی مسائل کا ذکر کریں گے اور پھر بعد ازاں اپنے بیان کردہ مسئلہ کا حل تجویز کریں گے۔ مذاکرہ کے تیسرے مرحلے میں شرکا محفل براہ راست سوالات کریں گے اور آخر میں ایک متفقہ اعلامیہ جاری ہوگا۔ مذاکرہ کی نظامت مشہور شاعر ذیشان مہدی نے کی جبکہ قاسم بث، جعفر عشور، محمد علی انجم  اور امین منظور نے معاونت اور انتظام و انصرام کیا۔اگرچہ اس مذاکرے میں گلگت بلتستان کے معاشی ، تعلیمی ، توانائی اور بے روزگاری کے مسائل بھی زیربحث رہے تاہم تمام پارٹیوں کے ذمہ داران کا اس بات پر اتفاق رہا کہ تمام مسائل کی بنیاد آئینی شناخت اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں پنہاں ہیں۔ایک بات جو پہلے نہیں کہی جاتی تھی وہ اب سب تسلیم کرتے نظر آئے کہ تاریخی طور پر مسئلہ کشمیر کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے لہذا وفاق پاکستان آئین کے شق نمبر ایک میں شامل کرنے سے گریزاں ہے۔اب دوسرے ممکنات کیا ہیں کی جس پر بحث ، یکسوئی اور سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے لہذا اس حوالے سے 2009  اور 2018 کے گورننس آرڈر بھی زیر بحث رہے۔ اپوزیشن لیڈر نے 2009  اور 2018 کے آرڈرز کو خودساختہ اور مسلط کردہ قوانین قرار دیا اور ان کا موقف تھا کہ ان آرڈرز کی تشکیل میں گلگت بلتستان اسمبلی کا کوئی ان پٹ یا کردار نہیں۔ جبکہ حفیظ الرحمن اور امجد ایڈوکیٹ نے اپوزیشن لیڈر کے موقف کی سختی سے تردید کی اور بتایا کہ ان دونوں سیاسی اصلاحات کے دوران اس وقت کے اسمبلی ممبران باقاعدہ وفاقی کمیٹی کا حصہ رہے ہیں اور ان کی رائے کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ان دونوں وفاقی پارٹیوں کے صدور کا کہنا تھا کہ ہاں یہ بات ضرور جاسکتی ہے کہ ان آرڈرز میں کمی بیشی ہے اور انہیں مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے مگر یہ کہنا کہ یہ مسلط کردہ ہیں کسی طور پر مناسب نہیں۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ سرتاج عزیز کمیٹی میں بھی نمائندگی تھی اور پی ٹی آئی دور حکومت کی فروغ نسیم کمیٹی نے بھی گلگت بلتستان کے ذمہ داروں سے مشاورت کی تھی۔اس مذاکرہ میں گلگت بلتستان کی شناخت کے حوالے سے تین نکات واضح طور پر سامنے آئے اور ان کے حسن و قبح پر  نقد و جرح کیا گیا۔

گلگت بلتستان نے آزادی بزور بازو خود حاصل کی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لہذا اسے مکمل آئینی حیثیت ملنی چاہیے۔

گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا نظام دیا جائے۔

کشمیر کے مسئلے کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری آئینی حیثیت دے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی جائے۔

پہلے نکتے پر تقریبا سب کا اتفاق رہا کہ پاکستان اپنے بین القوامی وعدوں اور کشمیر پر اپنی بنیادی پالیسی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حیثیت نہیں دے پارہا ہے گو کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر اس قضیہ سے الگ ہے۔اس حوالے سے چند اہم نکات زیر بحث رہے وہ یہ کہ 1947 سے پہلے بھی اس خطے کی جیو اسٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ تھی لہذا اسی حساب سے گلگت بلتستان کے حوالے سے خاص پالیسی رہی تھی۔ یہ غالبا برٹش انڈیا کی اس فارورڈ بارڈر پالیسی کی طرف اشارہ تھا جس کے تحت اس خطے کو بفر زون رکھنے کے لئے پہلے مہاراجہ گلاب سنگھ کی پیٹھ تھپتھپائی گئی اور بعد ازاں گلگت ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مذاکرہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت بھی گلگت بلتستان کی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن نہایت اہم ہے لہذا اس کی حثیت کے تعین کے لئے global relevancy کا فیکٹر بھی حائل ہے۔ اگرچہ انڈیا نے کبھی بھی اپنے تئیں کشمیر کو مسئلہ قرار نہیں دیا ہے بلکہ وہ تو اسے اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے۔دوسرا آپشن آزاد کشمیر طرز کا نظام حکومت کا ہے جس کے لئے بھی گلگت بلتستان سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس حوالے سے یہ بحث رہی کہ کیا آیا اس طرز حکومت کے لئے جو لوازمات متعین ہیں اس کے لئے گلگت بلتستان کے عوام تیار ہیں۔ اس طرز کے انتظام میں کچھ compulsions  بھی ہیں جن کے تحت ریونیو کی وصولی کے لئے FBR کی موجودگی بھی برداشت کرنا ہوگی۔ علاہ ازیں دیگر صوبوں کی طرح آزاد کشمیر گورنمنٹ کی اپنی اسٹیٹ لینڈ یا گورنمنٹ لینڈ بھی ہے جبکہ دوسری قسم پرائیویٹ لینڈ ہے۔ اسٹیٹ لینڈ حکومت آزاد کشمیر کی مالی اور معاشی مضبوطی کے کام آتی ہے جبکہ گلگت بلتستان میں زمینوں کا مسئلہ درپیش ہے اور عوام لینڈ ریفارمز کی مخالفت کے لئے کمربستہ ہیں۔تیسرا نکتہ جس پر زیادہ تر اجماع پایا گیا وہ یہ تھا کہ وفاق پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی اختیارات دے دے جس کے تحت 2009  اور 2018 کے آرڈرز میں موثر تبدیلی کی جائے اور سرتاج عزیز کمیٹی اور فروغ نسیم کمیٹی کی سفارشات کو پیش نظر رکھا جائے۔ عبوری آئینی صوبے کے حوالے سے گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت سمیت پچھلی تین حکومتوں کی صوبائی اسمبلیوں نے بھی متفقہ قراردادیں منظور کی ہیں۔ علاہ ازیں موجودہ اسمبلی نے بھی عبوری آئینی صوبے کے حوالے سے چند اہم گزارشات وفاق کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ تمام پارٹیوں کی لیڈرشپ گلگت بلتستان کے حوالے سے اپنی پارٹی پالیسی سے بلند ہوکر ایک سیاسی اور معاشی چارٹر پر متفق ہونا چاہئے اور اس کے حصول کے لئے اپنی اپنی پارٹیوں میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام بھی تندہی سے کرے۔ نیز مستقبل میں جس  کسی کی بھی حکومت بنتی ہے اس چارٹر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تگ و دو کرے اور دوسری پارٹیاں ان کے پشت پر کھڑی ہوں۔ایک سیاسی اور معاشرتی کمزوری جو گلگت بلتستان کی آئینی و دستوری حیثیت کے حصول میں بڑی رکاوٹ قرار دی گئی وہ social cohesion کا فقدان ہے ۔ مذاکرے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ہمارے رویوں میں تضاد کا عنصر نمایاں ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے اجتماعی شعور  پروان چڑھنے کے بجائے گروہی ، لسانی ،مذہبی اور علاقائی تفرقات اہمیت حاصل کررہے ہیں۔ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ آئینی مسئلے کو اجتماعی شکل میں حل کرنے کے بجائے اسے محدود سوچ کی عینک سے دیکھنے کی روش جاری ہے۔اس تنگ نظری کا حاصل یہ ہے کہ ہم پچھتر سال سے ایک ہم آہنگ قوم بنے سے محروم رہے اور الگ الگ ڈفلی بجانے کی وجہ سے ہماری ہر آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ہے۔ایک اہم بات جو زیر بحث رہی وہ صوبائی حکومت کا معاشی استحکام ہے اور وہ اس وقت ممکن ہے جب حکومت اپنے لئے کچھ ریونیو اکٹھا کرے۔ اس ضمن میں گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں کا استثنا دے کر سیاحوں اور  غیر مقامی بڑے بڑے کاروبار سے منسلک افراد یا اداروں سے ٹیکس لینا ہوگا۔ ایک مناسب ریونیو کلیکشن نظام نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں سیاح آتے ہیں اور ان سے ایک روپیہ بھی حکومت کو نہیں مل رہا ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے نجی ہوٹل ، ٹیلی کام کے ادارے ، ورکس آرگنائزیشن سے بھی کچھ موصول نہیں ہورہا ہے۔فکر سوشل فورم کی جانب سے منعقدہ اس مذاکرہ کو نہایت اہم قرار دیا گیا کیونکہ اس طرز کے مباحثوں کی ضرورت ہے جہاں وسیع القلبی سے ہر ایشو پر مکالمے کی روایت فروغ پائے۔مشترکہ اعلامیہ میں عبوری آئینی صوبے کے لئے مشترکہ جدوجہد کا اعادہ کیا گیا اور اس ضمن میں ایکٹ آف پارلیمنٹ بنانے کے ملک کی تمام چھوٹی بڑی مذہبی، قومی اور سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادتوں سے ایک پلیٹ فارم کے توسط سے ملاقات کرنے کی تجویز منظور کی گئی۔