نثار حسین
جس طرح انسان قانون فطرت کے تحت پیدا ہوتا ہے اور پھر اسکی پرورش اسے مختلف مذاہب ،رسم ورواج اور ثقافت کے قالب میں ڈھال دیتی ہے ،اسی طرح میرے نزدیک وطن سے محبت کا جذبہ بھی فطری ہے ،بس کچھ لوگوں کی اس حوالے سے ترجیحات انکے احساسات کو تبدیل کر دیتی ہیں ،مجھے وطن کی حقیقی یاد تو دیار غیر میں آئی جب میں اپنے صاحبزادے کی دعوت پر آسٹریلیا میں تھا ،میرے جسم نے اگرچہ اس خوبصورت ملک کی سیر کی ہوگی تاہم روح پاکستان میں ہی پرواز کرتی رہی ،ذہن پر نقش کئی وطن کے خوبصورت مقامات مجھے گھیر کر آسٹریلیا کے سیاحتی مقامات کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد بہتر لگے اور انکی یاد بھی شدت سے ستانے لگی ،میں اپنی فیملی کے ساتھ ملیبورن جیسے شہر میں بھی اداس ہی رہا اور مجھے پھر لاہور میں گزرے بچپن کے دن بھی بہت یاد آئے۔۔۔۔۔۔اس دوران میں پاکستان کے حالات سے بھی باخبر رہا ،جدید میڈیا کی کرامات سے روز شام کو پاکستان کے بارے میں اپ ڈیٹ ہوتا رہا ،بقول شاعر ۔
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
خاکسار نثار حسین جیسے دل پاکستان ہی میں چھوڑ آیا تھا،بہرحال پاکستان میں باالخصوص لاہور کے دوستوں کے ساتھ گاہے بگاہے گپ شپ رہتی اور پھر میں نے ایک شام اچانک واپسی کا ارادہ باندھ لیا ،بیٹے کے باربار اصرار پرکچھ عرصے بعد واپس آنے کے وعدے پر پاکستان آگیا ہوں ،یہاں پر آنے کے فوری بعد اسلام آباد سے لاہور پہنچا اور ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضری دی ،اس طرح کچھ سکون قلب محسوس ہوا اور جسم سے غائب ہونے والی روح جیسے واپس آگئی ہو ،پاکستان کے سیاسی حالات دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ،کئی طرح کے بحرانوں میں بہت کچھ کھونے کے باوجود سیاسی استحکام پیدا نہیں ہورہا ،کچھ دنوں سے اسلام آباد سے پھر لاہور جانے کا سوچ رہا تھا تو بھائی جاوید چودھری کا کالم دیکھ کر حالات کی سنگینی کا بھی اندازہ ہوا راستے بھی بند ہونے کی اطلاعات ملی ہیں ،پہلے کینیا میں ارشد شریف کے قتل کا کرب جھیل رہے تھے تو پھر لانگ مارچ پر فائرنگ کے واقعہ نے ماحول سوگوار بنادیا ،تاہم اس دوران پاکستان کے اندریں حالات اب کسی طرح کے تصادم کے متحمل نہیں ،پاکستان کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے ملکی سیاسی صورتحال کواستحکام دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے سب سے پہلے تمام سیاستدانوں کو وطن کی محبت کو مقدم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا ،ساری خرابیاں ہی اس وقت سیاست میں عدم برداشت کے رویوں سے پھیل رہی ہیں ،حقیقی جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ملکی مفاد کی خاطر تمام سیاستدان اقتدار کو ثانوی حیثیت دیکر اپنے اختلافات بھلائیں اور ملکر میثاق معیشت کا معاہدہ کرکے آگے بڑھیں ،وطن کو بحرانوں سے نکالنے کی خاطر سب سیاستدان جب تک ایک صفحے پر نہیں آئیںگے ملک ترقی نہیں کرسکتا ،اس وقت ملک میں افراتفری اور عدم برداشت نے ماحول میں کشیدگی پیدا کررکھی ہے ۔پاکستان میں آج کے دور کی پولرائزیشن یا سیاسی تقسیم نے ذاتی پسند ناپسند کو بالکل مخالف سمتوں میں دھکیل دیا ہے کہ لوگ عدم برداشت سے تشدد کا راستہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔چند لڑکے پوری قوم کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ریاست کی رٹ پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں ،اس پورے قضیے کا دردناک پہلو یہ ہے کہ سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر بلاجواز قومی اداروں کو ملوث کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اقتدار کے کھیل میں عروج وزوال کے لکھے ہوئے قدرت کے امر کو بھی کسی بیرونی سازش کا شاخسانہ قرار دیکر اس میں بھی قومی اداروں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں ۔سیاست میں الزام تراشیوں کی اس بدعت کو اب ختم ہونا چاہئے ،عوام کو درست سمت دکھانے کی کاوش کرنے والے اب سامنے آئیں اور عوام کو مایوسیوں کے دلدل سے نکالیں ،قوم بھی یکسوئی سے ملک کے مفادا ت کے خلاف برسر پیکار عناصر کے جھانسے میں آنے سے گریز کریں ،پاکستان میں اس وقت کثیر الجہتی بحرانوں کی یلغار ہے جس کی ذمے داری کسی ایک سیاسی جماعت پر عائد نہیں کی جاسکتی اس لئے تمام مسائل سے عوام کو چھٹکارہ دلانے کے لئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہوگی جس کے لئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی بیان بازی کچھ نرم کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا ،قومی مسائل پر وسیع ڈائیلاگ کے ذریعے اب اتفاق رائے پیدا کرنے کی راہ اپنانا ہوگی کیونکہ پاکستان کے تمام بحرانوں کا حل بھی اسی بات پر عمل پیرا ہونے میں ہے ۔وقت کا اب تقاضا بھی یہی ہے کہ سیاستدان مفاہمت کے ایسے عمل سے وطن کیساتھ محبت کا عملی مظاہرہ بھی کریں ۔