جی ایم شجاع
بلتستان کو علم و ادب کے لحاظ سے زرخیز سمجھا جاتا ہے جہاں ماضی حال اور
مستقبل تینوں کا جائزہ لیا جائے تو نثر اور نظم دونوں میں بڑی قد آور
شخصیات دیکھنے کو ملیں گی۔ مادری زبان بلتی کے ساتھ قومی زبان اردو میں بھی
نہ صرف قسمت آزمائی کی گئی بلکہ ملک بھر میں بلتستان کے ادبا نے اپنا لوہا
منوایا۔ افضل روش پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور محکمہ برقیات سے
وابستہ ہو کر عوام کی خدمت میں دن رات سرگرداں ہیں۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ
ہے کہ افضل روش اپنے شعبے اور محکمانہ زمہ داریوں کو متاثر کئے بنا اپنے
ادبی ذوق و شوق کو بھی ساتھ لئے ہوئے ہیں۔ افضل روش بلتی اور اردو دونوں
زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور اعلی پائے کی کرتے ہیں۔ بلتستان کی معروف
ادبی تنظیم ”بہار ادب سکردو“کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے اور آج کل ”پاک
برٹش آرٹس کونسل انٹرنیشنل“کے بلتستان رینج کے صدر کی حیثیت سے علم و ادب
کے فروغ کےلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ افضل روش کی بلتی زبان
میں لکھی گئی شہرہ آفاق نظم ”نی آنو“میری ماں نے دیکھتے ہی دیکھتے کرگل،
لداخ، بلتستان سمیت دنیا بھر میں بلتی زبان بولنے اور سننے والوں کے حلقوں
میں دھوم مچا دی۔ افضل روش عوامی شاعر ہونے کے ناتے جہاں عوامی مسائل کو
بلتی اور اردو میں شعری صورت میں اجاگر کرتے ہیں وہیں معاشرتی تفریق،
بیرونی ثقافتی یلغار، تعمیر وترقی ترقی کے نام پر بلتستان کے قدیم اقدار،
ثقافت، زبان اور بود و باش کو ملیامیٹ ہوتے دیکھ کر بے چین دکھائی دیتے
ہیں۔ ماضی میں سکردو کو ڈیم بنانے کےلئے کئے گئے سروے پر افضل روش کے کہے
گئے ان اشعار سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے
مری تہذیب ڈوبے گی، ثقافت ڈوب جائے گی
سکردو ڈیم سے ہر ایک روایت ڈوب جائے گی
مرا گلشن مرا صحرا سبھی کچھ ڈوب جائے گی
مرے اسلاف کی دلکش امانت ڈوب جائے گی
مٹے گی یوں ہزاروں سال کی تاریخ بھی پل میں
یہاں انچن کی تاریخ شجاعت ڈوب جائے گی
نہ سیاحوں سے پھر ہوگی مرے اس شہر میں رونق
سکردو ڈوب جائے گا سیاحت ڈوب جائے گی
افضل
روش انسانیت سے پیار کرنے اور مختلف تعصبات و تفرقات میں کئے جانے والے
مظالم کے خلاف فکری جنگ لڑنے والے شاعر ہیں جس کا اندازہ ان کے اس قطعہ سے
لگایا جا سکتا ہے۔
انساں کو جلا کر جو پشیمان نہیں تھا
وہ میری نظر میں تو مسلمان نہیں تھا
اقبال تیری فکر کتابوں میں رہی گم
اقبال ترے شہر میں انسان نہیں تھا
افضل
روش اپنی دھرتی ماں سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اور دھرتی ماں سے محبت کو
ایمان کا حصہ سمجھنے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ان کے ایک مشہور قطعے سے
ان کی دھرتی ماں سے محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کون کہتا ہے فدا کار نہیں ہو سکتے
اپنی دھرتی کے وفادار نہیں ہو سکتے
میں ہوں جی بی مری مٹی سے وفا پھوٹتی ہے
مرے بچے کبھی غدار نہیں ہو سکتے
افضل
روش کو بلتی زبان کا پہلا افسانہ نگار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ روش کی
ادبی تخلیقات کو ملک بھر کے حلقوں میں بیحد سراہا جاتا ہے۔ وہ اعلی پائے کے
شاعر اور نثر نگار ہیں جو ادبی میدان میں اونچی اڑان بھرنے کےلئے دن رات
ایک کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ
کل مرے نام کا ابھرے گا چمک کر سورج
آج میری کوئی پہچان نہیں تو نہ سہی
بہت
مختصر سے عرصے میں افضل روش نے اپنی محنت لگن شوق اور ادب سے بے انتہا
محبت کے بل بوتے پر ادبی میدان میں اپنا بلند مقام پیدا کر دیا ہے۔ حال ہی
میں ان کی نئی کتاب ”فلک شگاف“شائع ہو چکی ہے۔ فلک شگاف گلگت بلتستان کی
ادبی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ یقینا گلگت بلتستان خاص طور پر سر
زمین بلتستان علم و ادب کے حوالے سے بہت ہی زرخیز ہے اگر اس خطے کے ادبا و
شعرا کو مواقع فراہم کئے گئے تو ادبی دنیا میں تہلکہ مچا سکتے ہیں کیونکہ
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
افضل
روش صاحب کو فلک شگاف کی کامیاب اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ
کتاب کو بطور تحفہ خاص پیش کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
زمانہ مجھ پہ ذرا سوچ کر ستم کرنا
فلک شگاف مری آہ بھی دعا بھی ہے