ایمرجنگ ٹوبیکو مصنوعات کا استعمال

 گلگت بلتستان کے ممبر اسمبلی جاوید منوا سے سیڈو کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر کی ملاقات اور ایمرجنگ ٹوبیکو مصنوعات کی استعمال کو روکنے کے حوالے سے گفتگو میں جاوید منوا نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ کے استعمال کو روکنے کے لئے اسمبلی میں اس حوالے سے آواز اٹھائی جائے گی۔ گلگت بلتستان میں تمباکو کے استعمال کو روکنے کی اشد ضرورت ہے نوجوان نسل آئے روز تمباکو کی طرف راغب ہو رہی ہے ایسے میں تمباکو مافیا کی جانب سے نوجوان نسل کو تمباکو کی طرف راغب کرنے کے لئے نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں متعارف کروائی جارہی ہیں جو کہ قابل تشویش ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیئے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ تمباکو مافیا کو لگام دینے اور اپنے ارادوں میں ناکام کرنے کے لئے گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020 میں ترامیم کی فوری ضرورت ہے جس کے بعد تمباکو مافیا کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ آج کل بازار میں تمباکو کی نئی اشیاکھلے عام فروخت ہو رہی ہیں جس کو نوجوان نسل بڑے شوق سے خرید رہی ہے۔ ان اشیاکو ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر آج ہم اس پر توجہ نہیں دینگے تو آنے والے کل میں ہماری نئی نسل منشیات کی عادی ہوگی کیونکہ تمباکو کا استعمال منشیات کی طرف راغب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے۔ تمباکو کا سب سے عام استعمال سگریٹ میں ہوتا ہے، اس کے علاوہ چبانے کے لیے، نسوار اور اس کے عرق کو بھی ہلکے نشہ آور مادے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان تمباکو کی پیداوار اور استعمال کرنے والے سر فہرست 15 ممالک میں شامل ہے۔ہمارے ہاں ہر سال تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں میں دل کے امراض، فالج کا حملہ اور کینسر شامل ہیں۔چھالیہ اور پان کے ساتھ تمباکو کھانے کے عادی افراد میں منہ، غذائی نالی اور معدے کے سرطان کی بیماریاں سب سے عام ہیں۔ پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، ایک تحقیق کے مطابق ملک بھر کی تقریبا 32 فیصد بالغ مردانہ آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے جبکہ سگریٹ نوش بالغ خواتین، آبادی کا کل آٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہم تمباکو کے استعمال کو پان، چھالیہ، گٹکے یا نسوار کے ساتھ دیکھیں تو ملک کی تقریبا 54 فیصد آبادی اس لت میں مبتلا ہے۔ پاکستان بھر میں تمباکو نوشی کے عادی افراد کی تعداد 25 ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور روزانہ تقریبا 1200 کم عمر نوجوان اس عادت کو اختیار کرتے ہیں۔تمباکو نوشی ایک ایسی موت ہے جس کو خود پیسے دے کر خریدا جا رہا ہے ۔ اس زہر سے نہ صرف سگریٹ پینے والا خود متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنے آس پاس موجود اپنے دوستوں اور پیاروں کو بھی نادانستہ طور پر نقصان پہنچاتا ہے ۔ تمام قابلِ انسداد وجہِ اموات میں تمباکو نوشی سب سے نمایاں وجہ ہے۔ سگریٹ نوش افراد کی زندگی عام طور پر غیر سگریٹ نوش افراد سے دس سال کم ہوتی ہے ۔ تمباکو اور کاغذ کے جلنے سے 4000 سے زائد مضرِ صحت کمیکل بنتے ہیں جن میں سے 70سے 80 کمیکل کینسر ، جبکہ دوسرے، دیگر مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں ۔ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال او ر ریسرچ سنٹر آنے والے پھیپھڑوں کے کینسر کے مریضوں میں سے 90 فیصد مریضوں کی بیماری کا تعلق کسی نہ کسی طرح تمباکونوشی سے جڑا ہوتا ہے۔ پھیپھڑوں کا کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس کے دو تہائی مریض ڈاکٹر کے پاس اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے اور اس کا علاج مشکل ہو جاتاہے ۔ تمباکو نوشی سے ہونے والی دیگر بیماریوں میں گلے ، لبلبے اور بریسٹ کینسر کے علاوہ دیگر بیماریاں جیسا کہ سٹروک ، دل کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کی بیماری جسے ایمفازیما بھی ہو سکتی ہے۔ تمباکو نوش افراد اکثر یہ ارداہ کرتے ہیں کہ وہ اس بری عادت کو چھوڑ دیں گے لیکن اس میں کامیابی بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تمباکو میں نکوٹین کی موجودگی ہے جو دماغ پر ایسے اثرات ڈالتی ہے جس سے انسان تمباکوکی طلب محسوس ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ اب ایسی ادویات دستیاب ہیں جو اس لت سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس عمل میں تمباکو نوش فرد کی قوتِ ارادی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کا ساتھ ہی ڈاکٹرز اور گھر والے بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ایک ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ اپنے پاس آنے والے تمام ایسے مریضوں کو سگریٹ کے نقصانات کے بارے میں اچھی طرح آگاہ کر ے ۔ بعض ایسے مریض جن کو کینسر تشخیص ہو چکا ہوتا ہے ، چلنا پھرنا دشوار اور پھیپھڑوں کا بھی برا حال ہوتا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ سگریٹ چھوڑنا مشکل ہے ۔ سگریٹ کی عادت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اینٹی سموکنگ پیچ،گم اور مختلف ا دویات استعمال کروائی جاتی ہیں لیکن یہ تمام کوششیں صرف اس وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب مریض کا ارادہ مضبوط ہو۔شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر میں آنے والے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا زیاد ہ تر افراد تمباکو نوشی کی کسی نہ کسی قسم کے عادی ہوتے ہیں ۔ ایک تشوےشناک امر یہ بھی ہے کہ ان افراد میں نوجوان اور خواتین بھی شامل ہیں ۔ تمباکو نوشی کے عادی 55 سے 80 سال کی عمر کے افرادمیں پھیپھڑوں کے کینسر کی سکریننگ کے لیے امریکا کی فیڈرل ڈرگ اتھارٹی اور برطانیہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کلینکل ایکسیلنس کی جانب سے منظور شدہ ہے۔ اس میں ہائی ریزولیشن تصویر حاصل کرنے کے لیے دی جانے والے ریڈی ایشن کی مقدار نسبتا کم ہوتی ہے۔ اس کا خصوصی استعمال پھیپھڑوں کے کینسرکو ابتدائی مرحلے میں تشخیص کر کے مطلوبہ علاج کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کینسر پر ریسرچ کی عالمی ایجنسی کے مطابق پھیپھڑوں کا کینسر پاکستان میں تیسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر ہے ۔ یہ عمومی طور پر ایسی سٹیج پر شناخت کیا جاتا ہے جب مریض کے بچنے کے امکانات انتہائی کم رہ چکے ہوتے ہیں۔ زیادہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں پھیپھڑوں کے کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص مناسب علاج کے ذریعے مریض کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لو ڈوز سی ٹی پھیپھڑوں کے کینسرکی تشخیص کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں مستند ترین مانا جانے والا عمل ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال میں اس سہولت کی موجودگی سے پھیپھڑوں کے کینسرکی تشخیص اور علاج کی ضمن میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے سگریٹ کی خریداری پر گناہ ٹیکس لگایا گیا ہے جو کہ دراصل سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کی ایک کوشش ہے ۔ اس سے قبل کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی لگائی گئی تھی جو کہ ایک مستحسن قدم ہے اور اس سے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خصوصا امریکہ اور یورپ میں تمباکو نوشی کے شرح کم ہوتی جارہی ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ تو لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی ہے تو دوسری اہم وجہ وہاں کے حکومتوں کی جانب سے اس حوالے سے سخت قوانین کا نفاذ بھی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کرنا قابلِ سزا جرم ہے ۔ اس طرح ان ممالک میں اس عادت کی حوصلہ شکنی کے لیے سگریٹ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے تا کہ یہ کم لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جائے۔ پاکستان میں بھی ایسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ والی نسلیں اس تباہی سے بچ سکیں ۔