صحافیو ں کے تحفظ اور مسائل کے حل کی یقین دہانی

 گلگت بلتستان کے سینئر صوبائی وزیر تعمیرات سید امجد علی زیدی نے کہا ہے کہ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے صوبائی حکومت اس سلسلے میں بھرپور اقدامات اٹھائے گی۔گلگت یونین آف جرنلسٹس کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے جو حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے حکومتی اقدامات کی تشہیر اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔گلگت بلتستان کے صحافی نامساعد حالات کے باوجود بہتر انداز میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ گلگت بلتستان میں میڈیا انڈسٹری کو مستحکم بنانے اور صحافیوں کے مسائل کے حل کےلئے محکمہ اطلاعات کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ایک آزاد اور جمہوری معاشرہ مضبوط، آزاد اور خود مختار پریس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافی موثر طریقے سے اور مسلسل سرگرمیوں اور طرز عمل کو بے نقاب کرتے ہیں،اور اسے بھی جوحکومتی دھوکہ دہی اور بدعنوانی جو جمہوری اداروں کو اپاہج اور ہلاک کردیتی ہے۔ وہ عوام کو باخبر رکھتے ہیں۔ ایسا کر کے وہ حکومت اور اقتدار کے صاحب اختیار اہل کاروں کو دیانت دار رکھتے ہیں۔صحافےوں کا تحفظ انتہائی ضروری ہے ےہ تحفظ صرف جان کی حفاظت پر مبنی نہےں بلکہ ان کے مالی تحفظ کو ےقےنی بناےا جانا چاہےے‘ انہےں اپنی پےشہ وارانہ ذمہ دارےوں کی ادائےگی میں سہولےات فراہم کی جانی چاہےں۔ہم جانتے ہےں کہ حکومتےں معلومات کی ترسیل کو کنٹرول کرنے اور ناموافق یا تنقیدی خبروں کی اشاعت کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہےں، آمرانہ رہنما اور حکومتوں کے لیے ریاستی اہل کار اورغیرریاستی طاقت ور حلقے آزاد میڈیا کو خاموش کرنے کے لیے وسیع مہم چلاتے ہیں۔ صحافیوں، ایڈیٹرز، پبلشرز اور میڈیا کے دیگر کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے ، ان پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہےں، حراست میں لیا جاتا ہے، جسمانی طور پر حملہ کیاجاتا ہے یہاں تک کہ قتل کر دیا جاتا ہے۔جرنلسٹس ودآﺅٹ بارڈرز کے مطابق عالمی سطح پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران تقریبا 1100 صحافی مارے جا چکے ہیں۔حالےہ فلسطےن اسرائےل جنگ میں بھی درجنوں صحافی قتل کےے جا چکے ہےں۔اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل میں امریکی نمائندہ لیزا کارٹی نے کہا کہ امریکہ کو دنیا بھر میں کئی مقامات پرصحافیوں کو ہدف بنا کر ہراساں کیے جانے پر گہری تشویش ہے۔ اس سال، روس کے اندر اور روس کے زیر کنٹرول یوکرین کے کچھ حصوں میں صحافیوں کی حفاظت اور کام کرنے کے حالات خاص طور پر پریشان کن ہیں۔صحافیوں کے تحفظ سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، سفیر کارٹی نے نوٹ کیا کہ دنیا بھر میں صحافت میں خواتین غیر متناسب طور پر دھمکیوں اور حملوں سے متاثر ہوتی ہیں جو ان کے مرد ہم منصبوں کے خلاف دھمکیوں کے مقابلے میں زیادہ تر صنفی اور جنسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور یہ آن لائن بڑھ رہے ہیں۔ ایک آزاد اور خودمختار میڈیا جمہوریت کے لیے ضروری ہوتا ہے اور معلومات اور خیالات کے آزادانہ تبادلے، بدعنوانی سے نمٹنے اور حکومت کو مزید جواب دہ اور شفاف بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کسی بھی صحافی کو اپنا کام کرنے کے لیے ہراساں، دھمکی یا تشدد کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔کمیٹی فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ کے مطابق 1992 سے 2019 تک پاکستان میں 61 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافت کا پیشہ اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ صحافیوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور ایسے مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صحافیوں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں، دہشتگرد تنظیموں اور عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔صحافیوں کی حفاظت کا بل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے صحافیوں اور ماہر قانون سے مشاورت کے بعد ترتیب دیا گیا تھا جبکہ اسی قسم کا ایک اور بل 23 مئی 2021 کو سندھ حکومت کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں بھی متعارف کروایا گیا تھا۔ان دونوں ہی بلوں میں صحافیوں کو اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر نہ کرنے سے متعلق استثنی حاصل ہے اور آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بل کے مطابق حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دہشتگردی یا قومی سلامتی سے متعلق موجودہ یا مستقبل کا کوئی بھی قانون صحافیوں کے کام میں دشواری پیدا کرنے کے لیے اور ان کو خاموش کروانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔اس مجوزہ قانون کے تحت ایک کمیشن بھی قائم کیا جائے گا جسے سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ہر صوبے سے ایک یعنی کل چار نمائندے شامل ہوں گے۔ ایک نمائندہ نیشنل کا جبکہ ایک نمائندہ ہر صوبائی پریس کلب سے شامل ہو گا۔ جبکہ وزارت اطلاعات اور انسانی حقوق کا بھی ایک ایک نمائندہ اس کمیشن کا حصہ ہو گا۔ اس کمیشن کا چیئرمین ایک ریٹائرڈ جج یا قانون اور انسانی حقوق میں بےس سال کا تجربہ رکھنے والا شخص ہو گا۔اگر کسی صحافی کو ہراساں کیے جانے یا تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس واقعے کی تفصیلات چودہ روز کے اندر کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کمیشن چودہ روز میں اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس مجوزہ قانون میں میڈیا مالکان پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ ہر صحافی کو نوکری پر رکھنے کے ایک سال کے اندر انہیں ذاتی حفاظت سے متعلق تربیت دی جائے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے تحفظ اور آزادانہ صحافت کے فروغ کے حامل جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز پروٹیکشن ایکٹ 2021 پر دستخط کئے تھے ۔اس ایکٹ کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو حق رازداری حاصل ہو گیا ہے،انہیں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انجام دہی اور آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہوا ہے، انہیں نجی زندگی، گھر اورذاتی خط و کتابت بشمول الیکٹرانک گفت و شنید کی پرائیویسی، اپنی خبر کے ذرائع کو مخفی رکھنے کا حق،اورکسی بھی فرد یا ادارے کی جانب سے جبر، تشدد، خوف و ہراس، دھونس، دھمکی اور جبری گمشدگی کے خلاف تحفظ حاصل ہو گیا ہے، اس بل کے تحت انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے قوانین کی میڈیا پروفیشنلز کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کو روکنے کے خلاف ناحق استعمال کی روک تھام کی جائے گی۔ بل کے تحت آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی زندگی اور سےکیورٹی کے حق کو یقنیی بنا یا جائے گا، کوئی شخص، ادارہ ایسا اقدام نہیں کر سکے گا جس سے کسی صحافی اور میڈیا پرو فیشنلز کے حق زندگی اور حفاظت کی خلاف ورزی ہو۔ حکومت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی جبری یا رضا کارانہ گمشدگی، اغوا یا اٹھائے جانے کے خلاف تحفظ دے گی۔ وہ بلاخوف و خطر اپنا کام کر سکیں گے، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان کا حق رازداری کوئی شخص، افسر، ایجنسی یا ادارہ پامال نہ کرے۔ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کا حق اظہار رائے رائج قوانین کے مطابق ہو گا۔ بل کے تحت قومیت، نسلی، مذہبی منافرت کو ہوا دینے والے اور امتیاز، دہشت یا تشدد کو بھڑکانے والے مواد پر پابندی ہو گی ۔ نسلی،لسانی، ثقافتی یا صنفی نفرت پھیلانے والے مواد کی تخلیق پر بھی پابندی ہو گی۔ بل کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کیلئے یہ بات لازم قرار دی گئی ہے کہ ایسے مواد کی اشاعت نہیں کی جائے گی جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا ان کو علم ہو، جو ایسا کرنے میں ناکام ہو گا اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ سرکاری ملازم یا ادارے کی طرف سے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز پر تشدد، نازیبا زبان کے استعمال کی صورت میں متاثرہ اس کے خلاف چودہ دن کے اندر کمیشن کے سامنے شکایت درج کرا سکیں گے۔ کمیشن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی شکایت پر قانونی کارروائی ہو۔ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو دھمکی، تشدد، جبر کے حوالہ سے کسی کو بھی قانونی کارروائی سے استثنی حاصل نہیں ہو گا۔متاثرہ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلزکو قانونی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔ بل کے تحت کمیشن صحافیوں کی شکایت پر حکومت، خفیہ ادارے یا اتھارٹی سے معلومات حاصل کرے گا، ان سے رپورٹ، دستاویزات، ڈیٹا یا شواہد طلب کریگا۔ کمیشن کے پاس تقریبا سول کورٹ جیسے اختیارات ہوں گے، جرائم کمیشن کی حدود سے باہر ہوئے تو معاملہ کومجسٹریٹ کے پاس بھجوا دے گا، کمیشن کے سامنے سماعت عدالتی سماعت تصور ہو گی، اچھی نیت سے کئے گئے اقدمات پر کمیشن اور افسران کو استثنی حاصل ہو گا۔میڈیا پروفیشنلز کے خلاف دھمکی آمیز، جابرانہ اورمتشدد کارروائیوں کو فوری اور موثر تفتیش اور قانونی کارروائی سے استثنی حاصل نہیں ہوگا۔علاقائی صحافےوں کا تحفظ تو اور بھی ضروری ہے کےونکہ علاقائی صحافےوں کو سہولےات کی فراہمی کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے لہذا صوبائی حکومت کو مقامی صحافےوں کو آمانہ ماحول فراہم کرنے کا اہتمام کرنا ہو گا۔