آٹھ فروری کے بعد ؟

 سید مجاہد علی

انتخابات سے پہلے پاکستان میں دو حوالوں سے مباحث بھی ہو رہے ہیں اور تشویش بھی سامنے آ رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ انتخابات میں تےن ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے لیکن ملک میں انتخابی گہما گہمی دکھائی نہیں دیتی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ضرور کچھ جلسے کیے ہیں لیکن مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم جوئی محض ڈرائنگ روم سیاست تک محدود رہی ہے۔ اس حوالے سے دوسری پریشانی تحریک انصاف پر عائد پابندیوں کی وجہ سے محسوس کی جا رہی ہے۔کسی خاص پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے تو ایک خاص رائے یا جذبہ کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی پارٹی سے وابستہ کارکنوں اور اس کے حامیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن قومی سیاست میں تحریک انصاف کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور اس کا راستہ روکنے کا جو چلن دیکھنے میں آیا ہے، اس نے انتخابی عمل کا غیر جانبداری سے جائزہ لینے والے ہر شخص کو تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ ملک کے سیاسی عمل سے لاتعلقی اور ماحول میں بڑھتی ہوئی مایوسی انہی دو عوامل کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ عام شہری یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے کہ اس کے ووٹ ڈالنے سے کیا فرق پڑے گا؟ملک میں عوام کی جمہوری تربیت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ایک تو انتخابات کو جادو کی چھڑی سمجھنے کا تاثر موجود رہتا ہے یعنی اگر کوئی پسندیدہ جماعت انتخابات میں کامیاب ہو گئی تو شاید حالات تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ عام لوگوں کے دل و دماغ پر ایک خاص لیڈر یا پارٹی کے ساتھ وابستگی کا جذبہ حاوی ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ ماضی میں اس لیڈر یا پارٹی نے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا کہ اب اس سے ساری امیدیں وابستہ کرلی جائیں۔دوسری طرف سیاسی لیڈر بھی اپنی تقریروں اور بیانات میں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک بار ان کے برسر اقتدار آنے کی دیر ہے، عوام کے سارے دکھ دور ہوجائیں گے۔ مسائل کا ذکر عام طور سے محض دوسری پارٹیوں یا لیڈروں کی ناکامیوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ کوئی یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ ملکی آبادی میں اضافے، مالی وسائل کی شدید کمی اور ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ کوئی بھی حکومت خواہ وہ کتنی بڑی اکثریت سے کامیاب ہو کر اقتدار سنبھالے اور اسے کتنی ہی مقبولیت حاصل ہو، ان مسائل کو ایک دور حکومت میں حل نہیں کر سکتی۔اس پر مستزاد یہ کہ اگر عوام کی جمہوری تربیت نہیں ہو سکی تو سیاسی پارٹیاں بھی نہ صرف جمہوری مزاج کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں بلکہ پارٹیوں میں مناسب جمہوری عمل نہ ہونے کی وجہ سے نئی قیادت سامنے نہیں آتی۔ معاشی و سماجی شعبوں کے ماہر پارٹیوں میں آمرانہ رویوں کی وجہ سے براہ راست سیاست کا رخ نہیں کرتے۔ اس لیے یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں کامیابی سے ملکی انتظام چلانے والے ماہرین کی شدید کمی ہے۔کوئی بھی پارٹی کامیاب ہونے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد یا تو بیوروکریسی پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتی ہے یا نجی شعبہ سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو صرف ذاتی اہداف کے حصول یعنی اپنی مراعات و سہولتوں کے لیے ایسا تعاون فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ملکی عوام کی خدمت کا وہ جذبہ مفقود ہوتا ہے جس کی توقع عوام سے ووٹ مانگ کر کامیاب ہونے والوں سے کی جا سکتی ہے۔یہ صورت حال تبدیل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو دو حوالوں سے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مختلف شعبوں کے ماہرین کو سیاسی کام میں حصہ دار بنایا جائے، انہیں پارٹیوں میں اہمیت دی جائے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ دوسرے انتخابات کو صرف اقتدار کے حصول کا ذریعہ سمجھنے کا طریقہ ترک کیا جائے اور اسے ملکی نظم حکومت کو بہتر، فعال اور عوام دوست بنانے کا ذریعہ سمجھا جائے۔تاہم جب سیاسی لیڈر باہمی تعلق کو ضد و انا کا اسیر کر لیں گے اور سب اپنے سوا دوسروں کو چور و نا اہل قرار دینے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں گے تو اس سے سیاست دانوں اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھتا رہے گا۔ پاکستان میں اس وقت پائی جانے والی مایوسی کی سب سے بڑی وجہ میں سیاست دانوں سے ناامیدی ہے۔ لوگ عام طور سے یہ سمجھتے ہیں کہ ملک تو بہت باوسیلہ اور مالدار ہے لیکن سیاست دان اقتدار میں آ کر ان وسائل کو صرف ذاتی منفعت کے لیے بروئے کار لاتے ہیں اور لوگوں کو محروم رکھا جاتا ہے۔پاکستانی جمہوریت چونکہ اصولوں کی بجائے شخصیات پر استوار ہے، اس لیے افراد کے بارے میں پائی جانے والی بدگمانیاں ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔ ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں لیکن کسی بھی لیڈر کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیے جائیں، ان میں خود کو جادوگر کے طور پر پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک بار پھر وہ اقتدار میں آ جائیں تو دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ غربت ختم ہو جائے گی اور دنیا میں پاکستان کا نام عزت و وقار سے لیا جانے لگے گا۔ البتہ کسی کے پاس اس سوال کا کوئی قابل فہم جواب نہیں ہے کہ یہ اہداف کیسے حاصل کیے جائیں گے۔ملک میں سیاست دانوں کو ہمیشہ معتوب کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ رائے بھی سامنے آ رہی ہے کہ صرف سیاست دانوں پر نکتہ چینی سے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اس رائے کو درست مانتے ہوئے بھی سیاست دانوں سے یہ توقع تو بہر حال کی جانی چاہیے کہ انتخابات کے موقع پر عوام کو سبز باغ دکھانے کے ساتھ ساتھ کچھ حقائق اور مسائل کا ذکر بھی کیا جائے۔ دوسرے جس جمہوریت کو نافذ کر کے ہر لیڈر خود اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے، اس سے خود بھی کوئی سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ جمہوریت اجارہ داری کا نام نہیں ہے بلکہ مل جل کر مسائل پرکھنے اور ان کا مناسب حل تلاش کرنے کا نام ہے۔ یہ عمل اسی وقت شروع ہو سکتا ہے جب اقتدار سے قطع نظر سیاسی پارٹیاں اور لیڈر ملکی نظام کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا قصد کریں گے۔ملک نے البتہ مسلسل یہ مناظر دیکھے ہیں کہ ایک پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو ناکام ہونے والی پارٹیاں سڑکوں پر حکومت گرانے کی مہم چلا رہی ہوتی ہیں۔ جس نظام میں بھی اس رویہ کے ساتھ سیاست کی جائے گی، وہاں حکمرانی کا فعال اور عوام دوست نظام استوار نہیں ہو سکتا۔ یہ نظام بنانا صرف برسر اقتدار پارٹی ہی کا کام نہیں بلکہ جمہوریت میں اپوزیشن پارٹیاں بھی پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے اصلاح احوال کے لیے بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ ملک میں ایک دوسرے کے لیے احترام و قبولیت کو اس قدر نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ اب اعتدال و مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے شدید محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔انتخابات سے پہلے ہی اگر انتخابی نتائج دیوار پر تحریر کر دیے جائیں یا یہ تاثر عام ہو جائے کہ کون سی پارٹی کامیاب ہوگی اور کسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا تو انتخابی عمل کی کاوش کے باوجود اس پر اعتبار مستحکم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہی یقین عام ہو گا کہ کسی ایک گروہ کو اقتدار میں لانے اور کسی دوسرے کو محروم رکھنے کے لیے انتخابات کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ نون پسندیدہ اور تحریک انصاف کو معتوب پارٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے ماضی قریب میں بھی زور زبردستی دیکھنے میں آتی رہی ہے لیکن اس بار اس میں اس عنصر کا اضافہ ہوا ہے کہ 2018 میں تحریک انصاف کو اقتدار تک پہنچانے والے اب اس سے شدید مایوس ہیں اور کسی بھی قیمت پر اسے ملکی سیاست سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی عام شہری یا سیاسی گروہ یہ رائے اختیار کر لے تو اس سے تعرض نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب یہ قیاس غالب آ جائے کہ ملک کی فیصلہ ساز قوتیں کسی ایک پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہیں اور ایک خاص لیڈر کو مسیحا مان لیا گیا ہے تو پھر انتخابی عمل بے مقصد کوشش بن کر رہ جاتا ہے۔یہ منظر نامہ اب کسی نہ کسی طرح سے ہر عام و خاص کو ذہن نشین ہو چکا ہے۔ اس سے عوام میں عام طور سے لاچاری، بے بسی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ انتخابات کی صورت میں ملک کے عام شہریوں کو اپنی مرضی سے لوگ منتخب کرنے کا جو ایک موقع ملتا ہے، اب وہ بھی چھینا جا رہا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مایوسی و لاتعلقی کے ماحول میں منعقد ہونے والے انتخابات سے کیا کچھ اچھا سامنے آ سکتا ہے۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں جو حکومت قائم ہوگی، کیا وہ ملک کو موجودہ مسائل سے باہر نکال سکے گی؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ اس گھٹن زدہ ماحول میں ہونے والے انتخابات سے کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ اس کے دو ممکنہ جواب ہوسکتے ہیں۔ایک: جیسا کہ سوچا گیا ہے ایک کنگز پارٹی تمام رکاوٹوں اور نکتہ چینی کے باوجود کامیاب ہو جائے اور ریاستی اداروں کا اعتماد حاصل کر کے ملک کو بحران سے نکالنے کا کام کرے۔ گویا ملک ایک بار پھر ایک پیج والی صورت حال کا سامنا کرے گا۔ ایسی حکومت ملک میں معاشی ایمرجنسی کے نام پر شہری آزادیوں و سیاسی مظاہروں پر پابندی لگا کر پرسکون ماحول میں کام کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ تاہم ماضی کے تمام تجربات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسا کوئی انتظام عارضی ثابت ہوتا ہے اور اس سے قومی تعمیر کا بڑا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔دوئم : یہ بھی ممکن ہے کہ جیسا کہ دعوی کیا جا رہا ہے، تحریک انصاف کے حامی بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور انتخابی نشان کے بغیر اور لیڈر کی غیر موجودگی میں بھی پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کروا دیں۔ اس کامیابی کے بعد عمران خان کو جیل سے رہا کرنا پڑے اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایسی حکومت ایک پیج کی حکومت نہیں ہوگی گویا پہلے دن سے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ تمام دیگر سیاسی پارٹیوں کو اپنی مشکلات کا سبب مانتی ہے۔ اس لیے اپوزیشن کے خلاف شدید انتقامی کارروائیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی کسی صورت میں تو معاشی بحالی کا کوئی عارضی منصوبہ بھی بنانا مشکل ہو گا۔گویا ہر دو صورتوں میں بحران جاری رہے گا۔ معاشی و سیاسی بحران ملک کی سلامتی کے لیے نئے اندیشوں کا باعث بنے گا۔ تو کیا انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کوئی حکومت ملک کو مسائل سے باہر نکال سکے؟ اوپر بیان کی گئی دونوں ممکنہ صورتوں میں اس کا جواب نہ میں ہو گا۔ پاکستان کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے جس درمیانی راستے کی ضرورت ہے، اس میں سب کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا ہو گا۔ بدقسمتی سے ابھی تک ملک کی کوئی سیاسی یا غیر سیاسی قوت اس آپشن پر غور کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ایسے میں عوام کی مایوسی بلاجواز نہیں۔ اس کے ملک کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی آسان جواب نہیں دیا جاسکتا۔