یونیورسل ہیلتھ انشورنس کی بحائی کا جائز مطالبہ

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے گلگت بلتستان کے عوام کیلئے صحت سہولت پروگرام کے تحت یونیورسل ہیلتھ انشورنس کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے وزیر اعظم پاکستان کو خصوصی مراسلہ تحریر کیا ہے۔ وزیر اعلی نے مراسلے میں کہا ہے کہ فروری 2022 میں وفاقی حکومت نے صحت سہولت پروگرام کے تحت ہیلتھ انشورنس کی خدمات کو گلگت بلتستان تک وسعت دی جس کو گلگت بلتستان کے عوام نے سراہا اور کئی افراد جو اپنا علاج کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اس پروگرام سے مستفید ہوئے۔ 15 دسمبر 2023 کو اس اہم پروگرام کو گلگت بلتستان کیلئے معطل کیا گیا جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقے کے عوام مفت علاج کی سہولت سے محروم ہوگئے اور کئی نادار اور مستحق مریض آج بھی اپنا علاج معالجہ کرانے سے قاصر ہیں۔ لہذا گلگت بلتستان میں صحت سہولت پروگرام کے تحت یونیورسل ہیلتھ سروسز کی خدمات کو جلد از جلد بحال کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقے کے عوام بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا علاج معالجہ مفت کرواسکیں۔ہےلتھ انشورنس عوام کے لےے انتہائی ضروری ہے لےکن گلگت بلتستان میں ےہ پروگرام بند کر دےا گےا حالانکہ نگران وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا صحت کارڈ بلا تعطل جاری رہےگا۔وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام میں نقائص کے باعث بہتری کی گنجائش ہے۔ یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام میں ماضی میں بہت کرپشن ہوئی جس کیلئے پروگرام کا آڈٹ کروایا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت اسٹیٹ لائف انشورنس سے نیا معاہدہ کر رہی ہے اور صحت کارڈ پر کارڈیالوجی کی سہولت بلا تعطل جاری رہے گی۔ےہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ پنجاب کے نجی اسپتالوں میں صحت کارڈ پر امراض قلب کا علاج معطل ہوگیا جس کے باعث نجی اسپتالوں میں دل کے مریضوں کو اسٹنٹس سمیت ہارٹ سرجریز غیرمعینہ مدت تک بند کردی گئیں۔اسٹیٹ لائف انشورنس کا کہنا تھاکہ پنجاب حکومت نے مریضوں سے تےس فیصد پیسے چارج کرنےکی سفارش کی ہے لہذا پنجاب میں مستحق افراد کے تعین تک کارڈیک سروسز صحت کارڈ پر نہیں ہوں گی۔اسٹیٹ لائف انشورنس نے امراض قلب کے بعد نجی اسپتالوں میں صحت کارڈ پر زچگی کے علاج کی سہولت بھی بند کردی ۔اسٹیٹ لائف نے صحت کارڈ پینل کے نجی اسپتالوں کومفت زچگی علاج بند کرنے کی ہدایت کی اور مراسلے میں کہا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کے نجی اسپتالوں کو مراسلے کا اطلاق یکم جولائی سے ہے۔مراسلے کے مطابق نارمل ڈلیوری یا سی سیکشن پر اسٹیٹ لائف کوئی ادائیگی نہیں کرے گا۔سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ کے ذریعے کارڈیالوجی کی سہولیات بلا تعطل جاری رہیں گی۔ تمام سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ کے ذریعے کارڈیالوجی کی سہولیات بلا تعطل جاری رہیں گی، حکومت پنجاب اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔ نگران صوبائی وزیر صحت نے کہا تھا کہ صحت کارڈ نہ بند کررہے ہیں اور نہ ہی کارڈیالوجی کی سہولیات کو محدود کر رہے ہیں، صحت کارڈ کے ثمرات اصل حق داروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ صحت سہولت کارڈ کا نام بدلتا رہا، لوگ اس کارڈ پر ارب پتی بن گئے اور اتنے اسٹنٹ ڈالے گئے کہ ملک سے اسٹنٹ ختم ہوگئے۔لاہور میں نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر اور ڈاکٹر جاوید اکرم نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں کہا گےا کہ صحت کارڈ اسکیم نواز شریف کے دور2015 میں غریبوں کے لیے تھی، اس دور میں ہیلتھ کارڈ پر آپریشن کیلئے تےن لاکھ حد رکھی گئی تھی۔ سابق حکومت نے ہیلتھ کارڈ پرچار سو ارب روپے مختص کیے، ایک مافیا بنا ‘پرائیوٹ اسپتالوں کے ساتھ کمیشن طے ہوئے، دھڑا دھڑ مریضوں کو پرائیوٹ اسپتالوں میں آپریشن کیلئے بھیجا گیااور خوب پیسا کمایا گیا۔سابق حکومت کے صحت کارڈ پرپرائیوٹ اسپتالوں کے سو سو ارب روپے کے بل بنے پڑے ہیں، صحت سہولت کارڈ سے متعلق خبروں سے غلط تاثر پیدا ہورہا ہے، اب یہ سہولت ان لوگوں کے لیے ہوگی جو افورڈ نہیں کرسکتے۔ صحت کارڈ ایک اچھا مثبت قدم تھا، اسے بند نہیں کیا جا رہا، اب صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور سوشل ویلفیئر سے رجسٹرڈ غریب افراد صحت کی سہولت حاصل کرسکیں گے۔جونیئرز ڈاکٹرز نے پرائیوٹ اسپتالوں میں آپریشن کیے، پچاس فیصد نارمل ڈلیوری کے سی سیکشن ہوئے۔کوئی بھی خاندان علاج کے لےے بڑی رقم برداشت نہیں کر سکتا لیکن ہیلتھ انشورنس ایسی ہی صورت حال کے لئے ہوتی ہے۔ ہر خاندان کو انشورنس کی صورت میں اس قسم کے صحت سے متعلق تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔حکومتیں پہلے ہی مفت ہیلتھ انشورنس اسکیمیں پیش کرتی ہیں جن کی ادائیگی ٹیکس کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ منصوبے ہزاروں اسپتالوں کے ذریعے کام کرتے ہیں اور مریضوں سے متعلق تمام اخراجات کو ادا کرتے ہیں۔ انشورنس اسکیمیں بہت سی بیماریوں کا احاطہ کرتی ہیں لیکن چونکہ بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے، وہ صرف تےس چالےس فیصد آبادی کا ہی احاطہ کر پاتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ انشورنس اسکیموں کی حد ہوتی ہے جو بہت سی بڑی بیماریوں کی پوری قیمت ادا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔اگر ہر شخص کا خود بخود اندراج ہو جائے تو موجودہ نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی اس شخص کی شناخت اور اس کا اندراج ہے یا نہیں، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ پوری آبادی کا احاطہ کرنے سے حکومت بہت مہنگی بیماریوں کے لیے کم قیمت پر سامان خریدنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر سکے گی۔ اس قسم کی اسکیم سے نہ صرف بڑے اسپتالوں میں مہنگی بیماریوں کے اخراجات کو روکا جا سکے گا بلکہ صحت کے مجموعی اخراجات کو بھی کم کر کے اسے عوام کے لیے قابل استطاعت بنانا ممکن ہو سکے گا اور بالآخر صحت کا ایسا نظام بنانا ممکن ہو سکے گا، جو تمام بیماریوں کا احاطہ کرے۔یہ سچ ہے کہ ہم ایسی عام بیماریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جن سے موت ہو جاتی ہے یا خاندان تباہ ہو جاتے ہیں لیکن نایاب اور زیادہ لاگت والے علاج کو معمول کی بیماریوں سے الگ کرنا اس تعطل سے نکلنے کا راستہ ہو سکتا ہے جہاں علاج کا خرچ برداشت سے باہر ہونے کی وجہ سے غریبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور لوگ مستقل بنیادوں پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ہم جانتے ہےں کہ حادثات، بیماری یا معذوری کی اطلاع کبھی نہیں آتی۔ یہ اچانک صحت کے مسائل بڑے مالی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پہلے سے بچانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ لیکن، کوئی ایسا کیسے کرتا ہے؟ یہیں سے انشورنس پالیسیاں آتی ہیں۔ انشورنس کوریج کی ایک قسم، ہیلتھ انشورنس مختلف طبی اور جراحی کے اخراجات کی تلافی کرتی ہے۔ یہ ایک اےسی کوریج ہے جو بیمہ کمپنیاں مستقبل میں پیش آنے والے غیر متوقع طبی اخراجات سے بچانے کے لیے کرتی ہےں۔ صحت کی دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ، ہیلتھ انشورنس کے منصوبوں کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔ ہیلتھ انشورنس کا دعوی دو طریقوں سے طے کیا جا سکتا ہے۔ یہ یا تو بیمہ کنندہ کو ادا کیا جاتا ہے یا براہ راست دیکھ بھال فراہم کرنے والے کو ادا کیا جاتا ہے۔ نیز، ہیلتھ انشورنس پریمیم پر حاصل ہونے والے فوائد ٹیکس سے پاک ہوتے ہیں۔ شدید بیماری یہ انشورنس کسی بھی سنگین بیماری کے خطرے کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ مستقبل میں ہونے والی کسی بھی خطرناک بیماری سے بچاتا ہے۔ ایک مخصوص بیمہ کی رقم کا احاطہ ملتا ہے۔ بیماری کی صورت میں، بیمہ کمپنی بیمہ کی رقم تک کلیم کا اعزاز دیتی ہے۔ انشورنس فرموں کے زیر احاطہ مختلف اہم بیماریوں میں سے کچھ میں کینسر، بڑے اعضا کی پیوند کاری، فالج، پہلا ہارٹ اٹیک، گردے کا فیل ہونا، فالج، ایک سے زیادہ سکلیروسیس وغیرہ شامل ہیں۔میڈیکل انشورنس یہ انشورنس کی ایک قسم ہے جہاں بیمہ کنندہ کو ہسپتال میں داخل ہونے کے معاوضے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ادویات یا سرجری کے اخراجات، جو آپ یا آپ کے خاندان کے افراد اس بیمہ میں شامل بیماریوں کے لیے گزرے ہیں، اس کی واپسی کی جاتی ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت انشورنس کے نام پر سرکاری اسپتالوں میں ہونے والے علاج معالجے کو بند کر کے نجی اسپتالوں میں رقم کی ادائیگی کی صورت میں کرنا چاہتی ہے۔حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جیسا امریکہ اور یورپ میں ہوتا ہے اسی طرح پاکستان میں ہونا چاہیے اور سرکاری صحت کے نظام کو نجی شعبے کے ساتھ بدل دینا چاہیے۔ نجی شعبے کے چند ایک اسپتالوں کو چھوڑ کر مریضوں کی اچھے انداز میں علاج اور خیال نہیں رکھا جاتا۔نجی اسپتالوں میں تربیت یافتہ اسٹاف کی کمی ہے۔ مشینری اچھی نہیں ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔گلگت بلتستان اےک پسماندہ صوبہ ہے جس کی آمدن کے ذرائع بھی محدود ہےں ےہاں اچھے ہسپتالوں کی بھی کمی ہے اس لےے حکام بالا کو چاہےے کہ عوام کو پرےشانی سے بچانے کے لےے ہےلتھ انشورنس کی بحالی کو فوری ےقےنی بنانے کا اہتمام کرنا چاہےے تاکہ عوام کو علاج معالجے کی سہولےات دستےاب ہو سکےں۔

۔