ایک ہی نقطے نے محرم سے مجرم کر دیا

 خالد جاوید چودھری 

نوے کی دہائی کے وسط میں ہم ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کے والدین بن چکے تھے۔ زندگی بڑے سکون سے گز ر رہی تھی۔ سارا دن مصروفیت میں گزر جاتا۔ صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد سکول چلا جاتا۔ سکول میں سارا وقت بچوں کو پڑھانے میں گزرتا۔ واپسی پر کھانا کھانے کے بعد گھر کے نزدیک بنی ہوئی اکیڈمی میں چلا جاتا مغرب تک وہاں مصروف رہتا۔ مغرب سے بعد از عشا تک کا وقت اپنے بچوں کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا۔ ان کی پڑھائی کے معاملات کو دیکھ لیتا اور اس کے بعد ریکٹ کو گردن کے پچھلے حصے کی طرف سے شرٹ میں اسی طرح ڈال کر پھنسا لیتا۔ کہ اس کا دستہ کمر کے ساتھ نیچے کی طرف اور اس کا چھجا سر سے تھوڑا سے اوپر نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہوتا۔ اور موٹر بائیک پر بیڈ منٹن کھیلنے افسر کلب چلا جاتا۔ جس کی ممبر شپ میں نے اسی کی دہائی میں ہی حاصل کر لی تھی۔ بیڈمنٹن کورٹ میں ان دنوں بڑا رش ہوتا۔ کلب میں ‘میں نے ایک اسکواش کا ریکٹ بھی رکھا ہوا تھا۔ اگر کسی وجہ سے بیڈ منٹن کورٹ میں موقع نہ ملتا تو میں اسکواش کورٹ میں جاکر اکیلے ہی اسکواش کھیل کر جسمانی ورزش کرنے کے ہدف کو حاصل کر لیتا۔اسی دوران اگر ٹیبل ٹینس کا موقع ملتا تو کھیل لیتا۔ ان تمام سر گرمیوں کا واحد مقصد سارا دن کی ذہنی مصروفیات کے بعد جسمانی ورزش کے ذریعے اسے متوازن کرنا ہوتا۔ میں کسی بھی کھیل میں اچھا کھلاڑی کبھی بھی نہیں رہا کلب میں بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس اور اسکواش کھیلتا رہا۔ طالب علمی کے دور میں ہاکی اور فٹ بال کھیلتا رہا۔ جو اس زمانے میں تقریبا سبھی لوگ کھیلا کرتے تھے۔ اپنے گاﺅں میں اور مختلف سکولوں میں دوران ِ ملازمت قیام کے دوران والی بال کھیلتا رہا۔ بلکہ والی بال کے باقاعدہ میچز کھیلے جاتے۔ ایک بار کلب میں بیڈمنٹن کا ٹورنامنٹ ہوا۔ میں نے بھی شیخ ایوب کو منت سماجت کر کے اپنا پارٹنر بننے پر تیار کر لیا۔ پورا میچ بڑے جوش و جذبے سے کھیلا گیا۔ تقسیم انعامات کے موقع پر سٹیج سےکرٹری نے ہمیں انعام دینے کے لیے ہمارا نام پکارتے ہوئے سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ تو پورا ہال ہماری عزت افزائی کے لیے غیر معمولی طور پر تالیوں اور سیٹیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔سٹیج سیکرٹری نے بڑی مشکل سے تماشائیوں کو خاموش کروایا اور اس کے بعد بولا کہ آپ سب لوگ یقینا یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں گے۔ کہ موصوف نے ٹورنامنٹ میں کون سی پوزیشن حاصل کی ہے۔ تو صورت حال یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں اس ٹیم نے کل پندرہ میچ کھیلے ہیں۔ اور چودہ میچ ہارنے کے بعد بھی پندرہواں میچ اسی جوش و جذبے سے کھیلا۔ جس جوش کے ساتھ انہوں نے ٹورنامنٹ کے آغاز میں اپنا پہلا میچ کھیلا تھا۔ اس ٹیم کو اس کی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی پر اس انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔زندگی ایسے ہی معمول کے مطابق گز ر رہی تھی۔ کہ ایک دن بیٹھے بیٹھے دماغ میں کہیں سے ایک شیطانی وسوسہ آن گھسا۔ کہ میں پچھلے بیس سالوں سے کام کر رہا ہوں اور بچت ایک دھیلے کی بھی نہیں کی۔ کوئی زمین جائیداد نہیں۔ کوئی بنک بیلنس نہیں۔ کل کلاں جب بچے بڑے ہوں گے۔ ان کو یونیورسٹیوں میں جانا ہو گا۔ بچیوں کی شادیاں کر نا ہوں گی۔ تو یہ سارے امور ایسے حالات میں کیسے نمٹا سکوں گا۔ بس اس خیال کا آنا تھا۔ کہ زندگی بہت تکلیف دہ اور دکھی ہو گئی۔ہر وقت دماغ میں کیا ہو گا ؟کیا ہو گا؟ کی گردان نے دوسروں کے ساتھ میرے رویے کو بھی تبدیل کر دیا۔ مجھے تم پر غصہ آنے لگا۔ میرے خیال میں اس ساری صورت حال کی ذمہ دار تم تھیں۔ کیوں کہ میں تو اپنی کل آمدنی لا کر تمہیں دے دیتا ہوں۔ او ر تم کھانے پینے اور کپڑے لتوں کے فیشن میں سب کچھ اڑا دیتی ہو۔ بس ایک فاسد خیال نے میری پر سکون اور خوب صورت انداز میں گزرتی ہوئی زندگی کو ایک دم تکلیف دہ اور دکھی بنا دیا۔ آمدنی میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ خرچ میں اضافہ نہیں ہوا۔ اور کوئی ناگہانی سانحہ یا حادثہ نہیں ہوا۔ صرف انداز فکر میں تبدیلی نے تمام مسرتیں اور شادمانیاں چھین کر دامن پریشانیوں اور دکھوں سے بھر دیا۔ اب مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنے لگا۔ ہر وقت بلاوجہ گھر میں تمہارے ساتھ بچوں کے ساتھ لڑائی کے موڈ میں رہتا۔ سبزی پکانے کے معاملے میں بھی تم سے لڑائی کرتا۔ کہ آلو گاجریں اور مٹر ایک ہی دن میں پکانے ہیں۔ آلو گاجر ایک دن پکا لو اور شوربے والے مٹر دوسرے دن پکا لو۔ ڈبل روٹی مت منگواﺅ۔ خواہ مخواہ پیسے خرچ کرتی ہو۔ گھر کی گندم ہے۔ مفت کے آٹے سے روٹیاں بنا کر ناشتہ کر لو۔ میری ذات اور رویے میں اس تبدیلی نے تمہیں بہت پریشان کر دیا تھا۔ تم حتی الوسع کوشش کرتیں۔ کہ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات نہ ہونے پائے لیکن میرا تو حساب وہی تھا۔ کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو۔ایک دن ڈاکٹر ارشد اور ڈاکٹر نورین بھی بچوں سمیت ہمارے ہاں آئے ہوئے تھے۔ تم نے ان سے ساری صورت ِ حال کہہ سنائی۔ ڈاکٹر ارشد نے حسب ِ معمول بات کو مذاق میں ٹال دیا۔ دن یونہی گزر رہے تھے۔ ایک دن ماں جی صبح ہی صبح ہمارے گھر آ گئیں۔ میں باہر صحن میں چارپائی پر حسب معمول بے زار سا بیٹھا ہوا تھا۔ غور سے چہرے کی طرف دیکھنے کے بعد پوچھا۔ کیا بات ہے۔ پریشان نظر آرہے ہو۔ میں نے کہا نہیں کوئی بات نہیں۔ پھر تمہاری پریشانی کس بات پر ہے۔ کیا تمہاری نوکری کو کوئی خطرہ ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کون سی نوکری ہے جس کو کوئی خطرہ ہو گا۔ ایک سکول ماسٹر کی نوکری کو کیا خطرہ ہو گا۔ اب وہ بضد تھیں کہ تمہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور درپیش ہے۔ جس نے تمہیں پریشان کر رکھا ہے۔ اور میں معلوم کیے بغیر واپس نہیں جاﺅں گی۔ ان کے اصرار پر میں پھٹ پڑا۔ حال دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ کوئی بچت نہیں۔ کوئی جائیداد نہیں۔ گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ جو کمائی آتی ہے ساری کی ساری خرچ ہو جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ماں جی مجھے بڑے غور سے سن رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کا چہرہ بھی غصے سے سرخ ہو تا جا رہا تھا۔جب میں اپنی بات ختم کر چکا تو بولیں بس یہی بات ہے یا کچھ اور بھی ہے۔ میں نے کہا، کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جس پر پریشان نہ ہوا جائے۔ اب ماں جی نے میری سائیکو تھراپی اس فقرے سے شروع کی۔ تم نے جو بھونکنا تھا بھونک لیا اور میں نے سن لیا۔ میرا دل تو کرتا ہے کہ جوتا اتار لوں اور گن کر تمہارے سر پر سو پورے کروں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں تم جیسا ناشکرا آدمی نہیں دیکھا۔ اللہ تعالی نے تمہیں اس قدر خوب صورت شکل و صورت دی۔ صحت و تندرستی دی۔ خوبصورت، نیک سرشت اور خدمت کرنے والی بیوی دی۔ اپنی ذاتی چھت دی۔ سب سے بڑی بات ہے کہ صحت مند اور تندرست و توانا اولاد کی نعمت سے نوازا۔ کتنی دنیا ہے جو اس اولاد کو ترستی ہے۔ پھر کوئی بیٹے کے لئے ترستا ہے۔ اور کوئی بیٹی کے لئے تمہیں اس ہستی نے دونوں سے نوازا ہوا ہے۔ مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ تمہاری تنخواہ کتنی ہے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ تم جو دل چاہے کھا سکتے ہو۔ اور جو دل چاہے پہن سکتے ہو۔انبیا والا پیشہ ہے۔ صبح سویرے اٹھتے ہو نہا دھوکر صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہو خوشبو لگاتے ہو۔ صاف ستھرے ماحول میں پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ پورا دن گزارتے ہو۔ روزی روٹی کمانے کی تمہیں کوئی فکر نہیں۔ تمہارے گھر میں تمہیں خود تلاش کر کے خود بخود تمہارے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اور تمہیں کیا چاہیے۔ کبھی فوارہ چوک میں دیکھا ہے کہ لوگ بے چارے مزدوری کی تلاش میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ کبھی ان کو دیہاڑی ملتی ہے اور کبھی خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔کیا تمہیں سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ تم ان میں سے ایک بھی ہوسکتے تھے۔ تمہاری ضرورت تو اللہ تبارک و تعالی کی ذات بہت اچھے طریقے سے پوری کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ جو تمہاری خواہشات ہیں۔ وہ لالچ، ہوس، اور طمع کے زمرے میں آتی ہیں۔ ضروریات میں نہیں اور لالچی کا پیٹ تو صرف اور صرف زمین کی مٹی سے بھرتا ہے سات بادشاہتوں کی دولت بھی اسے بھر نہیں سکتی۔ تم زرداری اور شریفوں کو دیکھ لو۔ سارا پاکستان کھا کر بھی بھوکے کے بھوکے ہی ہیں۔ اور ان کی بھوک مرتے دم تک نہیں مٹے گی۔ میرے سامنے سے اب تم اٹھ جاﺅ۔ مجھے تم پر بہت غصہ آ رہا ہے۔ میں سوچتی ہوں تم بچوں کو کیا تعلیم دیتے ہو گے۔ یہ تو خود تمہارے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزری۔ تم آج تک کیا پڑھاتے رہے ہو۔ اب اٹھو وضو کرو، اس کے بعد اس کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں پر شکرانے کے نوافل ادا کرو۔ تمہارا سر اس کی عطا اور غالب نعمتوں سے ہمیشہ جھکا ہونا چاہیے۔میرے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ اور اس کے پردہ سکرین پر مناظر اچانک ہی تبدیل ہونے لگے۔ مایوسی اور نا امیدی کی جگہ آس اور امید نے لے لی۔ زندگی دکھ تکلیف، بوجھ اور مصائب کی بجائے قدرت کی انمول نعمت معلوم ہونے لگی۔ اور اس کے ساتھ ہی ساری کی ساری مسرتیں اور شادمانیاں اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ واپس لوٹ آئیں۔ میری نیم خواندہ سی ماں جی نے میری سائیکو تھراپی کچھ انداز سے کی۔ کہ شاید دنیا کا بہترین سائیکالوجسٹ بھی اس طرح نہ کر سکتا۔ اور مجھے لاحق موذی مرض کو اس طرح جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ کہ اس کے دوبارہ واپس لوٹ آنے کے امکانات کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہی ختم کر دیا۔آج اس واقعے کو تقریبا تیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آج عرصے میں تمام بچے ماشا اللہ اچھی تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی بہت اچھی جگہوں پر اور اچھے طریقے سے ہو چکی ہیں اور وہ سارے کے سارے ہی ہم سے کہیں بہتر معیار کی خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بس صرف سب سے چھوٹا بیٹا بھی سلسلہ تعلیم سے منسلک ہے لیکن مجھے واثق امید ہے کہ انشا اللہ اس کے سارے معاملات بھی حسب ِ معمول بہت اچھے طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ مجھ جیسے نام نہاد پڑھے لکھے اور انٹلیکچوئل کے عقل کی بنیاد پر گھڑے گئے تمام واہمے اور خدشے غلط ثابت ہوئے اور میری دیہاتی اور ان پڑھ ماں کی خوش گمانی سوفی صد درست ثابت ہوئی۔