بجٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی

وفاقی حکومت نے مالی سال 2024 اور 2025 کے بجٹ میں ملک بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف منصوبوں کے فروغ، آئی ٹی پارکس کے قیام سمیت سرکاری اداروں کی ڈیجیٹلائزیشن کے مختلف منصوبوں کے لیے 79 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ فےڈرل بورڈ آف ریوینیو کی ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکس بیس کو بہتر بنانے سمیت ادارے کا نیا آئی ٹی سسٹم بنانے کے لیے سات ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ حکومت نیشنل ڈیجیٹل کمیشن اور ڈیجیٹل پاکستان اتھارٹی جیسے ادارے بھی قائم کرے گی جو کہ حکومت اور نجی اداروں کی ڈیجیٹلائزیشن میں معاون ثابت ہوں گے۔حکومت نے آئی ٹی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہوئے ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر انفارمیشن کے مختلف منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کے لیے بھی بجٹ کو بڑھا کر دو ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، مذکورہ رقم آئی ٹی کورسز کے لیے طلبا کی انٹرن شپ سمیت آئی ٹی کے ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی کے لیے رکھی جائے گی۔نئے بجٹ میں حکومت نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں آئی ٹی پارک بنانے کے لیے بھی آٹھ ارب روپے کی رقم مختص کی ہے جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹیکنالوجی پارک ڈیویلپمنٹ کے قیام کے لیے بھی گےارہ ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔آئی ٹی کے بجٹ میں اضافہ خوش کن ہے‘ گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات تقریبا دوگنا ہو چکی ہیں۔ تاہم گزشتہ چند سال کے اعدادو شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے کی ترقی کی شرح میں تسلسل نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ عالمی سیاسی و معاشی حالات اور پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں ہیں جو آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کے کام کرنے کے ماحول اور مالیاتی معاملات کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔ اگر پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو درپیش بنیادی مسائل حل ہو جائیں تو مختصر عرصے میں آئی ٹی ایکسپورٹس کو ڈھائی ارب ڈالر سالانہ سے بڑھا کر 15 سے بےس ارب ڈالر سالانہ تک لیجایا جا سکتا ہے۔آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کیلئے جدید آئی ٹی پارکس اور انکیوبیشن سینٹرز کے قیام کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام سروسز کی خدمات میں بہتری اورانٹرنیٹ بینڈوتھ میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ غیر ملکی آئی ٹی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے جدید تقاضوں اور عالمی معیار کے مطابق ہنر مند افرادی قوت کی تیاری اور بنیادی ڈھانچے کی مسلسل ترقی اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی میں بہتری بھی ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں اس شعبے میں پائیدار ترقی کیلئے ضروری ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے اداروں کو بین الاقوامی سرٹیفیکیشن کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ پاکستان میں ٹیکنالوجی پر مبنی مضامین اور خصوصی آئی ٹی مہارت میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ طویل المدت بنیادوں پر آئی ٹی سیکٹر کو ترقی کے سفر پر گامزن رکھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ سکولوں کی سطح پر طلبہ کو اس اہم شعبے سے روشناس کروایا جائے۔ اس طرح ہمارے پاس نئی نسل کی شکل میں کم عمری سے ہی مضبوط بنیادوں پر استوار افرادی قوت مستقبل کیلئے درکار ٹیلنٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے تیار ہو گی۔ آئی ٹی کا شعبہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر طالبات کی ابتدائی کلاسز سے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو فوکس کر کے تعلیم وتربیت کی جائے تو مستقبل میں پاکستان کے پاس نہ صرف بہترین آئی ٹی ماہرین کی ایک بڑی کھیپ تیار ہو سکتی ہے بلکہ بہت سی خواتین گھر بیٹھے ہی باعزت روزگار کما کر ملک کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے گھرانوں کا معیار زندگی بہتر بنانے میں بھی اہم کر دار ادا کر سکیں گی۔ اس طرح نہ صرف اس انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے سافٹ امیج میں بھی بہتری آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کمپنیوں کو صنفی شمولیت کی پالیسیوں، محفوظ نقل و حمل، ڈے کیئر اور پیشہ وارانہ ترقی کے مواقع بہتر بنا کر اس شعبے میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔اس وقت عالمی سطح پر پاکستان ایک جدید ترین آئی ٹی اور ڈیجیٹل خدمات کی فراہمی کے مرکز کے طور پر اپنی ساکھ کو مستحکم کر رہا ہے۔ اس لئے اگر حکومت اس شعبے کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم، اور پالیسی سپورٹ پر توجہ مرکوز کرے تو اس شعبے کی عالمی مسابقت کی صلاحیت اور استعداد کو بہتر بنا کر پاکستان کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کی جانب اہم پیشرفت کی جا سکتی ہے۔قدرتی وسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی پائیدار ترقی کے لیے فکری وسائل کی ترقی ناگزیر ہے۔ترقی کے خواہاں ممالک ہمیشہ صحت اور تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں رکھتے ہیں کیونکہ صحت کی دیکھ بھال کا موثر نظام قوم کی جسمانی اور ذہنی تندرستی کو یقینی بناتا ہے اورجامع اور جدید تعلیمی نظام اس کی فکری ارتقا کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی دنیا بھر میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے جو فنانس، مینوفیکچرنگ، زراعت، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی اہمیت کے دیگر تمام شعبوں میں پیش رفت کا اہم جز بن گیا ہے۔ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں نوجوانوں کے خیالات کی حوصلہ افزائی کے ذریعے آئی ٹی کی تیز ترین ترقی کے سفر میں شامل ہوسکتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارمز کو خواندگی کے تناسب کو بڑھانے کے لیے بھی خاص طور پر اعلی تعلیم اور فنی اور پیشہ وارانہ تربیت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 3.4ملین آئی ٹی ماہرین کی خدمات درکار ہیں جبکہ آنے والے سال میں 200 بلین انٹرنیٹ آف تھنگز آئی ٹی سپیکٹرم میں دستیاب ہونے کی توقع ہے۔پاکستان آئی ٹی سیکٹر پر توجہ مرکوز کرکے دستیاب مواقع سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ملک کی 220 ملین آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ ایک ایسا اثاثہ ہے جسے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کر کے قومی ترقی کے عمل کو تیز کیا جاسکتا ہے ۔ وزارت آئی ٹی نے کراچی آئی ٹی پارک پراجیکٹ شروع کر دیا ہے جبکہ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں گیمنگ اور اینی میشن میں ایک سنٹر آف ایکسیلنس کے قیام کے لیے ایک ایم او یو پر دستخط کئے گئے ہیں۔ملک سے آئی ٹی کی برآمدات تےن بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور حکومت اس کو مزید بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ یونیورسٹیوں کو اپنے طلبا میں نئے آئیڈیاز اور تصورات کو پروان چڑھاتے ہوئے انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینا چاہیے ۔کرامت علی کے مطابق انڈیا آئی ٹی کی سالانہ ایکسپورٹ194 بلین ڈالرہے جبکہ پاکستان کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ کا حجم تےن بلین ڈالر ہے ۔آئی ٹی کے شعبہ میں کتنا پوٹینشل ہے اور ملکی ترقی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی انتہائی اہم کرادار ادا کرسکتا ہے اگراس کے ترقی کے تمام پہلوﺅں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ آئی ٹی کے شعبے میں سب سے عوامل کارفرماہیں جسکی وجہ سے یہ شعبہ آگے نہیں بڑھ رہا اور نہ ہی ملکی ترقی میں کوئی خاطر خواہ حصہ ڈال رہا ہے ۔ اگر ہم انٹرنیٹ رابطوں کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سب سے سست انٹرنیٹ کی سپیڈ رکھنے والا ملک ہے۔پاکستان میں تقربیا 54 فیصد لوگوں کے پاس اینڈرائیڈ سیل فون ہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی استعداد کار کو اگر وسعت دے دی جائے یا بھر پور فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان کی سالانہ آمدن میں تقریبا ساٹھ بلین ڈالر تک آنے والے وقتوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح باہر کے ممالک سے آئی ٹی کے شعبے میں انویسٹ کرنے والی کمپنیوں یا دیگر لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر نافذ العمل پالیسی اورقوانین کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دےا جا سکتا ہے ۔پاکستا ن میں آئی ٹی یونیورسٹیوں کو آئی ٹی گریجویٹس کے مستقبل کو روشن بنانے میںہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدات کرنے کی ضرورت ہے ۔ملک میں صنعت کی ترقی کی رفتار کیساتھ ساتھ جامعات میں نصاب کو ہم آہنگ کرنے اور اس کا باقاعدہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ طلباکی عملی تربیت کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ طلبا نے فیلڈ کے لئے درکار تجربہ حاصل کر لیا ہے ۔ تعلیمی نتائج کو مارکیٹ کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنے کیلئے آئی ٹی انڈسٹری کیساتھ تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر ضرور دیا جانا چاہیے ۔ سوفٹ ائیر کی مہارتوں کو مزید نکھارنے کیلئے جامع پروگرام ترتیب دیئے جانے چاہیں ۔ کیریئر کی خدمات کو بہتر بنانے اور مضبوط صنعتی نیٹ ورک قائم کیا جائے تاکہ ہم بھی اس مےدان میں اپنے نوجوانوں کی صلاحےتوں سے استفادہ کر کے معاشی ترقی کو ےقےنی بنا سکےں۔ جس طرح ملک کے دےگر حصوں میں آئی ٹی پارکس بنائے جا رہے ہےں اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی آئی ٹی زونز بنائے جائےں۔